چلو پڑھیں … شام شہریاراں

یسین احمد
روشنائی (کراچی) کے شمارہ نمبر 60 میں نجم الحسن رضوی نے لکھا ہے کہ اس بار آرٹس کونسل نے مشتاق احمد یوسفی کی وہ کتاب شائع کی ہے جس پر ملک بھر کے ناشرین پورے پچیس سال سے تاک لگائے بیٹھے تھے اور اس کتاب کا نام ہے’’شام شہریاراں‘‘ ۔
شام شہریاراں اکتوبر 2014 میں شائع ہوئی تھی لیکن چھ سات ماہ بعد اطلاع مل رہی ہے کہ کتاب پڑھ کر پاکستان کے ادبی حلقوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ۔ کہا جارہا ہے کہ شام شہریاراں اتنی اچھی کتاب نہیں ہے جتنی یوسفی کی سابقہ کتابیں ۔ جیسے چراغ تلے ، زرگرشت ، خاکم بدھن وغیرہ بعض کو کتاب کے عنوان پر بھی اعتراض ہے ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کتاب چند تقاریر کا مجموعہ ہے ۔ یہ یوسفی کی اپنی زندگی کی شام ہے جو شام شہریاراں کے نام سے سامنے آئی ہے (چارہ یوسفی از عدنان خاں اجرا 20 صفحہ 564)

جو یوسفی کو پسند کرتے ہیں وہ یقیناً اس کتاب کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیں گے ۔ مذکورہ کتاب میرے ہاتھ لگی تو ایک سرور کی سی کیفیت طاری ہوگئی ۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ کہاں سے مطالعہ کا آغاز کروں ، 420 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 21 تحریریں شامل ہیں (اگر تقاریر بھی کہہ لیں تو کیا قباحت ہے) ہر تحریر رجھارہی تھی ۔ میں نے آنکھیں بند کرکے کتاب کھولی جو مضمون آنکھوں کے سامنے تھا وہ نیرنگ فرہنگ تھا ۔ اس مضمون کو شان الحق حقی قومی ادبی سمینار میں پڑھا گیا تھا ۔ شان الحق حقی کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔ ادب میں ان کا contribution غیر معمولی اور قابل قدر ہے ۔ یہ ایک طویل مضمون ہے ۔ لیکن اس ایک مضمون پر کیا منحصر ہے شام شہریاراں کے تمام مضامین طویل ہیں ، لیکن تاریک نہیں ہیں ۔ لفظ لفظ میں پورنیما کی بھرپور چاندنی اتر آئی ہے ۔ مرکب فقرے لیکن مرصع اور متوازن مضامین طویل ہونے کے باوجود نہ قاری کی آنکھ جھپکتی ہے اور نہ وہ اپنا الٹا ہاتھ منہ پر رکھتا ہے ۔ مطالعہ شروع کرے تو نیند اڑ جائے ۔ ہاضمہ درست ہوجائے ۔ دن کی مصروفیات کی بات چھوڑیئے ، رات کی ’سرگوشیاں‘ بھی بھول جائے ۔
شان الحق حقی کے بارے میں یوسفی لکھتے ہیں ’’دھن کے پکے اور منکسر المزاج ، شاعر و ادیب اور عالم ہیں ۔ ورنہ ہمارے یہاں جید عالموں ، نقادوں اور دانشوروں کی کمر نہیں اکڑتی ، گردن اکڑتی ہے اور ایسی اکڑتی ہے کہ زمیں نظر نہیں آتی ۔ سر کبھی تعظیماً جھکتا بھی ہے تو آئینے کے سامنے اپنے ہی حضور …!‘‘
احمد فراز کا ایک شعر ہے
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں

مشتاق احمد یوسفی بات کرتے ہیں تو پھول ہی نہیں جھڑتے موتی بھی جھڑتے ہیں اور موتی لفظوں کے پیرہن میں ڈھل کر دل پذیر تحریر بن جاتے ہیں ۔ اسلم فرخی کا کہنا ہے ’’یوسفی کا طرز بیاں سرتاسر ادبیت ، ذہانت اور برجستگی میں ڈوبا ہوا ہے ۔ وہ بات سے بات پیدا نہیں کرتے بلکہ بات خود کو ان سے کہلواکر ایک طرح کی طمانیت اور افتخار محسوس کرتی ہے‘‘ ۔
ایک کنووکیشن کے موقع پر یوسفی نے ایک خطبہ پڑھا تھا جو انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹکچر‘‘ کے عنوان سے اس کتاب میں شامل ہے ۔ اسی تحریر کا ایک اقتباس پڑھئے ۔
مری عمر اور نسل کے لوگ عرصہ دعراز سے ’’وعلیکم السلام‘‘ ہی کہتے آئے ہیں ۔ ایسی ہی شان اور طنطنے کے بزرگ کے بارے میں سنا ہے کہ جب وہ قبرستان میں داخل ہوتے تو السلام علیکم یا اہل القبور کہنے کے بجائے ’’وعلیکم السلام لیٹے رہئے لیٹے رہئے‘‘ کہتے تھے ۔
انسان کے حق میں یہ کہیں بہتر اور باعث عیش و نشاط ہوتا ہے کہ وہ پیدائش کے وقت اسی برس کا ہوتا ۔ پھر بتدریج ستر ساٹھ ، پچاس سے کم ہوتے ہوتے منہ میں چسنی لئے اپنے خالق سے جا ملتا ۔ صاحبو ! کیسے مزے کی ہوتی وہ زندگی جس میں انسان بوڑھے سے جوان ، جوان سے نوجوان اورنوجوان سے معصوم شیر خوار بچہ بنتا چلا جاتا‘‘ ۔
شام شہریاراں کے دو مضامین سے مزید دلچسپ اقتباسات قارئین کی نذر ہیں :

’’اگلے وقتوں میں عورتیں اگر شوہرں کو خط میں سرتاج من سلامت کہہ کرمخاطب کرتی تھیں تو بالکل بجا تھا ۔ اس لئے کہ تاج خاص خاص موقعوں پر پہننے کے بعد اتار کر رکھ دیا جاتا ہے ، بدبخت ہوتا بھی اسی لائق ہے‘‘ ۔
’’دنیا میں جتنی بھی لذید چیزیں ہیں ان میں سے آدھی تو مولوی صاحبان نے حرام کردی ہیں ، بقیہ آدمی ڈاکٹر صاحبان نے ۔ خدا جانے یہ قول مرزا عبدالودود بیگ کا اپنا ہے یا تحریف شدہ ۔ کہتے ہیں کہ اب تم جن نظروں سے مسلم مرغی کو دیکھنے لگے ہو ویسی نظروں کے لئے تمہاری بیوی برسوں سے ترس رہی ہے‘‘ ۔
مارچ 2015 کا مہینہ کرکٹ کا مہینہ تھا ۔ اس دفعہ بھی آسٹریلیا کی ٹیم بازی مار لے گئی ۔ ہندوستانی ٹیم ہار گئی تو یہاں کے عوام کے چہرے اتر گئے ۔ پاکستانی ٹیم ہار گئی تو ٹی وی سیٹس توڑ دئے گئے ۔ ویسے انڈیز کی کمر بھی بام عروج پر ٹوٹی ۔ کروڑوں روپئے کا سٹہ چلا ۔ اربوں روپے معصوم عوام کی جیبوں سے نکل کر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کھاتے میں جمع ہوا ۔ کرکٹ کے حواریوں ، موالیوں کی تجوریاں بھی بھرگئیں ۔ اسی کھیل پر یوسفی کی رائے پڑھئے ،جو انہوں نے اپنے مضمون ’’کلاہ ممزیزی‘‘ میں کیا ہے ۔
’’کرکٹ کے بارے میں آج بھی میرا وہی خیال ہے جس کا اظہار نصف صدی قبل کرچکا ہوں کہ دراصل کھیلتا تو صرف ایک ہی شخص ہے ۔ باقی ماندہ اکیس اشخاص خلوص دل سے اس مغالطے میں رہتے ہیں کہ وہ بھی کھیل رہے ہیں اور خود سے زیادہ تیز رفتار گیند کے پیچھے دوڑتے پھرنے یا پھر وکٹ کے پیچھے بحالت رکوع کھڑے رہنے کو کھیل سمجھتے ہیں‘‘۔
مشتاق احمد یوسفی کے طرز بیان میں صرف ظرافت کی چاشنی ہی نہیں طنز کی تلخی بھی ملتی ہے ۔ لگتا ہے ان کے ہاتھ میں قلم نہیں ترکش ہے اور وہ زہر میں بجھے ہوئے تیر پہ تیر چلاتے جارہے ہیں ۔ ہنستے ہنساتے رلادینا سماج کی دکھتی رگوں پر انگلی رکھ دینے کا ہنر ان کو خوب آتا ہے‘‘ ۔
’’فرمودات فیضی‘‘ مضمون سے لیا ہوا یہ اقتباس پڑھئے ’’کہیں پڑھا تھا کہ کوٹھے پر بیٹھنے والی ایک طوائف سے ایک فلم ڈائرکٹر نے کہا کہ ہم تمہیں اپی فلم میں کاسٹ کرنا چاہتے ہیں ۔ اس نے جواب دیا جو عزت اللہ نے مجھے یہاں بیٹھے بیٹھے بخشی ہے اسے میں فلمی دنیا جیسی بدنام جگہ جا کر خاک میں نہیں ملانا چاہتی‘‘ ۔

ڈاکٹر نورالحسن نقوی لکھتے ہیں کہ ’’یوسفی کی تحریروں کا مطالعہ کرنے والا پڑھتے پڑھتے سوچنے لگتا ہے اور ہنستے ہنستے اچانک چپ ہوجاتا ہے ۔ اکثر اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں‘‘ ۔
’’آب گم‘‘ کے فوری بعد یوسفی کی کوئی دوسری کتاب منظر عام پر نہیں آئی ۔ آب گم اور شام شہریاراں کے درمیان ایک طویل عرصہ حائل ہے ۔ اس دوران یوسفی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہے ۔ وہ فعال رہے ۔ ان کا قلم بند توڑ کر بہنے والے پانی کی طرح رواں دواں رہا ۔ اس دوران انہوں نے مضامین بھی لکھے اور پرچے بھی ،جو مختلف ادبی جلسوں میں بھی سنائے ۔ سنانے کا انداز اتنا مہذب اور پرلطف ہوتا کہ سننے والا ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوجاتا لیکن کیا مجال کہ کوئی زنانہ کرسی مردانہ کرسی سے ٹکراجائے یا کوئی مردانہ کرسی زنانہ کرسی سے !
یوسفی رسم اجراء کے قائل نہیں کہتے ہیں کہ بعض کتابوں کی رسوم اجراء پر آخری رسوم کا گمان ہوتا ہے ۔ دھوم دھڑاکے کے زور سے کسی کتاب کو بیسٹ سیلر بنتے نہیں دیکھا ۔ راقم بھی کتاب کی رسم اجراء کا قائل نہیں ۔ آخر اس رسم اجراء میں ہوتا کیا ہے ؟ کچھ منہ دیکھی باتیں جھوٹی تعریفیں ، تصنع سے بھری قصیدہ گوئی اور پھر آخر میں صدر کی گھسی پٹی باتیں ۔
مشتاق احمد یوسفی 4ستمبر 1923 ء کو جئے پور میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی ۔ بی اے آگرہ یونیورسٹی سے کیا ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے ، ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ ان کے والد کا نام عبدالکریم یوسفی تھا ۔ وہ جئے پور میونسپلٹی کے چیرمین تھے ۔ مشتاق احمد یوسفی 1950 ء میں پاکستان چلے گئے ۔ وہاں مسلم کمرشیل بینک میں ملازمت مل گئی ۔ ڈپٹی جنرل منیجر کی حیثیت سے کام کیا ۔ بینک کی ملازمت کا ذکر نہایت پرلطف انداز میں کئی مضامین میں کیا ہے ۔ یوسفی آسان اور سہل نگاری کے قائل نہیں ۔ املا ، تلفظ کو ترجیح دیتے ہیں ۔ پروقار لفظوں کے رسیا ہیں ، زبان و بیان میں سلاست کا خیال رکھتے ہیں ۔ لکھتے ہیں ’’لغت دیکھنے کی عادت آج کل اگر کلیتاً ترک نہیں ہوئی تو کم سے کم تر اور نامطبوع ضرور ہوتی جارہی ہے ۔ نتیجہ یہ کہ Vocabulary یعنی زیر استعمال ذخیرہ الفاظ بڑی تیزی سے سکڑتا جارہا ہے ۔ لکھنے والے نے اب خود کو پڑھنے والے کی مبتدیانہ ادبی سطح کا تابع اور اس کی انتہائی محدود اور بس کام چلاؤ لفظیات کا پابند کرلیا ہے ۔ اس باہمی مجبوری کو سادگی و سلاست بیان فصاحت اور عام فہم کا بھلا سا نام دیا جاتا ہے‘‘ ۔
یوسفی کی پہلی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ کی اشاعت 1961 میں شائع ہوئی تھی ۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چراغ تلے کے گیارہ ایڈیشن طبع ہوئے ۔ خاکم بدھن 1969 ء میں زرگزشت 1976 میں اور آب گم 1990 میں شائع ہوئی ۔

فنکار بنتے نہیں پیدا ہوتے ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دلیپ کمار اور راج کپور اداکاری کے بادشاہ نہ ہوتے ۔ نورجہاں ، لتا منگیشکر آواز کی دنیا کی ملکہ نہ کہلاتیں ۔ ایف ایم حسین صورت گری کے چکر میں جلاوطن نہ ہوتے ۔ نوشاد ، آر ڈی برمن ، بسم اللہ خاں ، جگجیت سنگھ ، محمد رفیع ، کشور کمار ، کبیر ، کالی داس ، ٹیگور ، غالب ، اقبال اور میر جیسے ناموں سے دنیا ناواقف رہتی ۔ مشتاق احمد یوسفی کو طنز و مزاح کی جو صلاحیتیں ملی ہیں وہ خدا کی دین ہے ۔
شام شہریاراں میں 21 مضامین شامل ہیں ۔ میں نے نمونتاً کچھ مضامین کے اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کئے ہیں ۔ اگر ہرمضمون کا مختصر سا اقتباس سناتا چلوں تو ایک شام کافی نہیں ہے ۔ ایسی کئی شامیں درکار ہیں ۔ اس لئے اقتباسات سے اجتناب کررہا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کتاب پڑھیں ۔ چاہے آپ کنوارے ہوں یا پچھتارہے ہوں ، خلوہ معدہ ہوں شکم سیر ہوں ۔ قبل از غذا پڑھیں یا بعد از غذا پڑھیں لیکن پڑھیں ضرور ۔ اگر خواب گاہ میں پڑھ رہے ہوں اپنی ہنسی پر قابو رکھیں ورنہ اس وقت جو بھی قریب ہوگا ، چاہے وہ منکوحہ ہو یا غیر منکوحہ ، آپ کی ذہنی حالت پر شک کرے گا ۔