ڈاکٹر راج بہادر گوڑ زندہ جاوید شخصیت

تراب الحسن
راج بہادر گوڑ کہاں پیدا ہوئے، کب پیدا ہوئے اس تفصیل میں جانا بیکار ہے۔ میں تو اپنی یادداشت کی رہگذر پر رواں دواں یہ دیکھ رہا ہوں کہ ان سے ہمارا رشتہ بہت پرانا ہے، اس وقت سے جب وہ چادرگھاٹ ہائی اسکول میں پڑھتے تھے۔ ان کا گھر گولی پورہ میں تھا اور یہ اسکول عابد روڈ میں۔ وہ سائیکل پر اسکول جاتے تھے۔ ایک دن وہ عابد روڈ پولیس اسٹیشن کے قریب سڑک پار کررہے تھے کہ نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان کی کار تیز رفتارسے آرہی تھی۔ انہیں محسوس ہوا کہ وہ کار سے کچل جائیں گے۔ ہیبت میں سڑک کے بجلی کے کھمبے سے ٹکرا گئے۔ وہ ٹکر سے تو بچ گئے لیکن پولیس نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اور جب تک وہ اپنی غلطی مان نہ لیں۔ انہیں حراست میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، بھلا راج غیر ضروری الزامات پر سر جھکانے کو کیوں راضی ہوتے۔ ان کا مزاج تو لڑکپن سے عاشقانہ تھا۔ رات بھر وہ پولیس اسٹیشن میں رہے۔ دوسرے دن عدالت میںانہیں ایسے وقت لے جایا گیا جب عدالت کا وقت ختم ہونے میں کچھ ہی دیر رہ گئی تھی۔ وہ ملزموں کے کٹھرے میں کھڑے تھے پولیس کی کوشش تھی کہ انہیں ایک دن اور حراست میں رکھا جائے۔ مجسٹریٹ نے ایک نظر راج بہادر پر ڈالی اور ان کی معصوم صورت سے متاثر ہوکر سرکاری وکیل سے کہا، اس مقدمہ کی سماعت آج ہی ہوگی چاہے عدالت کو دو تین گھنٹے اور ٹھہرنا پڑے۔ سرکاری وکیل اور پولیس راج پر الزامات لگاتے رہے، ان کا جرم ثابت کرنے میں ہلکان مگر ان کو مجرم ثابت کرکے سزاء دلوانے میں ناکام رہے۔ ڈسٹرکٹ جج ؍ ناظم فوجداری نے پولیس کے بیانات کو صحیح ماننے سے انکار کیا۔ تیز سائیکل چلانے پر راج کو چار پانچ اٹھ بیٹھ کروائیں اور پولیس کو راج کی سائیکل واپس کرنے کی ہدایت دی۔ پولیس نے کہا کہ سائیکل بجلی کے کھمبے سے ٹکرانے کی وجہ سے استعمال کے قابل نہیں رہی۔ اس کو کچرے میں پھینک دیا گیا تو جج نے انہیں نئی سائیکل دینے کا حکم دیا۔ راج اطمینان سے اپنے گھر چلے گئے۔ اگلی صبح راج ڈسٹرکٹ جج کے گھر شکریہ ادا کرنے گئے۔ یہ گھر غلام پنجتن صاحب میرے والد صاحب کا تھا۔ شکریہ ادا کرنے پر پنجتن نے کہا ’’تم میرے بیٹے جیسے ہو، بیٹا باپ کا شکریہ ادا کرے کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ بس اسی دن سے راج گوڑ پنجتن صاحب کو پپا کہنے لگے، یہ رشتہ دونوں کے مرتے دم تک قائم رہا۔ پنجتن صاحب کا گھر راج کا گھر بن گیا۔ وہ وقت بے وقت آتے سب گھر والوں کے ساتھ کھانا پینا رہنا باتیں رہتیں۔ بڑھتی عمر کے ساتھ راج کی خوش مزاجی نے سب کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ اس گھر کے دروازے دوستوں، ملنے والوں کیلئے کھلے رہتے۔ چھ بیٹوں اور ایک بیٹی کے باپ ماں انتہائی کشادہ دلی سے آنے والوں کو خوش آمدید کہتے، سب کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنا، حالات حاضرہ پر بحث مباحثہ، ہنسی مذاق سبھی ہوتا ہے۔ آنے والوں میں ہمہ خیالات کے افراد شامل رہتے۔

