لوک سبھا چناؤ کی تاریخوں کے اعلان کے وقت ملک کا جو سیاسی منظرنامہ تھا ، اس سے عموماً سیکولر طاقتوں اور بالخصوص اقلیتوں میں ناامیدی کا ماحول تھا ۔ ٹی وی اور میڈیا کے دیگر ذرائع سے جو اوپینین پول آرہے تھے ، اس سے کچھ ایسی فضا بن رہی تھی کہ گویا ملک کے سیاسی افق پر محض بی جے پی اور اس کے وزارت عظمی کے امیدوار نریندر مودی چھائے ہوئے ہیں ۔ اکثر حلقوں میں اس بات کا ذکر تھا کہ 2014 کے لوک سبھا چناؤ میں ’مودی لہر‘ ہے ۔ الغرض چناؤ کی تاریخوں کے اعلان کے وقت بس مودی ہی مودی تھے اور لگتا تھا کہ اگلے وزیراعظم مودی ہی ہونے والے ہیں۔
لیکن پچھلے چند دنوں میں ملک کے سیاسی منظرنامہ میں کچھ تبدیلی ضرور آئی ہے ۔ پہلی نمایاں بات جو ابھر کر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ چناؤ کے اعلان کے بعد الیکشن ’ٹی وی اسٹوڈیو‘ سے نکل کر باہر میدانوں میں پہنچ گیا ۔ جیسے ہی چناؤ عوام کی عدالت اور میدانوں میں پہنچا تو ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اور دیگر اہم لیڈران بھی سرگرم ہوگئے ۔ جب تک چناؤ ٹی وی اسٹوڈیو تک محدود تھا اس وقت تک محض مودی ہی مودی تھے ۔ کیونکہ بقول اروند کیجریوال میڈیا پر جائز یا ناجائز اسباب کے تحت مودی کا نہ صرف رنگ چھایا ہوا تھا ، بلکہ میڈیا پوری طرح کھل کر مودی کا پروپگنڈہ کررہا تھا ۔ ظاہر ہے اگر میڈیا پر چوبیس گھنٹے محض مودی کا شور ہوگا تو عام ووٹرکے ذہن پر بھی اس کا کچھ اثر تو ہوگا ۔ پچھلے تقریباً دو مہینوں سے میڈیا کے مودی شور میں ہر آواز ہر سیاسی جماعت اور ہر سیاسی لیڈر کچھ ایسے گم ہوا کہ ’مودی لہر‘ کا شائبہ ہونے لگا ۔ لیکن اب جبکہ چناؤ کے اعلان کے بعد ہر سیاسی جماعت اور ہر چھوٹا بڑا سیاسی لیڈر میدان میں ہے تو صورت حال کچھ بدلی بدلی نظر آرہی ہے ۔
اب صورت حال یہ ہے کہ محض مودی کو ہی چیلنج کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، بلکہ اروند کیجریوال کے الزام کے باوجود میڈیا کی ساکھ بھی کمزور ہوگئی ہے یعنی مودی اب تک جس میڈیا پر تکیہ کئے ہوئے تھے اس میڈیا کو اب جواب دیتے نہیں پڑرہا ہے ۔ اروند کیجریوال نے میڈیا پر اور بالخصوص کچھ ٹی وی چینلوں پر یہ الزام لگادیا کہ وہ بے ایمان ہیں اور کسی مفاد کے تحت مودی کا کھلا پروپگنڈہ کررہے ہیں ۔ راقم الحروف ہندوستان کے اعلی ترین انگریزی میڈیا ہاوس میں رہ چکا ہے اور میڈیا کی حرکتوں سے بخوبی واقف ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ خود میڈیا والوں میں ایک عرصے سے یہ بات عام تھی کہ میڈیا مالکان نے بڑی گڑبڑ کررکھی ہے ، لیکن کسی کی یہ ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ زبان کھولے ۔ اگر راقم الحروف کی طرح کبھی کسی میڈیا والے نے زبان کھولنے کی جرأت کی تو اس کو کنارے لگادیا جاتا تھا ۔ چنانچہ آج سیکولر مزاج صحافی انگریزی اور ٹی وی میڈیا پر ڈھونڈنے سے ملنا مشکل ہوگیا تھا ۔ ان حالات میں جو ’اوپینین پول‘ آرہے تھے ، وہ مودی نواز افراد کے پول تھے اور مودی کی لہر بنانے میں بہت کارگر ثابت ہورہے تھے ۔ لیکن ہندوستان کی ذہنی کیفیت کچھ اور ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ملک کے کل تین سو پارلیمانی حلقوں سے زیادہ حلقوں پر کارگر ہی نہیں ہے ۔ اس صورتحال میں میڈیا کے اوپینین پول خود عوام کو بھی کھوکھلے لگ رہے تھے ۔ اس صورتحال میں جب اروند کیجریوال نے یکایک میڈیا کے خلاف شور مچایا تو لوگوں کو یقین آگیا کہ میڈیا تو مودی مفاد میں کام کررہا ہے۔ بس اس طرح میڈیا مودی کا جو شور مچارہا تھا وہ کھوکھلا لگنے لگا اور مودی کا گراف نیچے آنے لگا ۔
یہ تو تھی پہلی تبدیلی جو مودی کے خلاف چناؤ کے اعلان کے بعد پیدا ہوئی ۔ دوسری اس سے اہم بات جو چند دنوں میں ابھر کرآئی ہے وہ یہ ہے کہ خود بی جے پی کے اندر مودی کی مخالفت شروع ہوگئی ہے ۔ اس کی تازہ ترین مثال اڈوانی کے چناوی حلقے پر بی جے پی میں تضاد پیدا ہونا ہے ۔ اڈوانی گجرات سے چناؤ نہیں لڑنا چاہتے تھے ۔ وہ اس بار مدھیہ پردیش میں بھوپال سے چناؤ لڑنا چاہتے تھے ۔ پھر پارٹی اور بالخصوص مودی نے زبردستی اڈوانی کی مرضی کے بغیر یہ اعلان کردیا کہ اڈوانی کو گاندھی نگر گجرات سے ہی چناؤ لڑنا پڑے گا ۔ اڈوانی اس کے لئے تیار نہیں تھے اور بہت منت سماجت کے بعد اس کے لئے تیار ہوئے ہیں ۔ پھر اس سے قبل مرلی منوہر جوشی کو زبردستی وارانسی سے ہٹا کر کانپور بھیجا گیا ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اترپردیش بی جے پی کی تقریباً پوری برہمن لابی کا ٹکٹ کے معاملے میں قلعہ قمع کردیا گیا ۔ اس سے یو پی کے برہمنوں میں عموماً اور دوسری جگہوں پر بھی برہمنوں میں بی جے پی سے ناراضگی پیدا ہوگئی ہے ۔ پھر مودی خود پسماندہ ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ یو پی میں بالخصوص کلیان سنگھ جیسے پسماندہ ذات لیڈروں اور ٹھاکروں کو آگے کررہے ہیں جس سے یو پی کے برہمن ناراض ہورہے ہیں ۔ یعنی چناؤ کی تاریخوں سے قبل جو مودی لہر نظر آتی تھی وہ لہر نہ صرف اب ٹوٹ رہی ہے بلکہ خود بی جے پی کے اندر پارٹی قائدین مودی کے خلاف ہورہے ہیں اور باہر بی جے پی حامیوں میں بھی مودی کے خلاف فضا بن رہی ہے ۔ اسکے علاوہ اب ملائم سنگھ ، مایاوتی ، لالو یادو ، جگن موہن ریڈی ، ممتا بنرجی جیسے درجنوں علاقائی لیڈر کھل کر میدان میں اتر آئے ہیں ۔ پھر کانگریس میں جو پژمردگی چھائی ہوئی تھی وہ بھی اب چھٹنا شروع ہوئی ہے ۔ یو پی کے اکثر علاقوں سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ کانگریس اکثر حلقوں میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔ پھر کانگریس لیڈر وارانسی میں مودی کے خلاف جم کر کمربستہ ہونے کو تیار ہیں ۔
الغرض چناؤ جیسے جیسے قریب آرہے ہیں ویسے ویسے مودی کا بھرم ٹوٹ رہا ہے اور ’مودی لہر‘ کی افواہ غلط ثابت ہورہی ہے ۔ اس صورتحال میں سیکولر طاقیتں اور اقلیتیں اگر متحد ہو کر فرقہ پرستی کا سامنا کریں تو ہندوستان کو ابھی بھی فرقہ پرستی کے خطرے سے بچایا جاسکتا ہے ۔ اس لئے ناامید ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ فرقہ پرستی کے خلاف جاری جنگ میں سرگرم ہو کر ملک پر منڈلانے والے خطرے کو ٹالنے کی ضرورت ہے ۔