چارلی ایبڈو کی گستاخی ایلان کردی سے سمندری لہروں کی سرگوشیاں

 

محمد ریاض احمد
یوروپ میں شامی پناہ گزینوں کے داخلے کو لے کر زبردست واویلامچا ہوا ہے۔ کچھ یوروپی سیاستداں کہنے لگے ہیں کہ وہ مسلمان پناہ گزینوں کی بجائے اپنے ملکوں میں عیسائی پناہ گزینوں کو ترجیح دیں گے۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مصیبتوں، پریشانیوں، رنج و الم، مصائب و آلام، غربت و بیماریوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یہ ایسی کیفیات یا چیزیں ہیں جو ملکوں کی سرحدوں علاقوں کے حدود اور کوئی مخصوص منزل مقصود نہیں دیکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ شام، عراق اور دیگر ممالک کے پناہ گزینوں کی حالت زار پر جہاں شیطانیت کے بھیانک قہقہے بلند ہو رہے تھے وہیں انسانیت تلملا رہی تھی وہ اس انسانی المیہ و عظیم سانحہ پر کرب میں مبتلا ہوکر کراہ رہی تھی اور اُس وقت تو انسانیت زار و قطار رونے لگی جب ایک 3 سالہ شیرخوار شامی بچہ ایلان کردی اس کے 5 سالہ بھائی اور ان پر محبت نچھاور کرنے والی ماں کو سمندر کی لہروں نے خود میں ایسا سمو لیا کہ وہ نعشوں میں تبدیل ہوگئے۔ ان لہروں نے پناہ کی تلاش میں یوروپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے ایلان کردی اور اس کی ماں کو اچھال کر ترکی کے ساحل پر پھینک دیا۔ ساحل کی ریت پر پڑی اس معصوم کی نعش کی تصاویر جب سوشل میڈیا اور عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ منظر عام پر آئیں تو ساری دنیا آنسو بہانے لگی۔ سرخ ٹی شرٹ اور آسمانی شارٹ پتلون میں ملبوس انتہائی خوبصورت ایلان کردی کی نعش کی تصاویر دیکھ کر دنیا بے چین ہو اٹھی ۔ مشرق سے لے کر مغرب شمال سے لے کر جنوب تک انسانیت کو اس طرح ساحل پر بے بس پڑے دیکھ کر غم کی لہر دوڑ گئی ۔ خاص کر ان ماؤں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے جو اپنے شیرخوار بچوں کو سینوں سے چمٹائی ہوئی تھیں۔ معصوم ایلان کردی کی نعش سے سمندر کی لہریں بھی کافی دیر تک کھیلتی رہیں کبھی اس کے چہرہ پر ریت اپناڈیرہ جماتی تو سمندری کی ایک لہر فوری اس کے قریب پہنچ جاتی اور اور ایسا لگتا کہ شاید سمندر کی لہریں ایلان کا چہرہ دھلا رہی ہوں یا پھر ایسا محسوس ہوتا کہ سمندر کی لہریں ایلان کردی سے سرگوشی کرتے ہوں یہ کہہ رہی ہوں کہ ایلان دنیا بہت خراب ہے۔