راج بہادر گوڑ نے جیسے جیسے جوانی کی طرف قدم بڑھائے ان کے عزائم، نے بھی وسعت اختیار کرلی۔ جامعہ عثمانیہ سے ایم بی بی ایس اردو میڈیم سے پاس کیا لیکن انہیں احساس ہوا کہ مسیحائی تو کرونگا مگر سماج میں پھیلے ناسوروں سے بدحال مزدور پیشہ لوگوں کی، ظالم زمینداروں کے پنجے سے کچلے ہوئے کسانوں کی، بے زبان مظلوموں کی انگریزوں کے جبرو تشدد سے رہائی دلانے کی پھر کیا تھا وہ مختلف تنظیموں سے جڑ گئے۔ پہلے تو وہ آریائی سماج تحریک کے سرگرم کارکن ہوگئے پھر 1940ء میں کھادی تحریک سے متاثر ہوئے اور اس کے لئے سرگرداں رہے۔ اسی زمانے میں کامریڈ اسوسی ایشن میں مخدوم، جواد رضوی، مرزا حیدر حسن عالم خوندمیری وغیرہ کے ساتھ باقاعدہ سرگرم ممبر کی حیثیت سے کام کرنے لگے اور اپنی تحریروں اور شعلہ بیان تقریروں سے ان سماجی عناصر میں جان ڈالدی۔ انہیں تحریر اور تقریر دونوں میں یدطولیٰ حاصل تھا۔ انگریزی، ہندی، تلنگی اور اردو تو ان کی مداری زبان تھی اور انہیں اس سے عشق بھی تھا۔ ہر زبان میں موقع کی مناسبت سے فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیئے۔ کمال کی شخصیت تھی راج بہادر کی۔ شگفتہ مزاجی، بذلہ سنجی، برجستہ گوئی میں استاد۔ سنجیدہ مسائل کا حل وہ ہنستے بولتے تلاش کرلیتے۔ یہ ایسی صفات تھیں کہ ہر محفل میں چھا جاتے تھے۔ آہستہ آہستہ راج بہادر گوڑ کے ساتھ پنجتن صاحب کے گھر ان کے دوست مخدوم، جواد رضوی، سرینواس لاہوٹی، اختر حسن وغیرہ بھی آنے لگے۔ علمی ادبی محفلیں سجتیں، بحث مباحثے ہوتے، رونق رہتی۔ اس کے علاوہ گھر میں بہت عمدہ کتابوں سے بھرا کمرہ پڑھنے کا شوق رکھنے والوں کیلئے دلچسپی کا باعث تھا، سونے پر سہاگہ یگانہ چنگزی بھی آ کے رہ گئے تھے۔ ظاہر ان کی وجہ سے اعلیٰ پایہ کے شعراء کا جمگھٹا رہتا۔ راج بہادر گوڑ ٹریڈ یونین، کانگریس پارٹی، کمیونسٹ پارٹی سے جڑے تھے مگر اردو کے دلدادہ تھے۔ ان کے دوستوں نے انہیں اکسایا کہ کانگریس چھوڑو اور کمیونسٹ پارٹی پر توجہ دو تو راج نے کسانوں، مزدوروں کو مظالم سے نجات دلانے کی خاطر ہتھیار اٹھانا گوارہ کیا۔ ان کی سرپرستی میں پسماندہ طبقات میں اپنا حق مانگنے کا جذبہ سر ابھرنے لگا۔ ادھر ظالم حکومت کے سربراہوں کو خیال آیا کہ اگر اس تحریک نے زور پکڑا تو بہت پریشانی ہوگی اس کو ختم کرنے کیلئے مخدوم اور راج بہادر گوڑ کو جیل میں رکھا جائے۔ اس کی خبر ملتے ہی دونوں روپوش ہوگئے چونکہ انہیں روپوشی کے طریقوں کی زیادہ جانکاری نہ تھی جلد ہی گرفتار ہوجاتے۔ ایک بار راج اور جواد رضوی پکڑے گئے۔ جیل میں رکھا گیا وہاں ان کی طبعیت خراب ہوگئی، علاج کے لئے عثمانیہ دواخانہ میں شریک کیا گیا۔ باسط نامی اسٹوڈنٹ جو ٹریڈ یونین سے وابستہ تھا، اس نے ان کے ہاسپٹل سے فرار ہونے کا انتظام کیا اور یہ کامیاب ہوئے۔ راج اپنے ارادوں پر مسلسل عمل پیرا رہے۔ انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ ٹریڈ یونین کے مزدور طبقے کو مضبوط کریں گے وہ مخدوم، جواد رضوی، کے ایل مہندرا دوسرے ہم خیال افراد کے ساتھ اس جدوجہد میں سرگرم کبھی جلسے کرتے کبھی ہڑتالیں کرواتے، کبھی قید ہوتے کبھی روپوش ہوجاتے۔ ایک مرتبہ مخدوم اور راج پنجتن صاحب کے گھر میں پناہ گزین تھے ۔ وہ راج بہادر گوڑ سے واقف نہ تھے لیکن مخدوم کی کارگزاریوں کا بخوبی علم تھا۔ پولیس کے بعض خیرخواہ کو مخدوم کی مظلوموں سے ہمدردی کا احساس تھا، انہوں نے بیگم غلام پنجتن کو خبر دے دی کہ مخدوم کی تلاش میں پولیس آپ کے پاس آرہی ہے۔ بیگم صاحبہ مخدوم کو لیکر مہدی نواز جنگ کے گھر کے ایک گوشہ میں چھپا آئیں، پولیس والے ان کے گھر آتے، ہر کمرہ، ہر ممکنہ جگہ مخدوم کو ڈھونڈا کہیں سراغ نہ ملا۔ اتفاق سے پولیس والے راج کو نہیں جانتے تھے۔ انہیں دیکھ کر بھی بے تعلقی سے چلے گئے۔ اس طرح بیگم صاحبہ اپنی اسکیم میں کامیاب رہیں، بعد میں مخدوم واپس آگئے۔

راج بہادر گوڑ کی پوری زندگی محنت کش طبقوں کی دشواریوں کو دیکھتے انہیں ظلم برداشت کرتے، مجبور و محروم حالات سہتے دیکھتے گذری۔ انہوں نے دامے، درمے، سخنے ہر طرح ان کی مدد کی۔ ان کی خاطر قلم اور ہتھیار سے کام لیا۔ اپنوں کی محبت کو بالائے طاق رکھ کر، ان ضرورتمندوں کو گلے لگا لیا۔ اپنے اس مقصد کو پورا کرنے میں کیا کچھ تکالیف اٹھانا پڑیں، ان کے واقف کار سبھی جانتے ہیں لیکن ان کے قدم کبھی نہ ڈگمگائے۔ خوش مزاجی کا یہ حال تھا کہ دارورسن کے قصے چٹخارے لے کر سناتے تھے۔ یہ سب باتیں ایک طرف چلتی رہتیں تو دوسری طرف وہ اردو زبان کی مسیحائی میں مصروف رہتے۔ انہیں اردو زبان سے والہانہ محبت تھی۔ اپنی طالب علمی کا ذکر کرتے ہوئے سناتے تھے کہ مشہور شاعر میرے استاد صدیق جائسی اور چچا رائے محبوب نارائن کو دعائیں دیتا ہوں جنہوں نے مجھ میں ادب عالیہ اور شاعری کے مطالعہ کا ذوق پیدا کیا جس کے باعث میں اپنے تعلیمی وظیفہ سے کتابیں خریدتا تھا۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ لائبریری میں بیٹھ کر پڑھتا رہتا تھا۔ ان کا پہلا مضمون1934 ء میں روزنامہ ’’پیام‘‘ میں شائع ہوا۔ انہوں نے بے شمار مضامین لکھے جو ادبی معیار کے رہتے۔ سیدھی سادھی، سلیس زبان، شگفتگی اور دلکشی کے ساتھ مزا دوبالا ہوجاتا مگر وہ بڑی بے باکی سے اپنا مقصد بتا دیتے۔ جب ضرورت ہو تو قلم کو تلوار اور تلوار کو قلم بنانا ان کے لئے مشکل نہ تھا۔ بذلہ سنجی ان کا خاص وصف تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین، انجمن ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ ان کو اردو زبان کا رہنما کہیں تو غلط نہیں۔ وہ دو بار راجیہ سبھا کے رکن رہے۔ ساہتیہ اکیڈیمی اور گجرال کمیٹی کے ممبر رہے۔ بقول لئیق صلاح کے ’’راج ان کو سیاست میں بھی مال اور اردو محاذ پر بھی‘‘۔ مسائل ان کے لئے کبھی فکر و پریشانی کا باعث نہ بن سکے۔ اردو کی مدد کبھی انجمن ترقی اردو کے پلیٹ فارم سے کی تو کبھی قومی کونسل کے نائب صدر کی حیثیت سے مختلف طرح سے کی۔ اردو زبان کی حمایت میں تقریریں کرنے وہ ہندوستان کے ہر گوشے میں جاتے رہے۔ اردو کی حفاظت کی خاطر ہزار دقتوں کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے قدم نہ ہٹائے۔ انہوں نے جب محسوس کیا کہ اترپردیش میں جان بوجھ کر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے اور ہندی بولنے والوں کو اردو والوں کے خلاف صف آراء کیا جارہا ہے تو راج اس صورتحال کو ختم کرنے کی جدوجہد میں لگ گئے جو اردو زبان سے دلی محبت کا آئینہ دار ہے۔ اردو کی بحالی اور اس کو جائز حق دلانے کیلئے وہ ہمیشہ سرگرداں رہے۔ انہوں نے اردو کو قومی زبان بنوانے کی مسلسل کوشش کی۔ راج بہادر گوڑ کی شخصیت کا احاطہ کرنا مشکل بھی ہے، تفصیل طلب بھی کیونکہ ان کی ہمہ جہت کارنامے کئی خانوں میں بٹے ہوئے ہیں لیکن اس بات کا اعتراف کرنا ضروری ہے کہ وہ کشادہ ذہن، بصیرت، سلامت روی کے حامل اور غیرمعمولی سیکولر خصوصیات کے انسان تھے، ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تمام زندگی نئی نسلوں کی تربیت کرتے رہے۔ ان کا خلوص و ہمدری محدود نہیں۔ وہ فرقہ وارایت کے خلاف اور ہم آہنگی، یکجہتی کے علمبردار تھے۔ یہ جذبہ مرتے دم تک ان کے دل میں مؤجزن رہا جو انہیں اپنے بزرگوں سے وراثت میں ملا تھا۔ وہ دوسروں کی ضروریات کو پورا کرنا اپنا فرض مانتے تھے۔ اسی خیال کے مدنظر انہوں نے ہر طرح کی قربانی دی۔ آخری دم یعنی انتقال سے چند مہینے پہلے بھی جو رقم انہیں وظیفہ سے حاصل ہوتی جو معمولی نہیں لاکھوں میں تھی وہ اسکول کے طلبہ کے اسکالر شپ دینے کی ہدایت کے ساتھ دے دی اور ان کے انتقال کے بعد ان کا جسم میڈیکل کالج کے طالب علموں کے حوالے کرنے کی تاکید کی۔ انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ جسم سے روح کے پرواز کرنے کے بعد خون کے اٹوٹ رشتے بھی اپنے پاس نہیں رکھتے وہ یا تو دفن کردیتے یا جلادیتے ہیں لیکن یہی بے جان جسم میڈیکل طلبہ کیلئے ایک علم کے خزانے کے مماثل ہوتا ہے۔ بھلا ایسی دور رس نگاہی کا جو اب ہے؟ اس سخاوت پر تو حاتم طائی بھی قبر میں صد آفریں کہہ رہا ہوگا۔ اب میں اسکے سواء کیا کہہ سکتا ہوں ؎
سمٹ گیا ہے یہاں کتنی منزلوں کا جمال
نقوش پا ہیں یہ کس دلنواز راہی کے