ظہیرالدین علی خان
مینجنگ ایڈیٹر روزنامہ سیاست
ہندوستان اور چین دنیا کی دو بڑی طاقتیں بننے کی سمت بڑی تیزی کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ سائنس و ٹکنالوجی، تعلیم و تحقیق، خلائی سائنس، صنعت و تجارت، بینکنگ اور دفاعی شعبہ میں جنوبی ایشیاء کے ان دونوں ملکوں کی مثالی ترقی پر مغربی دنیا حیران ہے انھیں حیرانی اس بات پر ہے کہ عالمی سطح پر کثیر آبادی کے حامل ہونے کے باوجود یہ ممالک کیسے ترقی کی منازل طے کررہے ہیں۔ حال ہی میں ہم نے نائب صدرجمہوریہ جناب حامد انصاری کے ہمراہ چین کا دورہ کیا۔ اس سے قبل بھی ہم چین کا دورہ کرچکے ہیں لیکن حالیہ دورہ کا فائدہ یہ رہا کہ 15 تا 20 برسوں کے دوران چین نے جو ترقی کی ہے اسے سمجھنے اور وہاں کے مسلمانوں کے حالات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بیجنگ کے جن مقامات کا جناب حامد انصاری نے دورہ کیا ہمیں بھی ان کے ہمراہ ان مقامات کے مشاہدہ کا موقع حاصل رہا۔ اور یہ دیکھ کر کوئی حیرت بھی نہیں ہوئی کہ چین میں سلم بستیوں کا صفایا ہوگیا ہے۔ سڑکوں پر ہمیشہ جو سیکلیں نظر آتی تھیں ان کی تعداد گھٹ کر رہ گئی ہے۔
ہم بیجنگ اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کی ترقی اور ہند ۔ چین تعلقات کے تناظر میں سب سے پہلے سورہ الانفعال کی یہ آیت ، ترجمہ : اور اے محبوب یاد کرو جب کافر تمہارے ساتھ مکر کرتے تھے کہ تمہیں بند کرلیں یا شہید کردیں یا نکال دیں اور وہ اپنا سا مکر کرتے تھے اور اللہ اپنی خفیہ تدبیر فرماتا تھا اور اللہ کی خفیہ تدابیر سب سے بہتر ہے‘‘ پر غور کرنے لگے جبکہ ہندوستان کی ترقی کا خیال آتے ہی ذہن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث بھی بار بار آتی رہی ’’جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ہند سے مجھے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے‘‘۔ بعض روایتوں میں ایسا بھی آیا ہے ’’ہند سے مجھے خوشبو آرہی ہے‘‘۔ اس حدیث کے ساتھ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حدیث پر بھی غور کرنے کا ثواب حاصل کرتے رہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’اگر تمہیں حصول علم کیلئے چین جانا پڑے تو جاؤ‘‘۔ مذکورہ آیت اور احادیث مبارکہ کو اپنے قلب و ذہن میں سمائے ہم چین کے مختلف مقامات کا دورہ کرتے رہے۔ واضح رہے کہ چین دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقتوں میں سے ایک ہے اور آثار و قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ آنے والے چند دہوں میں وہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن کر اُبھرے گا۔ اس طرح ہندوستان بھی اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ پھر حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہندوستانی شہریوں کی بہ نسبت چینی بہت زیادہ محنتی اور ڈسپلن کے پابند ہیں۔ اس قوم کو اپنی زبان، اپنی تہذیب اور روایات سے بہت پیار ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اور رقبہ کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہونے کے باوجود اسے آبادی کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے اس کی اہم وجہ وہاں کی گھریلو صنعتوں کا فروغ ہے۔ حکومت نے ایک منصوبہ بند طریقہ سے چھوٹی چھوٹی صنعتوں کو فروغ دینا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے چین کے ہر شہر ہر محلہ میں گھریلو مینوفیکچرنگ یونٹس کام کرنے لگے اور آج حال یہ ہے کہ ساری دنیا بالخصوص مشرق وسطیٰ اور ہندوستان کے بازاروں میں چینی اشیاء کی بھرمار ہے۔ اس دورہ میں میں نے خاص طور پر چین کی ترقی اور اس میں مسلمانوں کے رول کا بھی بچشم خود مشاہدہ کیا ہے۔ چین میں مسلمانوں کے موقف کے بارے میں کچھ بتانے سے قبل اس کی آبادی اور مسلمانوں کے تناسب کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ چین کی آبادی 1.35 ارب نفوس پر مشتمل ہے ۔ سرکاری سطح پر مسلمانوں کی آبادی 2 فیصد بتائی جاتی ہے لیکن غیر سرکاری ذرائع کے مطابق ان کی آبادی 8 تا 10 فیصد ہے اور سارے چینی مسلمان اپنے دیگر ابنائے وطن کی طرح محنتی دیانتدار ہیں۔
ان لوگوں نے زیادہ تر تجارت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا ہے۔ چین میں ماؤزے تنگ کی زیرقیادت کمیونسٹ انقلاب کے ساتھ ہی عوام کو مذہب سے دور کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ روس اور وسطی ایشیاء کے دیگر ممالک کی طرح چینی مسلمانوں نے ہر حال میں اسلام کو اپنے سینے سے لگائے رکھا۔ جیسا کہ میں نے سطور بالا میں سورہ الانفال کی ایک آیت کے ترجمہ کا حوالہ دیا ہے۔ وہ دراصل چین میں کمیونسٹوں کے زور اور مسلمانوں کی حالت کو واضح کرتی ہے۔ ملک میں شاہی حکومت کے خاتمہ کے بعد ماؤزے تنگ کی زیرقیادت کمیونسٹوں کا دور شروع ہوا۔ کمیونسٹوں نے آبادی کو روکنے کی خاطر بڑی مکاری سے ایک جوڑا ایک بچہ قانون نافذ کردیا لیکن وہ خود اپنے مکر کے جال میں پھنس گئے۔ ان لوگوں نے ہن چینیوں کیلئے ایک بچہ اور دیگر 56 نسلی اقلیتوں بشمول مسلمانوں کے لئے دو بچے پالیسی پر عمل شروع کردیا۔ ہنس جوڑے اگر دو بچے پیدا کرتے تو ان پر جرمانے عائد کئے جاتے۔ اگر فوجی عہدیدار ہوتے تو انھیں ملازمت سے برطرف کردیا جاتا۔ اس کے برعکس ایک بچہ پالیسی پر عمل کرنے والوں کو خصوصی مراعات دیئے جاتے۔ جس کے سبب ہن نسلی باشندوں کی بہ نسبت 56 نسلی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا۔ دوسری طرف ہن مرد اور خواتین کو ایک ہی بچہ پیدا کرنے کی عادت ہوگئی۔ وہ دوسرے بچہ کی پیدائش کے بارے میں سوچنے سے بھی گریز کرتے۔ جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا کہ چین میں مسلمانوں کو ہر دور میں اہمیت حاصل رہی۔ تقریباً 1350 سال قبل چین میں اسلام کی روشنی پھیلی۔ بعض چینی مورخین کے خیال میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پردہ فرمانے کے بعد ہی مسلمان چین پہونچے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلام کی 616-18 میں صحابی رسول حضرت سعد ابن ابی وقاص، سعید، وہاب ابن حبشہ اور دیگر صحابہؓ کے ذریعہ چین میں آمد ہوئی اور تاریخ میں آیا ہے کہ حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ چینی بادشاہ گوزانگ کے ہاں اسلامی سفیر بناکر بھیجے گئے۔ اس طرح وہاں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۰ ہیپو شینگ میں 627 ء میں مسجد کی بنیاد ڈالی گئی اورپھر ژیان کی عظیم جامع مسجد کی تعمیر عمل میں آئی۔ یہ تقریباً 1350 سالہ قدیم مسجد ہے جسے اس ملک میں مسلمانوں کی روایتی اسلامی شناخت کی علامت بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ژبان وسطی چین کا تاریخی دارالحکومت ہے جو مسلمانوں اور ٹپری کٹوہ جنگجوؤں کیلئے جانا جاتا ہے۔
