چوکیدار پر بحث۔ہندوستان کے نوکریوں کے متعلق بحران کا سامنا خود ہمیں کرنا ہے چاہئے اقتدار میں کوئی بھی رہے۔

چائے والا معاملہ خوشگوار انداز میں ختم ہوگیا۔ راتو ں رات چوکیدار سیاسی افق پر ابھرنے لگے اور وہ چائے والا جو برسوں تک شہرت میں رہا کہیں ایک کونے میں چلا گیا۔اپنی موچھوں کو گھومتے ایک کرسی پر سارے دن اور تمام رات بیٹھا وہ دیکھائی دیتا رہا۔

باقی رہ گئی نکڑ گینگ کے ساتھ چائے والا شکایتیں کرنے لگا’’ کبھی کبھار‘ وہ ادھر ادھر گھومتا‘ اپناسینہ اونچے کرے اور اپنا چانگاؤں پر ہاتھ مارتاجیسے شیکھر دھون ایک معمولی گیند لپکنے کے بعد کرتا ہے‘‘۔ چائے والے تم کم سے کم کچھ وقت کے لئے سرخیوں مںیرہے۔

مجھے تو محض کچھ ماہ کے لئے ہی توجہہ ملی کیونکہ میرا نام پی اے کے سے شروع ہوتا ہے یعنی پکوڑا والا‘ کو روزگار او ربے روزگاری کے مسلئے پر کچھ دنوں ک لئے ہی زیربحث آیا۔اسی دوران صفائی کرم چاری کی آواز ائے’’ ارے بھیا تم چائے پکوڑا والے کچھ سال اور کچھ ماہ کے لئے تو سرخیوں میں رہے ۔

ایک یادودن سرخیوں میں رہنے کے بعد تو مجھے ہیش ٹیگ میں استعمال کرکے کہیں کونے میں پھینک دیاگیا۔ یہ وہی صفائی کرمچاری ہے جنھیں کونے میں دھکیلنے سے عین قبل چوکیدار نے پیر دھوکر ان کی جادوئی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

موچی ‘ نائی‘ کمار ‘ کلوارکسی پر بھی اب توجہہ باقی نہیں رہی۔ ایک میٹھائی والے نے کہاکہ ’’ تم لوگ نہ صرف سرخیوں میں رہے بلکہ تمہیں اس عمل میں پدما ایوارڈ بھی مل سکتا تھا۔بدحال میٹھائی کی دوکان والے کا کہنا ہے کہ ’’ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے ہماری کمر توڑ دی ورنہ ہم بھی تم لوگوں کے ساتھ ہی دوڑ میں رہتے ۔

میٹھائی کے لئے دودھ درکار ہوتا ہے مگر اس دودھ والے کا بھی برا حال ہے ۔ ڈائیری فارم کسان ہونے کی وجہہ سے اس پر دوطرفہ مار پڑی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم خوش حال رہتے تو میٹھائی اور دیگر سازو سامان کی تیاری بھی آسانی کے ساتھ ہوتی جبکہ ہمیں ہی برے حال میں رکھا گیا ہے ۔

ڈائیری فارم کا کاروبار اب خوف کے ماحول میں ہورہا ہے۔ اب جب کام کی زمرہ بند کی جانے لگی تو اس میں کچرا جمع کرنے والا ‘ دھوبی کے نام بھی شامل ہوگئے ۔

جب پکوڑے او رچوکیدار پر بحث ہوسکتی ہے تو ان پر کیوں نہیں۔ان تمام باتوں کا جوان او رکسان خاموشی کے ساتھ بیٹھ کر جائزہ لے رہے تھے ۔ ملازمتوں اور بے روزگاری یہ تو شروعات ہے۔ حقیقت میں صرف دو قابل بھروسہ ملازمتیں اب زیر بحث ہیں ایک سیاست داں اوردوسرا ماہر معاشیات۔

اراضیات کی کمی اور زراعت میں مشینوں کے استعمال سے کسانوں کی تعداد میں قابل لحاظ کمی ائی ہے ۔ فوری بعد چائے والا‘ باروچی‘ ڈرائیور سلسلہ وار طریقے سے راست ملازمت سے ہر کوئی محروم ہوتا دیکھائی دے رہا ہے