کے این واصف
پچھلے سال نطاقات قانون پر عمل آوری کے بعد لاکھوں کی تعداد میں خارجی باشندے سعودی عرب چھوڑ کر اپنے اپنے وطن چلے گئے ۔ اس طرح بڑی حد تک بے قاعدگی یا لیبر قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد سے سعودی عرب پاک ہوگیا اور ایسے کفیل جو خارجی باشندوں کیلئے صرف کاغذی یا برائے نام کفیل بنے ہوئے تھے ان پربھی کاری ضرب لگی۔ اس کے باوجود وزارت لیبر یا دیگر حکومتی ادارے اب بھی بے قاعدگی یا لبیر قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کا مسلسل پیچھا کر رہی ہے ۔ پچھلے ہفتہ خانگی مدارس چلانے والوں پر نئے لیبر قانون وضع کئے گئے جس کی تفصیلات قارئین اسی کالم میں پڑھ چکے اور اس ہفتہ ٹیکسی کمپنیوں کیلئے کچھ نئے قوانین لاگو کئے جانے کا اعلان کیا گیا جس کی تفصیلات یوں ہیں۔
وزارت نقل و حمل نے یومیہ کرایوں پر ڈرائیوروں کو لیموزین یا ٹیکسی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت خلاف ورزی کے مرتکب کمپنیوں کو بھاری جرمانے کئے جائیں گے ۔ تین ماہ باقاعدہ تفتیش شروع کی جائے گی ۔ وزارت نقل حمل نے شہر میں ٹیکسیوں کو منظم کرنے اور ان کی تعداد محدود کرنے کیلئے جامع حکمت عملی مرتب کی ہے جس کا نفاذ تین ماہ بعد کیا جائے گا۔ اس دوران تمام ٹیکسی کمپنیوں کو نوٹس جاری کئے جارہے ہیں تاکہ وہ قانون کے مطابق اپنے معاملات درست کرلیں۔ وزارت کے ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وزارت نقل نے ان ٹیکسی کمپنیوں کو خبردار کیا ہے جو اپنے زیر کفالت ڈرائیوروں سے ایسا معاہدہ کرتی ہیں جس کے مطابق ڈرائیور کمپنیوں کو یومیہ مقررہ رقم ادا کرنے کے پابند ہوجاتے ہیں
۔ اس ضمن میں وزارت نے تفصیلی سروے کرنے کے بعد جامع حکمت عملی مرتب کی ہے جس کے مطابق کمپنیوں کو اس قسم کے معاہدے کرنے سے منع کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ 3 ماہ کے اندر تمام معاملات کو درست کرلیں ۔ بصورت دیگر خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں پر 500 سے 5000 ریال تک جرمانے عائد کئے جا ئیں گے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیکسی سروس کو مزید بہتر بنانے کیلئے کمپنیوں کو اس امر کا بھی پابند بنایا جا ئے گا کہ وہ ٹیکسی میں نصب میٹر استعمال کریں۔ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی جبکہ قانون کے مطابق شہر میں 6 برس سے پرانے ماڈل کی کوئی ٹیکسی دکھائی نہ دے ۔ مقررہ ماڈل سے پرانے ماڈل کو ٹیکسی کے طورپر چلانے والوں پر 5 ہزار ریال تک جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے ۔ ٹیکسی ڈرائیوروں کو اس بات کا بھی پابند کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی گاڑیوں میں مختلف مسافروں کو نہ بٹھائیں۔ ایک دوسرے سے ناواقف مسافروں کو بٹھانے والے ڈرائیوروں پر ایک ہزار ریال تک جرمانہ عائد کیا جائے گا ۔ وزارت نقل کے ذرائع کا کہنا ہے کہ قانون پر عمل نہ کرنے والی کمپنیوں اور ڈرائیوروں کا ڈاٹا وزارت داخلہ کو ارسال کیا جائے گا جہاں سے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ دریں اثناء وزارت نقل و حمل کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ ٹیکسی کمپنیوں کے ڈرائیوروں کو اس بات کا بھی پابند بنایا جائے گا کہ وہ گاڑی کی صفائی کا خاص خیال رکھیں اور گاڑی میں سواری کی مرضی کے خلاف موسیقی کا استعمال نہ کریں۔ ٹیکسی میں تمباکو نوشی نہ کریں اور مسافروں کو بھی اس بات کی اجازت نہ دیں۔ تمام ٹیکسیوں کی ڈرائیور اور مسافروں سمیت تھرڈ پارٹی انشورنس کروائی جائے ۔ ڈرائیور کہیں بھی جانے سے انکار نہ کریں۔ عقبی نشستوں پر سامان نہ رکھا جائے ۔ اگر مسافر کوئی سامان گاڑی میں بھول جائے تو کمپنی کی انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر مسافروں کا سامان ان تک پہنچانے کا اہتمام کرے۔
نطاقات قوانین ہوں یا دیگر محکموں کی جانب سے لاگو کئے جارہے قوانین تو یہی کہتے ہیں کہ ان کا مالی بوجھ یا دیگر اثرات صرف کمپنی چلانے والے یا مقامی افراد پر ہی پڑے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ نئے قوانین کا اثر بالواسطہ طور پر ان کمپنیوں سے جڑے افراد پر بھی پڑتا ہے اور یہ لوگ سارے کے سارے خارجی باشندے ہیں۔ ویسے ٹیکسی کمپنیوں کیلئے اوپر بتائے گئے نئے قوانین کچھ ٹیکسی ڈرائیوروں کے حق میں ہیں اور کچھ کمپنیوں کے حق بہتر ہیں۔ اسی طرح نئے قوانین کی وجہ سے ٹیکسی استعمال کرنے والوں پر مالی بوجھ پڑے گا تو ان کو نئے قوانین سے فائدہ بھی پہنچے گا ۔
ٹیکسی ڈرائیونگ پر یہاں خارجی باشندوں کی اجارہ داری ہے ۔ مملکت میں ٹیکسی چلانے والوں میں اکثریت بنگلہ دیشی ، پاکستانی اور ہندوستانی باشندوں کی ہے ۔ یہاں کے مقامی باشندے اس کام میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ۔ حکومت کی لاکھ کوشش کے باوجود سعودی نوجوان اس میدان میں نہیں آتے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور کو کمپنی کو یومیہ ادا شدنی رقم پورا کرنے کیلئے طویل ڈیوٹی دینی پڑتی ہے ۔ دوسرے یہ کہ شہروں میں ٹیکسی کمپنیوں کی بہتات ہے۔ سڑکوں پر ضرورت سے زیادہ ٹیکسیاں گھومتی نظر آتی ہیں ۔ اب آنے والے چند برسوں میں ریاض شہر میں میٹر وٹرین کا جال بچھ جائے گا اور اس کا راست اثر ٹیکسی کے کاروبار پر پڑے گا ۔ لہذا ٹیکسی کمپنیاں کافی تعداد میں اپنی گاڑیاں سڑک سے ہٹالیں گی اور دوسرے یہ کہ وزارت نقل و حمل کے نئے قوانین میں 6 سال سے زیادہ پرانی گاڑی کمپنی میں نہیں چلنا چاہئے ۔ اس قانون کے عمل آور ہوتے ہی ٹیکسیوں کی مزید بڑی تعداد روڈ سے ہٹ جائے گی جس سے ہزاروں ٹیکسی ڈرائیور بے روزگار ہوجائیں گے اور ظاہر ہے یہ سارے کے سارے خارجی باشندے ہی ہوں گے کیونکہ ٹیکسی ڈرائیونگ میں صرف خارجی باشندے ہی ہیں۔ نئے قوانین کے سام نے آنے اور مختلف قسم کی نئی فیسوں کے عائد کئے جانے سے خارجی باشندے راست یا بالواسطہ طور پر متاثر ہورہے ہیں ۔ اس طرح اب یہاں خارجی باشندے اپنے اطراف گھیرا تنگ ہوتا محسوس کر رہے ہیں ۔ دوسری جانب خارجی باشندے مختلف وجوہات کی بناء پر مملکت چھوڑ جانے سے سعودی عرب مارکٹ میں فنی مزدور، نیم فنی اور لیبر کی شدید کمی واقع ہورہی ہے جس کے نتیجہ میں خصوصاً تعمیراتی شعبہ اور دیگر پراجکٹس پر افرادی قوت حاصل ہونا دشوار ہوگیا ہے جس سے یا تو کئی پراجکٹس پر کام کی رفتار سست ہوگئی ہے یا کئی پراجکٹس پر کام رکا ہوا ہے ۔ مارکٹ میں افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے کمپنیاں مہنگے داموں پر افرادی قوت حاصل کر رہے ہیں جس سے پراجکٹس کی قیمت بڑھ رہی ہیں۔ اس مہنگائی کے اثرات ہر شعبہ پر پڑھ رہے ہیں جس کی زد میں مقامی اور خارجی باشندے دونوں آرہے ہیں۔