چین میں مسلمانوں کے مضبوط موقف کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ہزاروں منگولوں نے دامن اسلام میں پناہ لی تھی۔ 22 صوبوں 5 خود مختار علاقوں بے شمار بلدیات اور خصوص زیرانتظام علاقوں کے اس ملک میں جہاں 1912 ء تک شاہی حکومت تھی مسلمان خوشحال ہیں اور ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔ بیجنگ کی بجائے شاہی حکومت کے وقت شینگ دارالحکومت ہوا کرتا تھا لیکن سلک روٹ (وسطی ایشیاء) کے ذریعہ چین میں داخل ہونے والے مسلم تاجرین اور پھر ان کی دیانت داری اور شفاف معاملات کو دیکھ کر اسلام بڑی تیزی سے پھیلنے لگا اور اس علاقہ میں مسلمانوں کی آبادی میں زبردست اضافہ ہوا۔ جس سے خائف ہوکر بیجنگ کو دارالحکومت بنادیا گیا۔ اس علاقہ میں مسلمانوں کے لئے باضابطہ مسلم کوارٹرس بنائے گئے تھے جو آج بھی موجود ہیں۔ چین میں کمیونسٹوں نے مسلمانوں کی آبادی اور اسلام کی مقبولیت کو روکنے بڑی چالاکی کا مظاہرہ کیا لیکن ان کی چالاکی خود ان پر بھاری پڑ گئی۔ روس میں کمیونزم کی آمد کے ساتھ ہی جس طرح مساجد مدارس پر تالے ڈالے گئے اور مسلمانوں کی زبان ختم کردی گئی تاہم چین میں کمیونسٹوں نے اسلام کو دبانے کی بہت کوشش کی لیکن ان کی عقلوں پر پردے پڑ گئے تھے جس کے نتیجہ میں وہ مسلمانوں کی شادیوں پر امتناع عائد نہ کرسکے۔ چین کے 31 سے زائد صوبوں اور مرکز زیرانتظام علاقوں و بلدیات میں 7 علاقے یا صوبے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 10 تا 50 فیصد بتائی جاتی ہے۔
چین کے دورہ میں ، میں نے دیکھا کہ ژیان کی جامع مسجد کے قریب کئی کیلو میٹر تک سڑکوں کے دونوں جانب جو دکانات، ہوٹلیں اور کاروباری ادرے ہیں وہ مسلمانوں کے ہی ہیں۔ ان دوکانات میں آپ کو خطاطی کے بہترین روح و قلب میں تازگی پیدا کرنے والے نمونے دکھائی دیں گے۔ ہر دکان پر بسم اﷲ الرحمن الرحیم اور کلمہ طیبہ ضرور لکھا ہوگا۔ چین کے موجودہ حالات مسلمانوں اور فروغ اسلام کیلئے بہت موزوں ہیں۔ چینی حکومت اچھی طرح جان گئی ہے کہ مسلمانوں کے بغیر ان کا وجود نامکمل رہ جائے گا۔ اگر ملک کو حقیقت میں دنیا کی بڑی معاشی طاقت بنانا ہے تو پھر مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔ ترقی کا سفر وہ مسلمانوں کے بغیر طے نہیں کرسکتے لہذا چینی حکومت شینگ ژیان جیسے مسلم اکثریتی علاقوں میں سڑکوں کا جال بچھارہی ہے۔ ریل کی سہولتیں دی جارہی ہیں۔ طیرانگاہ تعمیر کئے جارہے ہیں۔ مسلمانوں میں جو احساس کمتری اور احساس محرومی ہے اسے دور کیا جارہا ہے۔ مقامی افراد سے بات چیت سے پتہ چلا کہ گزشتہ دس پندرہ برسوں کے دوران مذہبی تعلیم کے حصول میں بھی ڈھیل دی جارہی ہے۔ چینی مسلم نوجوانوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت بھی دی جارہی ہے۔ شینگ میں چینی کھانوں کی فوڈ اسٹریٹ ہے۔ جو رات دو بجے تک بھی کھلی رہتی ہیں جہاں یومیہ تین لاکھ لوگ کھانا کھاتے ہیں۔ جامع مسجد ژیان مکمل چوبی مسجد ہے۔ ہر دور میں اس کی تزئین نو کا کام ہوتا رہا۔ اس مسجد میں بہ یک وقت 6 تا 7 ہزار مصلی نماز ادا کرتے ہیں۔ مسجد کے قریب بازار میں ہم نے ایسی 12 یا 13 دکانات کا مشاہدہ کیا جہاں چینی فن خطاطی کے نادر و نایاب نمونے رکھے ہوئے تھے۔ چینی شہری کوریا اور جاپانی خطاطی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ بیجنگ میں تمام ہوٹلوں پر حلال فوڈ کے بورڈس لگے ہوئے ہیں۔ دارالحکومت میں بھی مسلمان کافی تعداد میں ہیں۔ چینیوں کیلئے تعلیم لازمی ہے جبکہ دین ہم اسلام کے ماننے والے تعلیم کے شعبہ میں بہت پیچھے ہیں حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر سب سے پہلی جو آیت نازل ہوئی وہ علم کے بارے ہی ہے۔ چینیوں کی تعلیمی ترقی کو دیکھ کر ہمیں احساس ہوا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو حصول علم کا حکم دیتے ہوئے چین جانے کی جو ہدایت دی ہے اس کے ذریعہ مسلمانوں کو یہ پیام دیا گیا ہے کہ چین دین کیلئے زرخیز ہے۔ مسلمان چاہے تو وہاں تجارت و تعلیم کے غرض سے جاکر اللہ کے بندوں تک دعوت دیں۔ پہنچا سکتے ہیں۔ ویسے بھی چین کے میڈیکل کالجس میں خوشحال گھرانوں کے لڑکے لڑکیوں کیلئے ایم بی بی ایس کرنے کے بہتر مواقع دستیاب ہیں۔ سارے کورس کی تکمیل کیلئے زائداز 15 لاکھ روپئے کے مصارف آتے ہیں۔ جبکہ ہندوستان میں میڈیکل نشست کیلئے 40 تا 70 لاکھ روپئے دینے پڑتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کالجس میں مسلم طلبہ کیلئے تمام سہولتیں ہیں۔ مساجد تعمیر کی گئی ہیں۔ حلال فوڈ فراہم کیا جاتا ہے۔ مسلم طلبہ اس سے فائدہ اُٹھاکر چین جاکر تعلیم حاصل کرنے سے متعلق حدیث پاک پر عمل کرنے کا اعزاز حاصل کرسکتے ہیں۔ اب چلتے ہیں مختلف شعبوں میں ہندوستان اور چین کے تعلقات کی طرف۔ ظاہری طور پر دونوں پڑوسی ملکوں میں سرحدی مسئلہ پر کشیدگی پائی جاتی ہے۔ لیکن دونوں نے باہمی تجارت میں ان اختلافات کو رکاوٹ بننے نہیں دیا۔ جس کے نتیجہ میں سال 2013 ء میں ہند ۔ چین باہمی تجارت 65.45 ارب ڈالرس ہوگئی جبکہ 2011 میں باہمی تجارت 75 ارب ڈالرس تک پہنچ گئی تھی۔ آئندہ سال اس تجارت کو 100 ارب ڈالر تک پہنچانے کا نشانہ مقرر کیا گیا ہے لیکن اس تجارت کا سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہی ہوا ہے اس لئے کہ ہندوستان چین سے بے شمار اشیاء ہیوی مشنریز سے لے کر پلاسٹک کی گلاسیس سوئی سے لے کر سبل تک درآمد کررہا ہے۔ ایسے میں تجارتی خسارہ 35 ارب ڈالرس تک جا پہنچا اس معاملہ میں نائب صدرجمہوریہ جناب حامد انصاری نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ تجارت کے اس عدم توازن کو ختم کیا جانا چاہئے۔ ایسے میں دونوں حکومتوں نے ایک ایسی صورت نکالی ہے جس سے چین تجارتی تعلقات میں توازن پیدا کرنے کیلئے ہندوستان میں سرمایہ کاری کرے گا کیونکہ اس کے بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر میں کھربوں ڈالر پڑے ہوئے ہیں اور فی الوقت انفراسٹرکچر کیلئے ہندوستانی حکومت کو ایک کھرب ڈالرس کی سخت ضرورت ہے۔ چین کی دولت ہندوستان میں محفوظ رہ سکتی ہے کیونکہ چین کی بہ نسبت ہندوستان نوجوانوں کا ملک ہے یہاں 29 سال اوسط عمر کے نوجوان بہت زیادہ ہیں۔ چین میں یہ عمر کا یہ اوسط 39 سال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستانی چینیوں سے دس سال جوان ہیں۔ اس کے برخلاف یوروپ اور امریکہ بوڑھوں کے ملک ہوگئے ہیں وہاں جوان کم بوڑھے زیادہ ہیں۔ عالمی تناظر میں بھی چین کو ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ جناب حامد انصاری کے دورہ میں جو معاہدات کئے گئے ہیں ان میں ہندوستان کے 12 شہروں میں صنعتی پارکس کی تعمیر، بلٹ پروف ٹرینیں اور شمسی توانائی کے پراجکٹس شروع کرنا شامل ہیں۔ چینا شمسی توانائی کے شعبہ میں بہت ترقی کرچکا ہے۔ ایک میگاواٹ کا پاور پلانٹ قائم کرنے چار سال قبل 18 تا 20 کروڑ روپئے کے مصارف آتے تھے لیکن آج 5 تا 6 کروڑ روپئے کے مصارف آرہے ہیں۔ بہرحال چین نہ صرف ہندوستان بلکہ سارے مسلم ملکوں کیلئے ترقی کی شاندار مثال ہے اورہندوستان میں جو مواقع اور صلاحیتیں ہیں اس کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں۔
وحدت کی لے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے