رؤف خیر
ڈاکٹر حسن الدین احمد نے ہمیشہ چونکانے والی کتابیں ہی لکھیں۔ ان کے کئی کارنامے ہیں جن کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں ۔ فی الحال ہم کاروان خیال پر گفتگو کریں گے۔
اس کتاب کا پہلا مضمون ’’ہندوتوا‘‘ پر ہے۔ سب سے پہلے ونائک دامودر ساورکر نے 1923 میں اس موضوع پر لکھ کر مسلم دشمنی کا بیج بویا تھا۔ ویسے اس سے پہلے بنکم چندرچٹرجی نے برطانیہ نواز ناول ’’آنند مٹھ‘‘ میں نظم ’’وندے ماترم‘‘ لکھی جو کافی نزاعی ثابت ہوئی۔ بنکم چند چٹرجی انگریز سامراج کو ہندوؤں کے لئے بہتر سمجھتے تھے۔ وہ مسلمانوں کے خلاف بھی تھے۔ ہندوتوا کی بڑی تفصیلات ڈاکٹر حسن الدین احمد نے کتابوں کے حوالوں کے ساتھ پیش کی ہیں۔ آپ نے ایک جگہ لکھا :
’’ہندوستان پر پے در پے بیرونی حملوں کو نظرانداز کرکے مسلمانوں اور عیسائیوں ہی کے حملوں پر زور دے کر ان ہر دو عالمی مذاہب کے پیروؤں سے نفرت پر اپنے نظرئیے کی بنیاد رکھی جس کو صرف مریضانہ ذہنیت ہی کہا جاسکتا ہے‘‘۔
یہاں ڈاکٹر صاحب نے انگریزی زبان میں بھی حوالے کے طور پر چند پیراگراف درج کئے ہیں۔ وندے ماترم کا منظوم ترجمہ بھی پیش کیا ہے جو ارشد صدیقی نے کیا۔
’’ کیا ہند کے مسلمان سچ مچ پسماندہ ہیں‘‘؟ کے عنوان سے بھی ڈاکٹر حسن الدین نے خوب لکھ کر مسلمانوں کے ساتھ ناانصافیوں کا ذکر کیا مگر مایوسی سے بچنے کی تلقین بھی کی۔
عید میلاد النبی ؐ کے موقع پر عام مسلمان جو کچھ کرتے ہیں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے مشورہ دیا کہ اس روز نوجوانوں کو چا ہئے کہ خون کا عطیہ دیں تاکہ ضرورتمندوں کی جان بچائی جاسکے۔
ڈاکٹر حسن الدین احمد آزادی سے پہلے اور بعد بھی مختلف اعلیٰ عہدوں فائز رہے۔ انہوں نے اپنے مختلف ساتھیوں کے ساتھ ہونے والے معاندانہ سلوک کے حقیقی واقعات لکھ کر بتایا کہ سقوط حیدرآباد کے بعد مسلمان عہدیداروں کے ساتھ کس قدر تعصب کا برتاؤ روا رکھا گیا تھا۔ پولیس ایکشن کے بعد کئی عہدیداروں کو نااہل قرار دے کر تبادلے کردیئے گئے۔ کئی لوگوں کے خلاف تادیبی کارروائی کرکے انہیں جیل تک بھیجا گیا۔ ہر چند کہ بعد میں ان کی باعزت برأت عمل میں آئی۔ خود ڈاکٹر حسن الدین احمد کو اپنے ہی ماتحت راجہ ترمیک لال کا ماتحت بنادیا گیا۔ وجہ دریافت کرنے پر عہدیداران بالا نے زبانی ہمدردی دکھاتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ حکومت کی پالیسی ہے کہ کسی محکمے کا ناظم (DIRECTOR) مسلمان نہ ہو۔ نہایت قابل عہدیدار سجاد مرزا 15 سال سے زیادہ تک محکمہ تعلیمات میں سکریٹری (معتمد) تھے۔ پولیس ایکشن کے بعد متعصب وزیرتعلیم پھول چند گاندھی نے انہیں نااہل قرار دے کر جبری وظیفے پر علحدہ کردیا مگر اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ اقوام متحدہ نے ان کی خدمات حاصل کیں اور انہیں نو ممالک کا مشیر تعلیم مقرر کیا۔نواب دین یار جنگ کو بھی جھوٹے الزامات کے تحت چنچلگوڑہ جیل بھیج دیا گیا تھا مگر ہر دلعزیز رہنما اور وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے ان سے ملاقات کے بعد ان تمام جھوٹی کارروائیوں کو ختم کروادیا۔
اسی طرح میر معظم حسین ایچ سی ایس جنہیں وائسرائے ہند لارڈ ویول کی ایماء پر برطانوی حکومت نے گجرات کا دیوان (چیف منسٹر) مقرر کیا تھا، پولیس ایکشن کے بعد ان پر غلط الزامات لگا کر مقدمات چلائے گئے اور پھانسی کی سزاء دی گئی بعد میں وہ سزاء تا حیات قید میں تبدیل کی گئی مگر اپیل میں معظم حسین باعزت بری ہوگئے۔ بری ہونے کے بعد ان کی قابلیت کے پیش نظر یونیسکو نے ان کا اعلیٰ عہدہ پر تقرر کیا۔ ایسے کئی واقعات کا ڈاکٹر حسن الدین احمد نے بڑی بے باکی سے مگر مدلل بیان کیا۔محمد حیدر، ظہیراحمد اور ہاشم علی اختر کے ساتھ بھی ناانصافیوں کا ذکر کیا گیا مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔
مگر آج ہندوستانی حکومت جمہوری اقدار کا لحاظ کرتی ہے۔ میرٹ کی بنیاد پر اعلیٰ عہدے دیئے جاتے ہیں اور قانون کی حکمرانی ہے۔ ہمارا ہندوستانی قانون سب کیلئے ایک نعمت ہے۔ اس قانون کے تحت انصاف کے لئے آواز اٹھائی جاسکتی ہے۔ آج ہر میدان میں مسلمان بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ حتیٰ کہ جناب عبدالکلام صدرجمہوریہ بنائے گئے۔ جناب حامد انصاری آج بھی نائب صدر جمہوریہ ہیں۔ جسٹس ہدایت اللہ اور ڈاکٹر ذاکر حسین بھی ہندوستان کے باوقار عہدوں پر فائز رہے۔
کاروان خیال میں چند کتابوں پر تبصرے بھی شامل کرلئے گئے ہیں۔ مولوی چراغ علی کی کتاب مقدمہ تحقیق الجہاد ۔ حافظ محمد علی حسینی مولوی کامل جامعہ نظامیہ کی تصنیف ’’تاریخ اسلام کے مسخ کردہ حقائق‘‘ پر ڈاکٹر حسن الدین احمد صاحب نے مختصر مگر جامع تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا
’’سب سے زیادہ ضرر رساں وہ عجمی تھے جو عربی زبان کے ماہر تھے جنہوں نے واقعات کی ملمع سازی اور تدلیس کرکے انہیں ایسی بدنام شکل میں پیش کیا کہ خود قوم کے تعلیمیافتہ مسلمانوں کی ایک قابل لحاظ تعداد کو اپنی تاریخ سے گھن آنے لگی‘‘۔ مگر حافظ محمد علی حسینی نے بڑی عرق ریزی سے ان مسخ کردہ حقائق کی اصلیت بیان کرکے تعلیم یافتہ طبقے کو گمراہ ہونے سے بچا لیا۔
ڈاکٹر حسن الدین احمد نے مصلحت آمیز انداز میں یہ فرمایا کہ ’’حق تمام فرقوں میں بٹا ہوا ہے‘‘۔ معاف کرنا ہم ڈاکٹر صاحب سے اتفاق نہیں کرسکتے۔ حق کی تقسیم نامناسب ہے۔ حق صرف ایک ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ باطل پر البتہ فرقے جمع ہوجاتے ہیں۔ حق پر صرف اہل حق ہی متحد ہوتے ہیں۔محب حسین (1849-1929) کی ’’مثنوی اسرارِ تناسخ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے تناسخ کے تعلق سے ڈاکٹر حسن الدین احمد نے ان کی رائے پیش کی کہ ’’ایک قابلِ لحاظ تعداد ’’رجعت‘‘ کا اعتقاد رکھتی ہے اور رجعت تناسخ کے مرادف اور بہ الفاظ دیگر آواگون ہے‘‘۔
اپنی کتاب ’’انتخاب ساز مغرب‘‘ کے تعارف میں ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں : ساز مغرب ۔ اردو آہنگ میں‘‘ گیارہ حصوں پر مشتمل ہے جو تقریباً تین ہزار صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ ان کے مقالے انگریزی شاعری کے اردو منظوم ترجموںکا تنقیدی و تحقیقی مطالعہ پر جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی نے 1979ء میں ڈاکٹر حسن الدین احمد کو پی ایچ ڈی کی سند عطا کی۔بھگوت گیتا کے منظوم تراجم (صلاح الدین چودھری) پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے انکشاف کیا کہ بھگوت گیتا کے تاحال 79 تراجم شائع ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک علحدہ مضمون میں ان تراجم کا تفصیلی تعارف بھی پیش کیا تھا۔ بہرحال کاروانِ خیال ڈاکٹر حسن الدین کے تجربات، احساسات و مشاہدات کی دستاویز ہے۔ اسے ہر کتب خانے کی زینت ہونا چاہئے اور ہر صاحبِ ذوق کی نظر سے اسے گذرنا چاہئے۔