چراغوں کو ہواؤں سے بچانا چاہتے ہیں ہم

رشید الدین

7 فوج یا جمہوریت… نواز شریف کا چیلنج
7 تعلقات میں بہتری…منموہن سنگھ کی عجلت پسندی
پاکستان میں انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوگیا اور میاں نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیر کے عہدہ پر فائز ہوں گے اور اس بار وہ ایک مخلوط حکومت کی قیادت کریں گے۔ پاکستان میں انتخابات اور جمہوری انداز میں حکومتوں کی تشکیل کوئی نئی بات نہیں لیکن کسی بھی حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی حکومت کی میعاد کے بارے میں سوالات کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جو بھی پارٹی برسر اقتدار آتی ہے، اسے عوام سے کئے وعدوں کی تکمیل سے زیادہ حکومت کو بچانے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ حکومت کا کبھی فوج تو کبھی عدلیہ سے ٹکراؤ الغرض بہت کم حکومتیں ہی اپنی میعاد مکمل کر پائی ہیں۔ نواز شریف کی زیر قیادت قائم ہونے والی یہ حکومت کس حد تک مستحکم ہوگی ، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ طئے ہے کہ حکومت چاہے کسی جماعت کی ہو وہ فوج سے ٹکراکر زیادہ دن برقرار نہیں رہ سکتی۔ جمہوریت کی بحالی اور حکومت میں فوج کے رول کو کم کرنے کے لاکھ دعوے کئے جائیں، یہ عوام کو خوش کرنے کیلئے تو ٹھیک نظر آتے ہیں لیکن جب فوج کی مرضی کے خلاف فیصلے ہونے لگیں تو حکومت کے وجود کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے نتائج کے بعد نواز شریف اور ان کے ہم خیال پاکستان میں ایک بڑی تبدیلی کے دعوے کر رہے ہیں۔ شاید ان کے نزدیک پیپلز پارٹی کی شکست اور انہیں اقتدار کا حصول ایک بڑی تبدیلی ہے۔ صرف اقتدار کا حاصل ہوجانا ہی تبدیلی ہوتا تو ایسی جماعتوں سے کیا امید کی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستانی عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لائیں گی۔ یہ تبدیلی نہیں بلکہ عوام نے انہیں خدمت کا ایک موقع دیا ہے۔ رائے دہی کا فیصد دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ پاکستانی عوام نے اس جمہوری عمل میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔ عوام نے کسی ایک پارٹی کے حق میں فیصلہ نہیں دیا بلکہ عوام کا فیصلہ منقسم تھا۔ 4 صوبوں میں الگ الگ جماعتوں کو اقتدار حاصل ہوا ۔ پنجاب میں نواز شریف کی پارٹی مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار آئی جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی پختونخواہ میں عمران خان کی تحریک انصاف اور بلوچستان میں متحدہ محاذ کو کامیابی ملی ۔ اس تناظر میں نواز شریف ساری قوم کی تائید کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ مرکز میں نواز شریف کی زیر قیادت جو حکومت قائم ہونے جارہی ہیں وہ پنجاب کی علاقائی جماعت کی قومی حکومت ہوگی۔ الیکشن میں کامیابی کے بعد نواز شریف نے کہا کہ وہ حکومت پر فوج کے اثر کو کم کریں گے۔ انہوں نے ریمارک کیا کہ حکومت کا سربراہ وزیراعظم ہوگا ، فوج نہیں۔ دوسرے بیان میں انہوں نے ہندوستان سے تعلقات مستحکم کرنے کو اپنی حکومت کی ترجیح قرار دیا۔ یہ دونوں باتیں عوام کو خوش کرنے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اگر نواز شریف اس بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو ان کے لئے یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔ نواز شریف ہی کیا ہر باشعور پاکستانی جانتا ہے کہ پاکستان کے ہر سیاہ سفید کی مالک فوج اور آئی ایس آئی ہے۔ جب کسی حکمراں نے بھی فوج کی ہدایات اور پالیسیوں کو بے خاطر کرنے کی کوشش کی تو اسے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ پاکستان میں فوج کے تسلط کی ایک طویل تاریخ ہے، اب سوال یہ ہے کہ سابق کے تلخ تجربات کے باوجود کیا نواز شریف پھر ایک بار فوج سے ٹکرانے کی جرات کریں گے ؟ پاکستان کے نتائج پر ہمارے ایک پاکستانی صحافی دوست نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا کہ ایک سیاسی عدم استحکام سے دوسرے سیاسی عدم استحکام کے تجربہ میں ملک داخل ہوگیا ہے کیونکہ عوام کا فیصلہ بھی سیاسی استحکام کے حق میں نہیں تھا۔ پاکستان جہاں ہمیشہ ہی ملٹری اسٹابلشمنٹ کا غلبہ رہا، وہاں جمہوریت کی بحالی کے دعوے جاگتی آنکھوں کے خواب کے سوا کچھ نہیں ۔ فوج نے حکومت کیلئے جس لائین آف کنٹرول کا تعین کردیا ہے ، کوئی بھی وزیراعظم اس کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔
پاکستان قومی اسمبلی کیلئے ابھی ووٹوں کی گنتی جاری تھی اور نتائج کے رجحانات نواز شریف کے حق میں تھے کہ اچانک ہندوستان کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا پنجابی جذبہ بھڑک اٹھا اور انہوں نے فوری نواز شریف کو مبارکباد پیش کردی۔ اگر وہ صرف مبارکباد کی حد تک محدود ہوتے تو پھر بھی ٹھیک تھا لیکن منموہن سنگھ نے تو نواز شریف کو دورہ ہند کی دعوت دے ڈالی۔ منموہن سنگھ شاید پہلے بیرونی قائد ہوں گے جنہوں نے سب سے پہلے ’’میاں صاحب‘‘ سے ربط پیدا کیا۔ خیر سگالی کے طورپر میاں صاحب نے بھی زبانی طور پر تقریب حلف برداری کی منموہن سنگھ کو دعوت دی۔ واضح رہے کہ منموہن سنگھ نواز شریف کو محبت سے ’’میاں صاحب‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ ملک کے قومی میڈیا نے وزیراعظم کے اس اقدام کو عجلت پسندی قرار دیا اور سیاسی مبصرین نے بھی اس پر نکتہ چینی کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کو مبارکباد دینے کی ایسی بھی کیا جلدی تھی کہ وہ مکمل نتائج کا انتظار بھی نہیں کرسکتے تھے کیونکہ منموہن سنگھ اور نواز شریف دونوں کا تعلق ہندوستان کے صوبہ پنجاب سے ہے لہذا پنجابیت کے غلبہ نے منموہن سنگھ سے یہ کام کرایا۔ ملک کے مفادات پر پنجابیت کا غلبہ ہوگیا۔ پاکستان سے بہتر تعلقات یقیناً عوام کی بھی عین خواہش ہے اور یہی دونوں ممالک کے مفاد میں ہے لیکن تعلقات میں بہتری کے نام پر قومی مفادات سے سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ منموہن سنگھ کو پنجابیت کے جذبہ اور محبت میں نواز کے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر نواز شریف پاکستان کے داخلی مسائل اور عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کرلیں تو یہی ان کا بڑا کارنامہ ہوگا ۔ جہاں تک خارجی امور کا سوال ہے فوج کی منظوری اور مرضی کے بغیر ان کے بارے میں پالیسی طئے نہیں کی جاسکتی۔ منموہن سنگھ کے مشیروں پر بھی حیرت ہے کہ کس طرح عجلت پسندی کی اجازت دیدی۔ جب تک نواز شریف ہندوستان سے زیر تنازعہ امور پر اپنا رخ صاف نہیں کرتے کس طرح انہیں دورہ کی دعوت دی جاسکتی ہے۔ پرویز مشرف بھی ایک بار ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے جذباتی ہوگئے تھے۔ دلی میں انہوں نے اپنی آبائی حویلی کا دورہ کیا۔ پھر محبت کی نشانی تاج محل کے شہر آگرہ میں اٹل بہاری واجپائی سے مذاکرات ہوئے۔ آغاز اس قدر خوشگوار تھا کہ بی جے پی قائدین کی زبانوں پر بھی مشرف کی مداح سرائی تھی۔ ہم بھی اس تاریخی مذاکرات کے کوریج کے سلسلہ میں آگرہ میں تھے، بات چیت کے بعد جب مشترکہ بیان تیار ہورہا تھا ، پاکستانی فوجی عہدیداروں نے کشمیر کا مسئلہ چھیڑ دیا۔ پھر کیا تھا، کشیدہ ماحول اور مذاکرات کی ناکامی۔ منموہن سنگھ بھی نواز شریف کے اس رسمی بیان کا شکار نہ ہوجائیں جس میں انہوں نے ہندوستان سے رشتوں کو استوار کرنے کی بات کہی ہے۔ منموہن سنگھ یہ نہ بھولیں کہ نواز شریف کے دور میں ہی پاکستان نے نیوکلیئر تجربہ کیا تھا اور کارگل میں پاکستانی فوج کی مداخلت بھی نواز شریف کے دور میں ہی ہوئی تھی ۔ اٹل بہاری واجپائی امن و محبت کا پیام لیکر پاکستان پہنچے اس کے جواب میں نواز شریف حکومت نے کارگل کا تحفہ دیا۔ کارگل کا مسئلہ نواز شریف کی حالیہ انتخابی مہم کا اہم موضوع بھی رہا اور رائے دہندوں کے درمیان انہوں نے فخریہ طورپر اسے پیش کرتے ہوئے ووٹ حاصل کئے ۔ کیا منموہن سنگھ کارگل کی لڑائی اور حالیہ عرصہ میں ہندوستانی سپاہیوں کے سروں کو تن سے جدا کرنے کے غیر انسانی واقعہ کو بھول چکے ہیں۔ پاکستان نے ممبئی بم دھماکوں کے سازشیوں کو آج تک کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا۔ ہندوستان نے جن مطلوب دہشت گردوںکی فہرست پاکستان کے حوالے کی تھی کیا اسے واپس لیاجاچکا ہے؟ ہندوستانی سپاہیوں کے سر کاٹنے کے واقعہ کے بعد اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نجی دورہ پر اجمیر شریف آئے تو وہاں کے خادمین نے استقبال اور خدمت سے انکار کیا۔ جن خدام نے مراسم ادا کرنے میں رہنمائی کی انہوں نے نذرانہ قبول کرنے سے انکار کیا کیونکہ انہیں ہندوستانی سپاہیوں کی موت کا صدمہ تھا لیکن ملک کے وزیراعظم کو کچھ بھی یاد نہیں رہا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ اور یو پی اے حکومت اس طرح کے اقدامات کے ذریعہ مسلمانوں کی ہمدردی اور آئندہ انتخابات میں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں تو یہ اس کی بھول ہوگی ۔ ہندوستانی مسلمانوں کو مرکز کی اس دکھاوے کی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جب کبھی ہندوستانی مفادات پر آنچ آئی ، ساری ہندوستانی قوم کے ساتھ مسلمان شانہ بہ شانہ کھڑے رہے۔ مسلمان اچھی طرح جانتے ہیں کہ انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرکز اس طرح کا سیاسی کھیل کھیل رہا ہے لیکن ملک کا مسلمان باشعور ہوچکا ہے ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ نواز شریف کی کامیابی پر ہندوستانی صوبہ پنجاب کے ترن تارن ضلع میں نواز شریف کے آبائی موضع میں سکھوں نے مقامی گردوارے میں جشن منایا۔ انہیں اس بات کی خوشی تھی کہ ان کی دھرتی کا لعل پاکستان کا وزیراعظم بننے جارہا ہے ۔ اگر یہی ہندوستان کا کوئی مسلمان کسی مسجد میں یا کسی اور مقام پر نواز شریف کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرے تو اس پر ملک سے غداری کا الزام لگادیا جاتا۔ مسلمانوں پر پہلے ہی پاکستان کی طرف ہمدردی اور جھکاؤ کا الزام ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں کو شکایات ہے کہ مسلمان کرکٹ کے معاملہ میں پاکستانی ٹیم کی کامیابی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب ان فرقہ پرستوں کو ترن تارن ضلع کے ان سکھوں کی خوشیاں کیوں نظر نہیں آرہی ہے جو ایک پاکستانی وزیراعظم کے لئے کھلے عام جشن منا رہے ہیں۔ فرقہ پرستی اور تعصب کی یہ عینک صرف مسلمانوں کیلئے ہی کیوں لگائی جاتی ہے۔ نواز شریف کے برسر اقتدار آنے میں ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پرویز مشرف نے فوج کے سربراہ کی حیثیت سے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور انہیں ملک بدر ہونے پر مجبور کیا گیالیکن آج حالات کچھ ایسے بدلے اور قدرت کا کھیل دیکھئے کہ نواز شریف تو دوبارہ وزیراعظم بن رہے ہیں لیکن ان کی حکومت کا تختہ الٹنے والے فوج کے سربراہ جیل میں ہیں۔چونکہ نوازشریف اور تحریک انصاف دونوں کا طالبان کے حق میں نرم رویہ ہے لہذا ہندوستان کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف کی حکومت کا استحکام فوج سے ان کے بہتر تعلقات پر انحصار رہے گا ورنہ وہ کسی بیرونی دورہ پر رہیں گے اوراطلاع ملے گی کہ حکومت کا فوج نے تختہ الٹ دیا اور انہیں ملک آنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کے بارے میںہندوستان کی خیر خواہی پر والی آسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہمیں انجام بھی معلوم ہے لیکن نہ جانے کیوں
چراغوں کو ہواؤں سے بچانا چاہتے ہیں ہم