محمد نعیم وجاہت
تلنگانہ میں پہلی حکومت تشکیل دینے کے لئے ٹی آر ایس کو واضح اکثریت حاصل ہونے کے بعد سربراہ ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راؤ پر ذمہ داریوں کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔ ان کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بل منظور ہونے تک تحریک چلانے کا اعزاز حاصل ہے اور اب 2 جون کے بعد ان کی پارٹی (ٹی آر ایس) حکمراں جماعت بن جائے گی۔ کے سی آر کے لئے اقتدار حاصل کرنا کانٹوں کا تاج پہننے کے مماثل ہوگا، کیونکہ نئی حکومت کو سرکاری ملازمین کی تقسیم، اثاثہ جات کی تقسیم، قرضوں کی تقسیم، ملازمتوں کی فراہمی، پانی کی تقسیم کے علاوہ ترقی اور فلاح و بہبود پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہوگی اور ان کے لئے کابینہ کی تشکیل بھی بہت بڑا امتحان ثابت ہوگی۔
کے چندر شیکھر راؤ تشکیل حکومت کے لئے درکار تمام سہولتوں کا اعلیٰ عہدہ داروں کے ساتھ جائزہ لے رہے ہیں۔ ملک کی 29 ریاستوں میں سب سے زیادہ اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کی تعداد علاقہ تلنگانہ میں ہے، لہذا ان کی ترقی و بہبود کے بارے میں غور کرنا اور حکمت عملی تیار کرنا نئی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کانگریس کے دس سالہ دور حکومت میں اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کو صرف اسکالر شپس اور فیس باز ادائیگی کے ادارہ میں تبدیل کرکے اس کے مقاصد سے دور کردیا گیا تھا۔ نہ تو بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے لئے قرض جاری کئے گئے اور نہ ہی خواتین کی ترقی و بہبود کے لئے کوئی اسکیم تیار کی گئی۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے ہر سال اقلیتی بجٹ میں اضافہ تو کیا گیا، مگر مکمل بجٹ کبھی جاری نہیں کیا گیا۔
وقف جائدادوں کا تحفظ اور اس کی نگرانی نئی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ٹی آر ایس نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے، لیکن اس پر کتنے دن میں عمل آوری ہوگی؟ مسلمان بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ کانگریس نے تشکیل حکومت کے بعد 50 دن میں اس پر عمل آوری کی تھی۔ اب ٹی آر ایس اتنا ہی وقت لے گی یا نئے تعلیمی سال کے آغاز سے ہی عمل آوری شروع ہو جائے گی؟ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ سربراہ ٹی آر ایس نے مسلم قائد کو ڈپٹی چیف منسٹر بنانے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ ایک احتجاجی جماعت سے حکمراں جماعت بننے والی ٹی آر ایس سے تلنگانہ کے عوام بالخصوص اقلیتوں کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں، جنھیں پورا کرنے کے لئے کے چندر شیکھر راؤ کے پاس خصوصی حکمت عملی بھی موجود ہے۔ وہ ایک حرکیاتی اور اقلیت نواز قائد ہیں، ساتھ ہی سیاسی ویژن بھی رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ چندرا بابو نائیڈو کی این ٹی آر سے بغاوت کے بعد 1999ء میں این ٹی آر کی تصویر کے بغیر تلگودیشم کو دوبارہ برسر اقتدار لانے میں کے سی آر نے اہم رول ادا کیا تھا۔ تلگودیشم حکومت کے مقبول عام پروگرام ’’جنم بھومی‘‘ کے علاوہ مختلف فلاحی اسکیمات کی تیاری اور اس پر عمل آوری، یہاں تک کہ اس زمانے میں انتخابی مہم کے دوران ’’واکی ٹاکی‘‘ کے استعمال کی شروعات چندر شیکھر راؤ نے کی تھی۔ عوامی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ زرعی شعبہ کی ترقی کے لئے انھوں نے اپنے فارم ہاؤس کو تجربہ گاہ میں تبدیل کردیا ہے۔ وہ ایک اچھے اُردو داں ہیں، تہذیب و تمدن کا احترام کرتے ہیں، تاہم آئندہ 5 سال ان کے لئے آزمائش کے سال ہوں گے۔
علاقہ تلنگانہ میں دوسری جماعتوں کی کار کردگی پر نظر ڈالیں تو سب سے بُرا حشر کانگریس کا ہوا ہے۔ سیما۔ آندھرا میں پارٹی کو نقصان کا اندازہ ہونے کے باوجود کانگریس صدر نے وعدہ کے مطابق علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دی، تاہم پارٹی قائدین کانگریس کی اِس کار کردگی کو عوام تک پہنچانے میں ناکام رہے۔ ملک کی بیشتر ریاستوں میں چلنے والی مودی لہر کو تلنگانہ میں روکنے میں سربراہ ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راؤ کامیاب رہے، مگر تلنگانہ میں چلنے والی لہر کو روکنے میں کانگریس قائدین ناکام ہو گئے۔ دراصل کانگریس قائدین میں تال میل اور اتحاد کا فقدان تھا اور ہر قائد خود کو آئندہ کا چیف منسٹر تصور کر رہا تھا۔ اسی طرح ٹکٹوں کی تقسیم میں حقیقی کارکنوں کے ساتھ ناانصافی ہوئی اور مسلمانوں کو اس سلسلے میں یکسر نظرانداز کردیا گیا۔ صدر پردیش کانگریس اقلیت ڈپارٹمنٹ محمد سراج الدین کی قیادت میں مسلمانوں نے گاندھی بھون میں احتجاجی دھرنے منظم کئے، اس کے باوجود کوئی توجہ نہیں دی گئی، جب کہ مسلمانوں کو ٹکٹ دینے پر پارٹی کو شکست سے دوچار ہونے کا ادعا کرنے والے قائدین خود شکست سے دوچار ہوئے۔ اسی طرح چیف منسٹر عہدہ کے دعویداروں کو بھی عوام نے فراموش کردیا۔ کانگریس کے کسی قائد نے اپنا حلقہ چھوڑکر کسی دوسرے حلقہ کے امیدوار کے لئے انتخابی مہم نہیں چلائی۔ سچ کہا جائے تو کانگریس قائدین کی گروپ بندیوں اور اختلافات نے کانگریس کا بیڑا غرق کردیا۔
دس سال تک وزارت پر فائز اور اسمبلی و لوک سبھا حلقوں کی نمائندگی کرنے والے کانگریس قائدین نے نہ تو عوامی مسائل کو ترجیح دی اور نہ ہی پارٹی کیڈر کو اہمیت دی، جس کی وجہ سے عوام نے ان کے خلاف ووٹ دے کر انھیں سبق سکھایا ہے۔ بعض حلقوں میں باغی امیدواروں اور ناراض قائدین نے بھی پارٹی کی شکست میں اہم رول ادا کیا ہے۔ تلنگانہ کے کانگریس قائدین سارے ملک میں کانگریس کی شکست کا بہانہ بناکر نہیں بچ سکتے، کیونکہ ملک کی دیگر ریاستوں اور تلنگانہ کے انتخابات میں بہت بڑا فرق ہے۔ علاوہ ازیں بی جے پی اور تلگودیشم اتحاد بھی کانگریس کی شکست کا سبب بنا۔ تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کو ٹکٹ دینے پر کامیاب نہ ہونے کا ادعا کرنے والے قائدین اپنی شکست کی وجوہات اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کو کیا بتائیں گے؟۔
کانگریس کو اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا ہے تو پارٹی کی شکست کا برائے نام جائزہ لینے کی بجائے تنقیدی جائزہ لیا جائے اور جو قائدین برسوں سے عہدوں پر فائز ہیں، ان کی جگہ دوسرے اور تیسرے درجہ کے قائدین کو اہمیت دے کر ان کی خدمات سے استفادہ کیا جائے۔ سینئر قائدین کو اگرچہ کہ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، تاہم کسی اور طریقے سے ان کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ عوامی مسائل کو لے کر سڑکوں پر احتجاج اور پالیسی تیار کرنے والی علحدہ علحدہ ٹیمیں تشکیل دی جائیں اور اے سی روم میں بیٹھنے کی بجائے عوام کے درمیان پہنچ کر ان کے دُکھ درد میں شامل ہوکر اپوزیشن کا تعمیری رول ادا کیا جائے، شاید اسی صورت میں عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔
حالیہ انتخابات میں کانگریس اور سی پی آئی اتحاد ناکام رہا، جب کہ تلگودیشم اور بی جے پی اتحاد تلنگانہ اور سیما۔ آندھرا دونوں علاقوں میں کامیاب رہا۔ سیما۔ آندھرا میں تلگودیشم کو حکومت تشکیل دینے کے لئے واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے، جب کہ تلنگانہ میں تلگودیشم اور بی جے پی اتحاد کو 21 اسمبلی اور دو لوک سبھا حلقوں میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ شہر حیدرآباد اور مضافاتی علاقوں میں کانگریس کا صفایا ہو گیا ہے۔ حیدرآباد میں رہنے والے سیما۔ آندھرا کے عوام نے تلگودیشم اور بی جے پی اتحاد کو اہمیت دی، جس کی وجہ سے یہاں کے نتائج کانگریس اور ٹی آر ایس کو چونکا دینے والے ثابت ہوئے ہیں۔ تلنگانہ میں تلگودیشم کے 15 کے منجملہ نصف ارکان اسمبلی کا تعلق حیدرآباد اور اس کے اطراف و اکناف سے ہے، جب کہ بی جے پی صرف حیدرآباد میں کامیاب ہوئی۔ تلگودیشم نے سب سے پہلے تلنگانہ کی تائید کی، تاہم کانگریس نے جب تلنگانہ ریاست تشکیل دی تو سیما۔ آندھرا عوام کی نبض دیکھ کر اس نے اپنا موقف تبدل کردیا، جس کی وجہ سے سیما۔ آندھرا کے عوام نے تلگودیشم کو اہمیت دی۔ علاوہ ازیں بی جے پی سے اتحاد کا فائدہ تلگودیشم نے تلنگانہ میں بھی حاصل کیا۔
2 جون کے بعد ریاست تقسیم ہو جائے گی اور ملک کے نقشے پر ایک نئی ریاست وجود میں آئے گی۔ ٹی آر ایس سربراہ کے چندر شیکھر راؤ تلنگانہ کے اور چندرا بابو نائیڈو آندھرا پردیش کے چیف منسٹر بنیں گے۔ اب دونوں چیف منسٹرس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اپنی ریاست کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ایک دوسرے سے مل جل کر کام کریں اور جو بھی تنازعات ہوں ان کو آپس میں مل بیٹھ کر حل کریں۔ اگر دونوں قائدین نے تعاون و اشتراک سے کام کیا تو دونوں ریاستوں کی ترقی یقینی ہے۔ تلنگانہ اور متحدہ آندھرا کی تحریکوں سے بہت زیادہ نقصان ہوا ہے، لہذا دونوں چیف منسٹرس کو چاہئے کہ دونوں ریاستوں میں خوشگوار اور پُرامن فضا بحال کریں۔