پہلے لیو ان ریلیشن شپ اوراب ہم جنسی ! بقلم :۔ محمد صبغۃاللہ ندوی 

ملک میں مغربی تہذیت او راباحیت اس قدر پھیل چکی ہے کہ معاشرہ کے ساتھ ساتھ قانون میں جگہ بنارہی ہے ۔ اس کا ثبوت ایک رپورٹ کے مطابق معاشرے میں ۲۵؍ لاکھ افراد نے خو د کو ہم جنس کے طورپر متعارف کروایا ہے ۔اوراب سپریم کورٹ نے ہم جنس او ربد فعلی کو بھی قانونی جواز فراہم کردیا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کا لائسنس جاری کیا ہے ۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے اپنے سابقہ فیصلے کے ساتھ 377کو بھی بدل دیا او رکہا کہ ہم جنس پرستی کوئی جرم نہیں ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر ہم جنس پرستی کو قانونی جواز فراہم کیاگیا تو ہندو راشٹر اورہندتوا کی بات کرنے والی بی جے پی کو مرکزی حکومت نے کچھ نہیں کہا ، پورا معاملہ عدالت پر چھوڑدیا۔جب ملک کی سیاست او رحکومت ہتھیار ڈال دیں گے تو اس طرح کا فیصلہ آنا ہی تھا ۔ دیڑھ سو سال کا قانون ایک جھٹکے میں بے اثر ہوگیا ۔ پہلے لیو ان ریلیشن شپ کو معاشرے اور قانون میں جگہ دی گئی اور اب ہم جنس پرستی کو۔ملک او رمعاشرہ کدھر جارہا ہے ؟ آزادی کے نام پر عدالت سے قانونی جواز فراہم ہوجانے سے بڑھاوا دے رہی ہے ۔ بات کرتے تھے دفعہ 370کو بدلنے کی اور بدل دیادفعہ 377۔ ابھی آغاز ہے آزادی کے نام پر اور کیا کیا ہوتا ہے دیکھئے ۔

انگریزوں کی غلامی سے ملک کو آزاد ہوئے ۷۱؍ سال ہوگئے لیکن ہندوستان کی تہذیب اب تک آزاد نہیں ہوئی ۔ہم جنس پرستی کے خلاف قانون نیا نہیں ۱۵۷سال پرانا ہے ۔

انگریزی حکومت نے 1861ء می ہندوستان کا تعزیراتی قا نون بنایا تھا تو ہم جنس پرستی کو قانوناً جرم قرار دیا تھا او رچھ ماہ سے تین سال تک کی سزا مقرر کی تھی ۔آزادی کے بعد اس جرم کے متعلق انگریزوں کا بنایا ہوا قانون ملکی آئین کا حصہ رہا بلکہ اس میں ترمیم کر کے اسے اور سخت کردیاگیا او راس کی اقل ترین مدت دس سال او راعظم ترین مدت عمر قید بنائی گئی ۔ بتایا جاتا ہے کہ 1955ء تک ہم جنسی کے جرم پر مشہور کالا پانی کی سزا دی جاتی تھی ۔

لیکن اب عدالت عظمی کہہ رہی ہیں کہ دوبالغ مرد یا عورتیں باہمی رضامندی سے جنسی تعلق قائم کرنا جرم نہیں کیونکہ کسی فرد کا جنسی رجحان اس کا ا نفرادی او رفطری معاملہ ہے۔