اس دنیا میں جہاں بشار الاسد جیسے ڈکٹیٹر پائے جاتے ہیں، وہیں آئی ایس آئی ایس کے دہشت گرد بھی اپنی درندگی سے انسانیت کو شرمسار کردیتے ہیں۔ ایسے ہی مغرب میں بیٹھے ان دہشت گردوں کے آقا اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے انسانیت کی تباہی کے منصوبہ بناتے ہیں، ترکی کے ساحل سمندر پر ایلان کردی سے ٹکرانے والی لہروں نے شاید ایلان کی نعش سے کاناپھوسی کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہوگا کہ اے ایلان ہمیں معاف کردینا تمہاری، تمہارے بھائی اور ماں کے علاوہ سینکڑوں پناہ گزینوں کی موت کے لئے ہم کسی طرح ذمہ دار نہیں  اس کے لئے تو بشار الاسد اور اس کی حامی افواج، داعش اور اس کے دہشت گرد امن و امان قائم کرنے میں ناکام عراقی حکومت اور سب سے بڑھ کر دنیا میں امن و چین قائم کرنے کے لئے  وجود میں آیا، عالمی ادارہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں خاص کر امریکہ اور اس کے حلیف ممالک ذمہ دار ہیں۔ ترکی کے ساحل پر ایلان کردی کی نعش سے بار بار ٹکرانے والی لہروں نے اس پھول جیسے معصوم کو دلاسہ دیتے ہوئے شاید یہ بھی کہا ہوگا کہ ایلان تم خوش قسمت ہو کہ تمہاری موت پر ساری دنیا چیخ اٹھی ہے۔ تمہارے معصوم وجود نے ساحل ترکی پر زندگی کی آخری سانس لے کر پناہ گزینوں کی دم توڑتی امیدوں کو حیات نو بخش کر دنیا کو مہاجرین اور پناہ گزیں کے سنگین مسئلہ سے واقف کرانے میں کامیابی حاصل کی، لیکن فلسطین میں اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کی مجرمانہ خاموشی اور عالم اسلام کی بے حسی کا ناجائز فائدہ اٹھاکر اسرائیلی درندے وقفہ وقفہ سے تم جیسے بے شمار بچوں کو موت کی نیند سلاچکے ہیں۔ یہاں تم جیسے ہزاروں بچے اسرائیلی بمباری کے باعث اپنے گھروں، اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزینوں کے لئے قائم کردہ عارضی کیمپوں میں زندہ دفن ہوچکے ہیں۔ ایلان تمہیں پتہ نہیں غزہ میں اسرائیل کے حالیہ فضائی حملوں میں 2200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے۔ ان شہیدوں میں پھول جیسے بچوں کی اکثریت تھی۔ ایلان یہ سن کر تمہاری روح کو شاید تکلیف ہوگی کہ اسرائیل کے فضائی حملوں میں شہید بچوں کی نعشیں رکھنے اسپتالوں میں جگہ باقی نہیں رہی تھی ایسے میں ان پھولوں کو ان ریفریجریٹرس میں محفوظ کیاگیا جو آئسکریم یا قسم قسم کے پھولوں و پھلوں کو رکھنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔

ایلان … کیا تم نے اس طرح کی ظلم و اسرائیلیت (درندگی) کے بارے میں کبھی سنا؟ شاید نہیں تمہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ تمہاری، تمہارے بھائی، ماں ریحان کی موت پر دنیا میں آنسو بہائے گئے۔ تمہارے والد عبداللہ کردی غم سے نڈھال ہوگئے، لیکن ایسے بے شمار فلسطینی شیرخوار تھے جن کی موت پر آنسو بہانے والے بھائی تھے مائیں تھیں نہ باپ کیونکہ تمام کے تمام اسرائیلی فورس کے فضائی حملوں میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے تھے۔ ترکی کے ساحل سمندر کی لہروں نے شاید ایلان کردی کو یہ بھی بتایا ہوگا کہ فلسطین میں ایسے دلسوز مناظر اکثر دیکھے جاتے ہیں جس میں یہودی فورس کے فضائی حملوں یا ان کی گولیوں کا نشانہ بن کر جاں بحق شیرخواروں کی نعش غمزدہ باپوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔ ایلان تمہیں پتہ نہیں پاکستان اور دوسرے کئی ملکوں میں امریکہ کے ڈرون حملوں میں تم جیسے درجنوں بچے شہید ہوچکے، لیکن دنیا ٹس سے مس نہ ہوئی۔ ایلان آج تمہارے جیسے بے شمار بچے ہیں جو ظلم و جبر اور استحصال کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ ہاں … !! تمہاری موت سے ضرور ایک فائدہ ہوگا کہ پناہ گزینوں اور مہاجرین کے لئے یوروپی ممالک اپنے دروازے کھولنے پر مجبور ہوں گے، لیکن ساتھ ہی ان پناہ گزینوں کے خلاف سارے یوروپ میں جھوٹے اور فرضی الزامات کے تحت تحریکیں چلائی جائیں گی۔ کئی ایک مہمات کا آغاز ہوگا۔ مہاجرین اور پناہ گزینوں کو بدنام کرنے کے لئے ان پر خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور ان پر جنسی حملوں کے جھوٹے الزامات عائد کئے جائیں گے۔ اس معاملہ میں فرانس کا طنزیہ میگزین ’’چارلی ایبڈو‘‘ آگے آگے رہے گا حالانکہ اس کے گستاخانہ کارٹونس کے باعث ہی فرانس میں دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا۔ ساحل کی لہروں نے شاید اس کے کنارے پڑی ایلان کی نعش سے یہ بھی کہا ہوگا کہ آنے والے دنوں میں ’’چارلی ایبڈو‘‘ جیسی فسطائیت کی حامی اور نسلی منافرت کی حامل میگزین تمہاری موت کا تمسخر اڑائے گی، تمہارے بارے میں فحش بکواس کرے گی۔ آزادی اظہار خیال کے نام پر تمہاری کردار کشی پر اتر آئے گی۔

بہرحال ایلان کی نعش سے ترکی کی سمندری لہروں نے جو بھی گفتگو کی ہوگی وہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہو رہی ہے۔ چنانچہ پیرس میں دہشت گردانہ حملوں کی سب سے بڑی وجہ بنے طنز و مزاح کے میگزین ’’چارلی ایبڈو‘‘ نے جرمنی میں سال نو کے موقع پر پیش آئے ایک فرضی واقعہ کو بنیاد بناکر ایک ایسا کارٹون شائع کیا ہے جس سے اس کی نہ صرف مسلم بلکہ انسانیت دشمنی آشکار ہو گئی ہے۔ اس نے جنوری کی اپنی اشاعت میں ایک ایسا کارٹون شائع کیا جس میں پناہ گزین، نوجوانوں کو ایک یوروپی لڑکی کا پیچھا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس کاٹون میں ترکی کے ساحل سمندر پر پڑی ایلان کی نعش بھی دکھائی گئی ہے۔ کارٹونسٹ سورسیو کی جانب سے بنائے گئے اس مذموم کارٹون میں یہ عبارت جلی حروف میں موجود ہے ’’اگر ایلان بڑا ہو جاتا تو کیا بنتا‘‘ ایلان کی جس انداز میں موت ہوئی اس کے والد کو جس طرح اپنی نوجوان بیوی اور کمسن بچوں کی المناک موت کا غم برداشت کرنا پڑا اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’ایلان کردی کسی بھی طرح چارلی ایبڈو کے حس مزاح کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔ کارٹونسٹ سورسیو نے اس کارٹون کے لئے جس موضوع کا انتخاب کیا وہاں مزاح کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا وہ ایسا موضوع ہے ’’جس پر صرف آنسو بہائے جاسکتے ہیں رنج و غم کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔ آہ و بکا‘‘ کے ذریعہ خود کے انسان ہونے اور انسانیت پر عمل پیرا ہونے کا ثبوت دیا جاسکتا ہے، لیکن چارلی ایبڈو نے اپنے دفتر اور کارٹونسٹوں پر جنوری 2015ء میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ کی برسی کے موقع پر کسی مذہب کے لئے بلکہ ساری انسانیت کے ساتھ گستاخی کی ہے۔ حالانکہ اس نے جرمن میں سال نو کے موقع پر پیش آئے جس واقعہ پر اپنے کارٹون کا موضوع بنایا ہے وہ واقعہ ہی فرضی تھا۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ اسے جان بوجھ کر منظر عام پر لایا گیا تھا۔ جرمن پولیس نے تحقیقات کے بعد واضح کردیا کہ جرمن لڑکیوں پر پناہ گزین نوجوانوں کے جنسی حملہ کا واقعہ فرضی تھا اور وہ سوشل میڈیا کے ذریعہ جان بوجھ کر رونما کروایا گیا تھا۔

چارلی ایبڈو اس کے کارٹونسٹس اور آزادی اظہار خیال کے نام پر مذہبی رہنماؤں اور مختلف مذہب کے ماننے والوں کی تضحیک کی تائید و حمایت کرنے والوں کو شرم آنی چاہئے کہ چارلی ایبڈو نے سمندری لہروں کے گود میں موت کی نیند سونے والے ایک 3سالہ شیرخوار کو بھی نہیں بخشا اور اس نے یہ سب کچھ پناہ گزینوں یا مہاجرین کی مخالفت میں نہیں کیا بلکہ اسلام اور مسلم دشمنی میں اس قسم کی فسطائیت  کا اظہار کیا۔ 7 جنوری 2015ء میں جب اس فرانسیسی میگزین کو گستاخانہ کارٹونس کی اشاعت کا دہشت گردانہ حملوں کی شکل میں خمیازہ بھگتنا پڑا تب ساری دنیا کے حکمرانوں نے اس میگزین کے  ساتھ اظہار یگانگت کیا جس نے نعوذ باللہ حضرت عیسیؑ اور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تک گستاخی کرتے ہوئے گناہ عظیم کا ارتکاب کیا۔ اس کے کارٹونسٹوں نے اپنے کارٹونس کے ذریعہ عیسائی رہنماؤں مسلمانوں، عیسائی راہبوں کا بھی مذاق اڑایا۔ آزادی اظہار خیال کے نام پر اس امن دشمن میگزین کی تائید و حمایت کرنے میں عالمی قائدین آگے آگے رہے، لیکن کسی میں یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی کہ آخر ایسی میگزین کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟ اللہ کے پیغمبروں مذہبی، رہنماؤں، عیسائیوں اور مسلمانوں کا تمسخر اڑانے کی اسے کس نے اجازت دی ہے۔

اس میگزین نے ہر مذہب کے ماننے والوں، پناہ گزینوں، مہاجرین کے ساتھ ایسے تمام عنوانات پر کارٹونس بناکر تضحیک کی جو اکثر لوگوں میں مقدس مانے جاتے ہیں۔ افسوس صد افسوس اس بات پر ہے کہ چارلی ایبڈو کا انتظامیہ پیرس کو دہشت گردانہ حملوں کی لپیٹ میں لانے کے باوجود ہوش کے ناخن لینے اور اپنے آپ کو سدھارنے میں ناکام رہا۔ وہ مسلم دشمنی میں اس قدر آگے بڑھ گیا کہ مسلمانوں کی دل آزاری کے لئے ایک معصوم شیرخوار کے بارے میں فحش بکواس کرڈالی جس سے چارلی ایبڈو میگزین کی پالیسی اور اس کے کارٹونسٹس کی گندی ذہنیت کا اظہار ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نعشوں پر صحافتی کارنامہ انجام دینا دنیا کے صحافت میں اپنی موجودگی کا احساس دلانا ہی آزادی اظہار خیال ہے؟ کارٹونسٹ سورسیو کو شرم آنی چاہئے کہ اس نے ایسے موضوع کا انتخاب کیا ہے جس کے بارے میں طنز و مزاح کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ فرانس کی اس بدنام زمانہ میگزین اور اس کے کارٹونسٹ نے شاید سستی شہرت کے لئے ایسا کیا ہوگا لیکن انہیں یہ نہیں فراموش کرنا چاہئے کہ وہ ہنوز کئی نشانوں پر ہیں اور کبھی بھی کسی وقت بھی وہ اسی طرح گولیوں کا نشانہ بن سکتے ہیں جس طرح جنوری 2015ء میں اس کے دیگر گستاخ کارٹونسٹ بنے تھے ۔ سورسیو سے اگرچہ ایلان وضاحت طلب نہیںکرے گا، لیکن دنیا میں ایسے ہزاروں لاکھوں ایلان کردی ہیں جو اب دودھ پیتے بچے نہیں رہے بلکہ وہ ایسے جوان ہیں جنہیں اس طرح کے گستاخوں کو سبق سکھانا آتا ہے اور جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
mriyaz2002@yahoo.com