چینی صوبہ میںیوئغور مسلمانوں کیخلاف کارروائی ،20 ہلاک

پرامن احتجاج پر پولیس فائرنگ کی وجہ سے لڑائی ہوئی، جلاوطن گروپ کا الزام
بیجنگ ۔ 19 جولائی (رائٹرس) مغربی چین کے شورش زدہ ژینجیانگ خطے میں ایک پولیس اسٹیشن میں پیش آئی جھڑپ جس میں کم از کم 4 افراد کی موت ہوئی، دراصل ’’ایک دہشت گرد حملہ‘‘ تھا، ایک سرکاری عہدیدار نے آج یہ بات کہی، لیکن جلاوطن یوئغور گروپ نے پرامن احتجاجیوں پر پولیس فائرنگ کا الزام عائد کیا ہے۔ ژنہوا نیوز ایجنسی نے آج کہا کہ پولیس نے صحرائی شہر ہوتان میں کئی فسادیوں کو گولی ماردی، جنہوں نے پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا تھا۔ یہ تقریباً ایک سال میں ژینجیانگ میں اپنی نوعیت کا بدترین تشدد دیکھنے میں آیا ہے، لیکن جرمنی نشین جلاوطن گروپ ورلڈ یوئغور کانگریس نے سرکاری بیان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہیکہ 20 یوئغور باشندوں کو ہلاک کیا گیا جن میں سے 14 کو شدید زدوکوب کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتارا گیا اور 6 کو گولی ماری گئی۔ اس کے علاوہ 70 دیگر افراد کو گرفتار کیا گیا حالانکہ وہ پرامن احتجاج کررہے تھے۔ پولیس کی فائرنگ کے سبب دونوں فریقوں کے درمیان لڑائی چھڑ گئی۔ ان دونوں بیانات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جاسکی ہے۔ بیجنگ جو کمیونسٹ پارٹی کی اقتدار پر گرفت کو خطرہ اور عدم استحکام سے خائف ہے، اکثر ژینجیانگ میں پرتشدد علحدگی پسند گروپوں پر پولیس اور دیگر حکومتی ٹارگٹس کو حملوں کا نشانہ بنانے کا موردالزام ٹھہراتا آیا ہے۔ بیجنگ کا کہنا ہیکہ یہ گروپ القاعدہ یا وسطی ایشیائی عسکریت پسندوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تاکہ مشرقی ترکستان کے نام سے آزاد مملکت کا قیام عمل میں لاسکیں۔ علاقائی دفتر اطلاعات کے سربراہ ہوہانمین نے رائٹرس کو فون پر بتایا کہ یہ یقینی طور پر دہشت گردانہ حملہ تھا، لیکن اس کے پیچھے کس تنظیم کا ہاتھ ہے اس تعلق سے ہنوز تحقیقات جاری ہیں۔ مہلوکین کی تعداد سے عنقریب واقف کرایا جائے گا۔ یوئغور باشندوں کی اکثریت جو ترک زبان بولنے والے مسلمان ہے، بیجنگ کی حکمرانی سے ناراض ہے کیونکہ ان کی زبان، ان کی ثقافت اور ان کے مذہب پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ ژینجیانگ کی آبادی میں ان کا تقریباً نصف حصہ ہے جبکہ چین کے دیگر حصوں سے اکثریتی ہان برادری کی جانب سے کئی دہوں تک نسل مقام کے بعد اس خطے کی آبادی بڑھی ہے۔