چیف منسٹر کی کارکردگی موضوع تعریف !

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ میں سیاسی سرگرمیاں اور لیڈروں کی ریاضت عروج پر ہے ۔ حکمراں پارٹی میں پناہ لینے والوں کی قطار لگ رہی ہے ۔ مرکز کی بی جے پی حکومت ہوسکتا ہے کہ گجرات انتخابات کے بعد لوک سبھا کے انتخابات کا اعلان کردے اور آئندہ سال اگست ستمبر 2018 میں عام انتخابات ہوجائیں ۔ اس لیے تلنگانہ میں اپوزیشن پارٹیوں کے اہم قائدین اپنی سرپرست پارٹیوں کو خیرباد کہہ کر ٹی آر ایس کو پسند کرنے لگے ہیں ۔ بی جے پی بھی آئندہ انتخابات سے قبل ٹی آر ایس سے اتحاد کرنے کی فراق میں ہے ۔ صدر بی جے پی امیت شاہ بھی گجرات انتخابات کے بعد اپنی توجہ تلنگانہ پر مرکوز کریں گے اور ہوسکتا ہے کہ ٹی آر ایس صدر چندر شیکھر راؤ سے راز و نیاز کے بعد بی جے پی ۔ ٹی آر ایس اتحاد پر زور دیں گے ۔ صدر کانگریس کی حیثیت سے راہول گاندھی نے بھی خم ٹھونک کر ملکی سیاست کی حدت میں مسلسل اضافہ کرنا شروع کردیا ہے ۔ مرکزی حکومت کے لیڈر کی زبان و بیان میں بہت تلخی نظر آرہی ہے ۔ سونیا گاندھی کے سپوت راہول گاندھی میدان مارنے کے دعوے کررہے ہیں ، ان کی صدارت میں تلنگانہ کانگریس کو بھی حوصلہ ملتا نظر آرہا ہے ۔ تلنگانہ میں سیاست کو جنگل کی سیاست بنانے والی حرکتوں کے درمیان تلنگانہ تلگو دیشم سے نکل کر ٹی آر ایس میں شامل ہونے والی اوما مادھو ریڈی نے اپنے فرزند سندیپ ریڈی کو بھونگیر سے ٹی آر ایس کا ٹکٹ دلانے کی شرط کے ساتھ ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرلی ۔ تلنگانہ تلگو دیشم سے کوڑنگل کے رکن اسمبلی ریونت ریڈی کے استعفیٰ اور کانگریس میں شمولیت کے ساتھ ہی اوما مادھو ریڈی بھی کانگریس میں شامل ہونے کی تیاری کررہی تھیں اور وہ ریونت ریڈی کے ساتھ ہی دہلی پہونچ کر کانگریس ہائی کمان سے ہاتھ ملانا چاہتی تھیں لیکن کانگریس نے انہیں پارٹی میں اہم عہدہ دینے کا تیقن نہیں دیا تو انہوں نے اپنی دل بدلی کا رخ کانگریس سے ہٹا کر ٹی آر ایس کی جانب کردیا ۔ اب تلنگانہ تلگو دیشم اہم قائدین سے خالی ہوچکی ہے ۔ اس پارٹی کا تلنگانہ سے صفایا کروایا جاکر یہاں بی جے پی کو اہم مقام فراہم کرنے کی راہ ہموار کرنے والی ٹی آر ایس ہوسکتا ہے کہ آئندہ سال جنوری میں بی جے پی صدر امیت شاہ کی خواہش یا دباؤ پر بی جے پی سے اتحاد کرے گی تو تلنگانہ کا سیکولر رائے دہندہ کے لیے ایک بہت بڑا دھکہ ہوگا کیوں کہ ٹی آر ایس کو زبردست کامیابی دلانے میں تلنگانہ کے سیکولر عوام کا اہم رول رہا ہے ۔ سمجھا جارہا ہے کہ صدر بی جے پی امیت شاہ جنوری میں تلنگانہ کا دورہ کر کے ٹی آر ایس سے اتحاد کی راہ ہموار کرلیں گے ۔ تلنگانہ بی جے پی کے قائدین اس سلسلہ میں میدان تیار کررہے ہیں ۔ یہ کہا جارہا ہے کہ تلگو دیشم تلنگانہ سے مکمل طور پر صفایا کرنے اور تلنگانہ کے تلگو عوام کو گمراہ کرنے کی غرض سے حکمراں پارٹی کے سربراہ نے خفیہ منصوبے بنائے ہیں ۔ ان منصوبوں میں تلگو کانفرنس بھی ہے ۔ ورلڈ تلگو کانفرنس منعقد کر کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ تلنگانہ میں تلگو دیشم پارٹی کے روایتی ووٹ بینک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ تلنگانہ میں بھی این ٹی راما راؤ کے کئی حامی ہیں جو تلگودیشم پارٹی سے ہمدردی رکھتے ہیں ۔ این ٹی راما راؤ نے ہی تلگو کو فخریہ طور پر بلند مقام عطا کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد سے تلگو دیشم یہاں بتدریج زوال کا شکار ہے ۔ کے سی آر کے ناقدین کہتے ہیں کہ اب ٹی آر ایس میں تلگو زبان کی متبادل محافظ ہونے کے طور پر خود کو پیش کررہی ہے ۔ تلنگانہ کے جذبات کے ساتھ ٹی آر ایس نے 2014 کے انتخابات میں تلنگانہ عوام کو دھوکہ دیا تھا اب 2019 کے انتخابات میں وہ تلگو جذبات کے سہارے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرے گی ۔ ظاہر کی آنکھ سے ایک تماشا ہونے جارہا ہے ۔ ٹی آر ایس کے صدر کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے ادنیٰ ورکر تک اتنا غرور اور گھمنڈ میں ہے کہ وہ خود کو ریاست تلنگانہ کا بے تاج بادشاہ سمجھنے لگا ہے ۔ ٹی آر ایس ورکرس کی من مانی اور قانون شکنی کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا ہے ۔ اقتدار قائدین کو اندھا بنادیتا ہے اور یہ بات ٹی آر ایس کے ارکان اسمبلی پر ان دنوں صادق آرہی ہے ۔ یہ ارکان اسمبلی خود کو طاقتور سمجھ کر عوام کے ساتھ زیادتیاں کرتے ہیں ، سرکاری ملازمین سے گالی گلوج کرتے ہیں اور ان سے کوئی سوال کرے تو وہ کسی کو بھی نشانہ بناتے ہیں ۔ ایک تازہ واقعہ میں ضلع کریم نگر میں سی سی ٹی وی کیمرے سے پتہ چلا کہ ٹی آر ایس کی رکن اسمبلی نے ٹول پلازہ کے ملازمین کو برا بھلا کہا اور انہیں گالیاں دی جب کہ اس رکن اسمبلی کے شوہر اور بندوق بردار کو بھی ٹول پلازہ کے عملہ پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔ ٹول پلازہ کے عملہ کا قصور اتنا تھا کہ انہوں نے ایم ایل اے کی کار کو ریگولر وے معمول کے راستے سے گذرنے کے لیے کہا تھا جہاں پر پہلے ہی سے کئی گاڑیاں ٹول ٹیکس بھر کر گذرنے کے لیے قطار میں کھڑی تھیں ۔ قطار میں اپنی کار کو کھڑا کرنے سے انکار کرتے ہوئے رکن اسمبلی نے اپنی کار دوسرے راستے ٹول پلازہ کے کاونٹر تک لے جاکر ملازمین پر برس پڑیں اور انہیں بلا رکاوٹ گذرنے نہ دینے پر برہمی ظاہر کی ۔ چند دن قبل ہی ورنگل میں ٹی آر ایس رکن اسمبلی نے ایک تاجر پر حملہ کیا تھا جس نے اس ایم ایل اے کی غیر قانونی پتھر توڑنے کی سرگرمیوں کے خلاف کلکٹر سے شکایت کی تھی ۔ اسی طرح نکریکل کے رکن اسمبلی نے بھی سینئیر عہدیدار کو گالی دے کر ان کی توہین کی ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی مقبولیت کا غلط فائدہ اٹھانے سے ٹی آر ایس پارٹی کی نیک نامی پر آنچ آرہی ہے ۔ حکمراں پارٹی کے خلاف مورچہ بنانے میں ناکام اپوزیشن پارٹیوں نے خاص کر کانگریس کو آئندہ انتخابات میں بھی ٹی آر ایس سے سخت مقابلہ درپیش ہوگا ۔ اب ٹی آر ایس کو کمزور کرنے کی کوشش میں تلگو فلم اداکار پون کلیان نے تلنگانہ کا رخ کرلیا ہے ۔ سابق ایم پی چرنجیوی کے بھائی پون کلیان کے سی آر کے حلقہ گجویل اسمبلی حلقہ سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ پون کلیان عثمانیہ یونیورسٹی کے ایم ایس سی کے سال اول کے خود کشی کرلینے والے طالب علم مرلی کے ارکان خاندان سے بھی ملاقات کریں گے ۔ مرلی نے 3 دسمبر کو عثمانیہ یونیورسٹی کیمپس میں خود کشی کرلی تھی ۔ جن سینا پارٹی کے لیڈروں نے تلنگانہ میں اپنے سیاسی مستقبل کی جانچ کا فیصلہ کیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پون کلیان کی سیاست کیا کام کرے گی ۔ ان کے بھائی چرنجیوی کو سیاست کا تلخ تجربہ ہوا ہے ۔ حکمراں پارٹی میں 3 سال کے اندر ہی مخالف پارٹی سرگرمیاں شدت کرتی ہیں تو یہ شروعات ٹھیک نہیں ہوتی ۔ ٹی آر ایس نے اپنے نظام آباد سے تعلق رکھنے والے ایم ایل سی پی بھوپتی ریڈی کو مخالف پارٹی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر معطل کردیا ۔ وہ برسر عام پارٹی کے ارکان اسمبلی پر تنقیدیں کرنے لگے تھے ۔ بھوپتی کی مخالف پارٹی بیان بازی سے نظام آباد کی ایم پی کے کویتا کے لیے مسئلہ بن گیا تھا ۔ پارٹی نے اس مسئلہ کو ہی ختم کردیا ہے ۔ بہر حال عوام کے ہاتھ پہ چاند لکھ کر روشنی کی امید پیدا کرنے والے چیف منسٹر نے مسلمانوں کے ہاتھوں میں بھی لفظ چاند لکھ کر 12 فیصد تحفظات کی شکل میں روشنی کی امید پیدا کردی تھی مگر ہاتھ کے چاند کو روشنی کی امید میں مسلمانوں نے 3 سال گذار دئیے اب بھی وہ حکومت کے وعدہ پر بھروسہ کر کے انتظار کررہے ہیں ۔ اگر مسلمانوں کے اندر انتظار کا جذبہ کمزور پڑ جائے تو ٹی آر ایس حکومت کو آنے والے انتخابات میں مسلمانوں کے ووٹ کے حصول کے بارے میں مشکل پیش آئے گی ۔ اگر ٹی آر ایس کی تائید سے مسلمانوں نے ہاتھ کھینچ لیا تو یوں سمجھئے کہ تلنگانہ میں حکمراں پارٹی کا زوال ہوگا ۔ بہر حال اس وقت سیاسی حلقوں میں چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کی کارکردگی ہی موضوع تعریف ہے ۔ آئندہ بھی یہی بات زیر موضوع رکھ کر ووٹ دیا گیا تو ٹی آر ایس مزید پانچ سال کے لیے ایک ناقابل تسخیر قلعہ کے طور پر ابھرے گی ۔
kbaig92@gmail.com