ڈاکٹر سیدہ عصمت جہاں
فارسی زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں شعبہ فارسی جامعہ عثمانیہ کے اساتذہ کا بہت اہم رول رہا ہے ۔ انہوں نے نہ صرف دکن میں فارسی کی شمع کو روشن رکھا بلکہ اپنی گراں قدر تخلیقات و نگارشات کے ذریعہ فارسی زبان و ادب کے دامن کو وسیع تر کیا ۔ بلاشبہ دکن کے فارسی ادب کی تاریح میں ان کے اسمائے گرامی ہمیشہ سنہری حرفوں میں لکھے جائیں گے ۔ یہاں موضوع بحث استاد ذی وقار ڈاکٹر زیب النساء المعروف بہ ڈاکٹر زیب حیدر کی ذات والا صفات ہے ۔
پہلی مرتبہ ویمنس کالج کوٹھی میں گریجویشن میں آپ سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ۔پھر آرٹس کالج جامعہ عثمانیہ میں ایم اے میں بھی آپ نے پڑھایا ۔ پی ایچ ڈی میں آپ میری نگراں مقرر ہوئیں تب آپ کو قریب سے جاننے کا اتفاق ہوا ۔ ڈاکٹر زیب حیدر ایک معزز سادات موسوی گھرانے میں 1940 میں حیدرآباد میں پیدا ہوئیں ۔ آپ اپنے والدین نواب سید محمد حیدر خاں اور وقار النساء کی پہلی اولاد تھیں ۔ آپ سے چھوٹے ایک بھائی سید محمد عباس خاں مرحوم اور دو بہنیں زینت النساء بیگم اور احمدی بیگم ہیں ۔ آپ تمام عمر مجرد رہیں ۔ اپنی بھتیجی سکینہ سلطان کو بیٹی بنالیا تھا ۔
ڈاکٹر زیب حیدر کی ابتدائی تعلیم کا آغاز مدرسہ مفید الانام سے ہوا ۔ ویمنس کالج کوٹھی سے گریجویشن کیا ۔ ایم اے فارسی اور ایم اے اردو آرٹس کالج جامعہ عثمانیہ سے کیا پھر آپ نے فزیکل ایجوکیشن میں ڈپلوما کیا ۔ آپ نے تدریس کا آغاز سنگاریڈی کے ایک کالج سے کیا پھر آپ محبوبیہ کالج میں فزیکل انسٹرکٹر مقرر ہوئیں ۔
پھر آپ نے جامعہ عثمانیہ سے ’’دارالانشا نظام‘‘ کے عنوان سے پروفیسر شریف النساء انصاری کی زیر نگرانی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور شعبہ فارسی جامعہ عثمانیہ میں فارسی کی استاد مقرر ہوئیں ۔ سال 2002 میں تدریسی خدمات سے سبکدوش ہوگئیں ۔ لیکن انکی علمی ، ادبی اور تحقیقی سرگرمیاں تادم آخر جاری رہیں ۔ ملک و بیرون ملک کے ادبی رسائل وجرائد میں آپ کے مضامین چھپتے رہے۔ قومی اور بین الاقوامی سمیناروں میں آپ نے اپنے تحقیقی مقالے پیش کئے ۔ آپ کی گراں قدر تصانیف میں ’’تاریخ دکن کے چند گوشے‘‘ ہے ، جو 1994 میں شائع ہوئی ۔ 1994 ہی میں آپ نے قادر خاں بیدری کی مشہور تاریخ ’’تاریخ آصفجاہی‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا ۔ یہ ادارہ تحقیقات شرقی سے شائع ہوا ’’ارمغان ہند و ایران‘‘ 1996 میں شائع ہوئی ۔ ’’بحر تحقیق‘‘ 2001 میں منظر عام پر آئی ۔ آپ کے پی ایچ ڈی کا مقالہ جو ’’دارالانشاء نظام‘‘ پر تھا 2002 میں لندن سے شائع ہوا ۔ یہ کتاب آپ کی محنت شاقہ اور اس سے زیادہ آپ کی تحقیقی نظر کی شاہد ہے ۔ ’’افکار و آثار‘‘ کے عنوان سے آپ کی آخری تخلیق 2008 میں شائع ہوئی ۔ آپ نے دکن کی مشہور تاریخ ’’ماہنامہ‘‘ پر ایک ریسرچ پراجکٹ کیا تھا ۔ آپ کو دکن کی تاریخ و تہذیب پر ملکہ حاصل تھا ۔
فارسی زبان و ادب میں آپ کے گراں قدر خدمات وکارکردگی کے اعتراف میں حکومت ایران کی جانب سے 1998 میں آپ کو ’’امام خمینی ایوارڈ‘‘ اسی طرح حکومت ہند کی جانب سے 1999 میں ’’باوقار پریسیڈنٹ ایوارڈ‘‘ اور خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران نئی دہلی کی جانب سے 2008 میں پہلا ’’سعدی ایوارڈ‘‘ سے آپ کو نوازا گیا ۔
ریسرچ کے دوران اکثر آپ کے گھر جانا ہوتا تھا ہر بار اصرار کرکے کھانا کھلاتیں ۔ جامعہ عثمانیہ میں بھی اکثر اصرار کرکے اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرتیں ۔ اور کہتیں کہ تم لوگ اتنا تکلف کررہے ہو میں تواکثر رضیہ آپا (پروفیسر رضیہ اکبر) کا ٹفن مانگ کر کھایا کرتی تھی ۔ سال 2001 میں خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران ، نئی دہلی میں منعقد ہوئے اٹھارویں دورہ بازآموزی میں آپ کے ہمراہ جانے کا اتفاق ہوا ۔ سارے ہندوستان سے فارسی کے سینئر اور جونیئر تقریباً سبھی اساتذہ شریک تھے وہاں پر ہر ایک آپ سے بڑے احترام سے مل رہا تھا ۔ یہ دیکھ کر مجھے آپ کے شاگرد ہونے پر فخر محسوس ہوتا تھا ۔ وہاں آپ نے سب سے میرا تعارف ’’یہ میری بیٹی ہے‘‘ کہہ کر کرایا ۔
ریسرچ کے دوران ایک دن زیب میڈم نے مجھ سے کہا کہ ولیم کے لئے کچھ فارسی ترجمہ کا کام کرنا ہے ۔ میں نے تمہارا نام کہہ دیا ہے ۔ میں نے کہا کہ میں یہ نہیں کرپاؤں گی کیونکہ مجھے اسکا کوئی تجربہ نہیں ہے ۔ کہنے لگیں کہ کوئی بھی ماں کے پیٹ سے کچھ سیکھ کر نہیں آتا ۔ دنیا میں آکر ہی سیکھتا ہے ۔ ہم نے بھی کرتے کرتے ہی سیکھا ہے ۔ لہذا میں نے ترجمہ کا کام کیا ولیم ڈیر لمپل کی ’’وائٹ مغلس‘‘ 2002 میں شائع ہوئی ۔ بعد میں ولیم کے شکریہ اور ستائش کے کئی خط بھی آئے ۔ تب معلوم ہوا کہ ہر کام کا کبھی نہ کبھی آغاز تو ہوتا ہی ہے ۔
شعبہ فارسی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کو بھی آپ کی خدمات حاصل رہیں ۔ آپ وہاں کی بورڈ آف اسٹڈیز اور اسکول بورڈ کی ممبر بھی تھیں ۔ ایک مرتبہ مجھ سے اور ڈاکٹر عزیز بانو صدر شعبہ فارسی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (ہم دونوں بھی آپ کے شاگردوں کی فہرست میں شامل ہیں) سے کہا کہ تم دنوں مل کر اتحاد و اتفاق سے رہنا کبھی اختلاف رائے بھی ہوگا مگر اپنے اتحاد کو ہرگز نہیں چھوڑنا اسے میری نصیحت نہیں بلکہ وصیت سمجھ کر یاد رکھنا ۔
آپ ہمیشہ علمی مشوروں کے ساتھ عملی زندگی سے متعلق بھی مشوروں سے نوازتیں اکثر کہتیں کہ اسے گرہ باندھ لو یہ ہمارے تجربہ کا نچوڑ ہے ۔ غرور ، تکبر سے کوسوں دور ۔ سادگی ، ملنساری ، مہمان نوازی ، اخلاص، شفقت ، ہمدردی آپ کی شخصیت کا خاصہ تھیں ۔ 9 اگسٹ 2013 ء تقریباً شام کے پانچ بجے کے قریب میں نے ایران جاتے ہوئے ممبئی ایرپورٹ سے آپ کو عید مبارک اور خدا حافظ کہنے کے لئے فون کیا ۔ پتہ نہیں تھا کہ یہی بات آخری بات ثابت ہوگی ۔ ایران سے واپسی کے بعد پتہ چلا کہ آپ ہاسپٹل میں شریک ہیں پھر آپ سے ملاقات تو ہوئی لیکن کوئی بات نہیں ہوئی ، آپ بات نہیں کرپارہی تھیں صرف آنکھیں کھول کر دیکھا ۔ آپ تقریباً چار مہینے علیل رہیں ۔ سکینہ نے بیٹی کا فرض اچھی طرح انجام دیا ۔ دن رات جی جان سے آپ کی تیمارداری کی ۔ اسی اثنا میں ایک اندوہ ناک اطلاع ملی کے جامعہ عثمانیہ کی ممتاز اور ہماری مشفق استاد پروفیسر بشیرالنساء اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئیں ۔ابھی اس غم سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ 16 ڈسمبر 2013 کی صبح بعمر 73 سال ڈاکٹر زیب حیدر بھی اپنے مالک حقیقی سے جاملیں ۔
فارسی زبان و ادب کی ان دو عظیم ہستیوں کے یوں یکے بعد دیگرے چلے جانے سے دنیائے فارسی میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے اس کا پر ہونا محال ہے ۔ ایسے ہی لوگ اپنے زبان حال سے کہہ جاتے ہیں کہ
ڈھونڈوگے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم