پیار کے پھولوں کو بارود نہ سمجھا جائے

رشیدالدین
7  پارلیمنٹ سیشن…سیکولرازم پر حکومت کو اعتراض
7  ہند۔پاک کرکٹ سیریز …عامر خاں بھی نشانہ پر

پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن کا گرما گرم مباحث کے ساتھ ہنگامہ خیز آغاز ہوا۔ بہار کے انتخابی نتائج اور ملک میں عدم رواداری کے واقعات کے پس منظر میں اپوزیشن کے حوصلے کافی بلند ہیں ۔ دستور ہند کی 65 ویں سالگرہ اور یوم دستور کے موقع پر سرمائی سیشن کا آغاز کیا گیا اور دو دن مباحث مقرر کئے گئے۔ دستور کے نفاذ کے 65 برس گزرنے کے بعد بھی اس پر اعتراض کرنے والوں کی کمی نہیں۔ حکومت نے دستور اور معماران دستور پر مباحث کے دوران کئی متنازعہ ریمارکس کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ موجودہ دستور سے وہ مطمئن نہیں ہے۔ دستور پر مباحث کے نام پر نریندر مودی حکومت نے اپنی ذہنیت کو آشکار کیا ہے ، سنگھ پریوار کی ذہنیت کے عناصر کو دستور پر حرف زنی کا موقع فراہم کیا گیا۔ عوام میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ دستور کے معماروں نے مذہبی آزادی، رواداری ، اظہار خیال کی آزادی جیسے حقوق کے ذریعہ مذہبی اقلیتوں کی دلجوئی کی ہے۔ 26 نومبر 1949 ء کو دستور ہند کی تیاری کے بعد سے شائد یہ پہلا موقع ہے کہ دستور کو بحث کا موضوع بنایا گیا ۔ دستور سازوں کو خراج پیش کرنے سے زیادہ اس کی خامیوں اور کمیوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔ یوں تو گزشتہ 65 برسوں میں دستور میں کئی ترمیمات کی گئیں لیکن کسی بھی حکومت نے اصل روح اور بنیادی ڈھانچہ پر سوال نہیں اٹھائے ۔ سنگھ پریوار جو ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے، اسے دستور میں دیئے گئے حقوق سے اختلاف ہے۔ اسی درپردہ ذہنیت کے ساتھ حکومت نے مباحث کا اہتمام کیا اور لوک سبھا میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ جبکہ راجیہ سبھا میں وزیر فینانس ارون جیٹلی نے سیکولرازم اور دیگر امور پر سوال اٹھائے۔ راجناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ اصل دستور میں لفظ سیکولرازم شامل نہیں تھا اور بعد میں 42 ویں ترمیم کے ذریعہ اس کا اضافہ کیا گیا ۔ لفظ سیکولرازم پر اعتراض اور وہ بھی وزیر داخلہ کی زبان سے یقیناً باعث حیرت ہے۔ وزیر داخلہ جن کی ذمہ داری سیکولرازم کا تحفظ ہے، جب وہی اعتراض کرنے لگیں تو پھر عدم رواداری کے واقعات میں اضافہ نہیں تو کیا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ جب سیکولر اور سوشیلسٹ جیسے الفاظ پر اعتراض ہے تو کیا انہیں حذف کرتے ہوئے ہندو اسٹیٹ لکھنے کی تیاری تو نہیں ؟ بی جے پی اور نریندر مودی حکومت میں اگر ہمت ہو تو یہ کوشش کر کے دیکھ لیں۔

ایک کیا ایسے 100 نریندر مودی اور راج ناتھ سنگھ دستور کے بنیادی ڈھانچہ کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ ملک کو متحد رکھنا ہو تو سیکولرازم کو اختیار کرنا لازمی ہے۔ دنیا کی دوسری ہندو اکثریتی مملکت نیپال نے بھی سیکولر مملکت کو دستور میں شامل کرلیا ہے۔ وہ پارٹیاں جو آزادی کی لڑائی میں شامل نہیں تھیں اور جن کے قائدین کا دستور کی تیاری میں کوئی رول نہیں ہے، وہ آج دستور پر انگشت نمائی کر رہی ہے ۔ ایسی حکومت کو دستور پر مباحث کا کیا حق پہنچتا ہیں، جو اس کے احترام اور نفاذ میں ناکام ہوچکی ہو۔ نریندر مودی اقتدار کے 17 ماہ میں ملک میں جس طرح نفرت اور عدم رواداری کے مظاہرے دیکھنے کو ملے اس نے دستور کی دھجیاں اڑادی ہیں۔ دستور ہند پر مباحث سے قبل نریندر مودی حکومت پہلے نفرت کے ان پرچارکوں کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے سماج کو مذہب کے نام پر بانٹنے کی کوشش کی۔ حکومت ایک طرف دستور کے احترام کی دعویدار ہے لیکن دوسری طرف اس نے دستور کی پاسداری کے حلف کو فراموش کردیا ۔ دستوری عہدہ پر فائز آسام کے گورنر نے ہندوستان کو ہندوؤں کا ملک قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو پاکستان جانے کی صلاح دی۔ دستور پر مباحث سے قبل گورنر آسام کو برطرف کیا جانا چاہئے تھا ۔ گورنر آسام تو دور کی بات ہے نریندر مودی نے اپنے کابینی رفقاء گری راج سنگھ ، وی کے سنگھ ، سادھوی نرنجن جیوتی کے خلاف کیا کارروائی کی۔ گوا اور ہریانہ میں بی جے پی چیف منسٹرس اور کی زہر افشانی اور ساکشی مہاراج ، یوگی ادتیہ ناتھ ، سادھوی پراچی اور دوسروں کے خلاف کیا کارروائی جو سماج میں نفرت کا زہر گھول رہے ہیں۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ نریندر مودی جب کسی بیرونی دورے میں ہندوستان میں رواداری کا دعویٰ کرتے ہیں، اسی وقت اندرون ملک نفرت کے پرچارک  اصلیت پر آجاتے ہیں ۔ مباحث کے دوران مرکزی وزیر تھاور چند گہلوٹ نے یکساں سیول کوڈ ، رام مندر اور کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 جیسے حساس مسائل کو چھیڑدیا ۔ یہ تینوں مسائل بی جے پی اور سنگھ پریوار کا اہم ایجنڈہ ہیں ۔ گہلوٹ کی اس تقریر پر وزیراعظم کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان مسائل کو ان کی منظوری حاصل ہے۔ دستور پر مباحث کے دوران ان حساس مسائل کو چھیڑنا عدم رواداری نہیں تو کیا ہے ؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دستور پر مباحث کے نام پر بی جے پی نئے دستور کی تیاری کی سازش کر رہی ہے ۔ وزیر فینانس ارون جیٹلی جو ماہر قانون بھی ہیں ، انہوں نے دستور میں شامل یکساں سیول کوڈ سے متعلق دفعہ 44 اور ملک میں ذبیحہ گاؤ پر پابندی سے متعلق دفعہ 48 کا حوالہ دیتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور دیگر دستور ساز ملک میں یکساں سیول کوڈ اور ذبیحہ گاؤ پر امتناع کے حق میں تھے۔ دراصل دستور پر پابندی کے عہد کی آڑ میں بی جے پی نے اپنا خفیہ ایجنڈہ عوام کے روبرو پیش کیا ۔ جیٹلی نے یہ تاثر دیا کہ آر ایس ایس کے نظریہ ساز شیاما پرساد مکرجی کا بھی دستور کی تیاری میں اہم رول ہے۔

ہر مسئلہ کو عدم رواداری اور نفرت کی عینک سے دیکھنے کی عادت نے ہند۔پاک کرکٹ سیریز کے احیاء کو تنازعہ کی شکل دیدی ہے ۔ دونوں ممالک نے 15 ڈسمبر سے سری لنکا میں سیریز کے آغاز کا فیصلہ کیا جس کی بی جے پی کی جانب سے مخالفت کی جارہی ہے ۔ سرحد پر کشیدگی اور کشمیر میں فوج پر دہشت گرد حملوں سے جوڑتے ہوئے سیریز کی مخالفت افسوسناک ہے۔ جہاں تک سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزی اور ہندوستان میں دہشت گرد سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کا سوال ہے ، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن کھیل کود اور کلچرل روابط کو دہشت گردی سے جوڑنا ٹھیک نہیں۔ دہشت گرد سرگرمیوں اور دراندازی کے واقعات سے نمٹنے کیلئے بہادر فوج موجود ہے اور وہ ان سرگرمیوں کو کامیابی کے ساتھ نمٹ رہی ہے۔ دوسری طرف حکومت نے بھی سفارتی سطح پر پاکستان سے وقتاً فوقتاً اپنا احتجاج درج کیا ہے ۔ کھیل اور کلچرل سرگرمیوں کو سیاست سے دور رکھنا چاہئے ۔ عوام کے درمیان بہتر روابط دونوں ممالک کو باہم جوڑنے کی اہم کڑی ہے۔ کرکٹ سیریز کے آغاز سے توقع کی جانی چاہئے کہ عوامی سطح پر رشتے مضبوط ہوں گے اور کشیدگی کم ہوگی۔ کرکٹ سیریز کی مخالفت کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ انہیں صرف کرکٹ سیریز پر اعتراض کیوں ؟ گزشتہ دنوں ہندوستانی ہاکی ٹیم نے پاکستان کو شکست دی اور فاتح کی حیثیت سے وطن لوٹی ۔ اسی طرح باسکٹ بال اور دوسرے کھیلوں کے میدان میں دونوں ممالک کی ٹیمیں ساتھ کھیل رہی ہیں لیکن کسی نے اعتراض نہیں  کیا ، صرف کرکٹ میں سیاست ، کشیدگی اور نفرت کا عنصر کیوں شامل ہوجاتا ہے؟  نفرت اور عدم رواداری کی لہر نے بالی ووڈ اسٹارس عامر خاں اور اے آر رحمن کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ملک میں بڑھتی عدم رواداری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عامر خاں نے اپنی اہلیہ کرن راؤ کے خوف کا حوالہ دیا تھا ۔ انہوں نے ملک چھوڑنے کی بات نہیں کی بلکہ اپنی اہلیہ کے خوف اور اندیشہ سے دنیا کو واقف کرایا۔ اس کے باوجود سنگھ پریوار کی ذہنیت نے عامر خاں کو نشانہ بناتے ہوئے پاکستان جانے کی صلاح دی ۔ اے آر رحمن نے عامر خاں کی تائید کی تو انہیں گھر واپسی کا مشورہ دیا گیا۔ ملک میں سب سے آسان مشورہ پاکستان جانے کا ہے، جو بی جے پی اور سنگھ پریوار کے قائدین کی زبان پر فوری آجاتا ہے ۔ ہندوستان میں مسلمان کسی کی مہربانی یا رحم و کرم پر نہیں بلکہ اپنی مرضی سے ہیں۔ مسلمانوں نے اپنے خون جگر سے ملک کی آبیاری کی اور ان کے بغیر ہندوستان کا تصور ادھورا ہے ۔ مسلمان اس ملک میں گلاب میں خوشبو کی طرح ہیں۔ خوشبو کے بغیر گلاب محض کاغذی پھول بن کر رہ جائے گا۔

ملک سے جانے کی بات عامر خاں نے نہیں کہی بلکہ ان کی اہلیہ نے کی ہے جو ہندو ہیں۔ اعتراض تو کرن راؤ کے ریمارک پر ہونا چاہئے لیکن یہاں عامر خاں نشانہ پر ہیں۔ شائد اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں۔ دراصل جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو فلم انڈسٹری پر مسلمانوں کا تسلط برداشت نہیں۔ فلم انڈسٹری پر حکمرانی کرنے والے خان ہیروز کو ہٹادیا جائے تو پھر بلیک اینڈ وائیٹ فلموں کے دور کا ماحول واپس آجائے گا۔ کوئی بھی مسلمان ملک چھوڑنے کی بات ہرگز نہیں کرسکتا کیونکہ مذہبی اعتبار سے بھی حب الوطنی کو ایمان کا جز قرار دیا گیا ہے ۔ عامر خاں سے قبل شاہ رخ خاں کو بھی اسی طرح نشانہ بنایا گیا تھا۔ نفرت کے پرچارک جس انداز میں عامر خاں پر ٹوٹ پڑے ہیں، یہ از خود عدم رواداری کا مظاہرہ ہے۔ ملک کے دستور نے اظہار خیال کی مکمل آزادی دی ہے اور اس کی پاسداری کرنا حکومت کا فرض ہے ۔ دستور ہند کی خوبی ہے کہ اس نے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے مساوی احترام کی گنجائش رکھی ہے اور کسی کی دل شکنی یا دل آزاری کیلئے دستور میں کوئی گنجائش نہیں۔ ایسے وقت جبکہ مرکزی حکومت دستور پر عمل آوری کا عہد کر رہی ہے، اسے نفرت کے پرچارکوں پر کنٹرول کرنا ہوگا۔ عدم رواداری کے ذمہ دار عناصر کا الزام ہے کہ فلم سازوں ، مصنفین اور دانشوروں نے ایوارڈس واپس کرتے ہوئے دنیا میں ہندوستان کو بدنام کیا ہے۔ حقیقت میں دنیا میں ہندوستان کی بدنامی کیلئے نفرت کے پرچارک ذمہ دار ہیں جو ایک طرح سے پاکستان کی ٹورازم انڈسٹری کے برانڈ ایمبسڈر بن چکے ہیں اور ہر کسی کو پاکستان جانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے پاکستان جانے سے آبادی کم ہونے کی بات کہی۔ حالانکہ ادتیہ ناتھ اور ان کی ذہنیت والے مٹھی بھر افراد ملک سے چلے جائیں تو شائد حالات بہتر ہوجائیں گے، یا پھر انہیں کسی پہاڑ کی چوٹی پر گیان دھیان کے لئے رخ کرنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ پہاڑ کی چوٹی بھی ان نفرت کے پرچارکوں کو قبول نہیں کرے گی۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ جنوری 2013 ء میں ٹامل فلم وشواروپم کی ریلیزپر ہنگامہ کے بعد کمل ہاسن نے بیان دیا تھا کہ وہ ہندوستان میں عدم رواداری کا شکار ہیں اور کسی ایسی ریاست کی تلاش میں ہیں جہاں سیکولرازم ہو۔ اگر ایسی ریاست نہیں ملتی تو وہ ملک چھوڑنے کو ترجیح دیں گے۔ کمل ہاسن کے اس بیان پر کسی نے اعتراض نہیں کیا تو پھر آج صرف عدم رواداری کے خلاف اظہار کرنے والے نشانہ پر کیوں ہیں؟ ڈاکٹر راحت اندوری نے نفرت کے پرچارکوں کو کچھ اس طرح مشورہ دیا ہے۔
ہم وطن ہیں انہیں بے سود نہ سمجھا جائے
پیار کے پھولوں کو بارود نہ سمجھا جائے