پولیس انکاؤنٹر … دستور ہند کی توہین

محمد عثمان شہید
26 جنوری 1950 ء کا وہ تاریخی دن تھا جب کروڑوں ہندوستانیوں نے انگریزوں کی غلامی کا لبادہ ایک خونی جدوجہد کے بعد… آگ اور خون کا دریا پار کرنے کے بعد … اپنے پیاروں کی قربانیاں ، آزادی کی دیوی کے چرنوں میں بھینٹ کرنے کے بعد جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد کالے پانی کی سزا کاٹنے کے بعد دستور ہند کو تحریر کیا اور خود پر لاگو کیا اور حلف لیا کہ ہم اس دستور کا احترام کریں گے ۔ اس کی تعظیم کریں گے ، اس کے ہر لفظ کی تعمیل کریں گے ، دستور کے دفعات کے خلاف کوئی عمل نہیں کریں گے ۔ صدر جمہوریہ ، وزیراعظم ، گورنر ، چیف منسٹر ہر رکن اسمبلی ، ہر رکن پارلیمنٹ ، ہر دستور کے تحت تقرر کردہ عہدیدار دستور کے نام پر حلف لیتا ہے کہ وہ دستور کا پابند رہے گا ۔ دستور کی روح کا احترام کرے گا۔ دستور کے منشاء و مقصد کے تحت اپنے فرائض منصبی انجام دے گا۔ دستور میں درج تمام حقوق اور ضمانتوں کی عمل آوری کا ذمہ دار رہے گا۔ اس دستورکی دفعہ 21 میں انتہائی واضح الفاظ میں رقم کیا گیا ہے کہ کسی بھی فرد کو اس کی زندگی کی بیش بہا نعمت سے قانون پر عمل کئے بغیر محروم نہیں کیا جائے گا۔

اس دفعہ کی تشریح کرتے ہوئے عدالتوں نے کہا کہ یہ حکومت کا فریضہ ہیکہ وہ ہر شہری کی جان و مال کی حفاظت کرے۔ محفوظ با وقار زندگی کی ضمانت دستور حق ہے ، اس حق سے کسی بھی فرد کو حکومت کے ذمہ دار یا پولیس کے عہدیدار محروم نہیں کرسکتے۔ اس حق کو حکومت کسی بھی طریقے سے پامال نہیں کرسکتی۔ ریاستی حکومت مرکزی حکومت اس کے دامن سے وابستہ تمام افراد پولیس اور فوج پر لازم ہے کہ وہ دفعہ 21 پر عمل کریں۔ افسوس صد افسوس کہ آزادی کے 67 سال گزر جانے کے باوجود دستور ہند کی تعظیم و تعمیل کا حلف لینے کے باوجود اس پر ارباب اقتدار کلی طور پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ ایسے واقعات کی آئینہ دار ہے کہ ہزاروں اشخاص کو بڑی بے رحمی کے ساتھ دفعہ 21 میں دی گئی زندگی کی حفاظت کی ضمانت کو روندتے ہوئے غیر قانونی طریقے پر انکاؤنٹر کے نام پر زندگی سے محروم کردیا گیا ۔ ہندوستان زندہ باد… دستور ہند زندہ باد… آزادی پائندہ باد…
پولیس انکاؤنٹر جیسا ’’کارنامہ‘‘ انجام دینے والے پولیس عہدیداروں کا ادعاء ہے کہ وہ حق حفاظت خود اختیاری کا استعمال کرتے ہوئے ایسا قدم اٹھانے پر حق بجانب ہیں۔

کیا واقعی پولیس ایسا قدم اٹھانے پر حق بجانب ہے ؟ اگر اس دعوے کو تسلیم کرلیا جائے اور پولیس عہدیداروں کو یہ حق دیدیا جائے کہ ان کی نظر کوئی فرد نکسلائیٹ ہے، دہشت گرد ہے ، ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ ہے، خطرناک قاتل ہے تو وہ عدالت مجاز کے فیصلے کا انتظار کرنے کے بجائے اسے موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں، ان کا یہ فعلی قانونی متصور کیا جائے گا تو پھر دستور ہند کے تحت قائم کردہ عدالتوں پر تالا ڈال دیا جائے۔ قانون تعزیرات ہند ، ضابطہ فوجداری ، قانون شہادت کی کتابوں کو دریا برد کردیا جائے ۔ دستور ہند کو پو رے احترام کے ساتھ گنگا میں بہا دیا جائے ۔ قانون اور انصاف جیسے الفاظ کو کتابوں سے صرف غلط کی طرح مٹادیا جائے کیونکہ ان عدالتوں کا ہندوستان میں کیا کام ؟ اور یہ اعلان کردیا جائے کہ پولیس جو کہتی ہے وہ قانون ہے ۔ پولیس جو کرتی ہے وہ قانون ہے۔ پولیس جو قدم اٹھاتی ہے وہ قانون ہے ۔ پولیس مجرموں کے ساتھ جو طرز عمل اخیتار کرتی ہے وہ قانون ہے ۔ نیز یہ کہ تمام پولیس عہدیدار جو انکاؤنٹر جیسا کارنامہ انجام دیتے ہیں وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ پولیس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو کہیں بھی ، کبھی بھی ، گولی مارکر ہلاک کردے کیونکہ انہیں یہی ٹریننگ دی گئی ہے۔ ان کے ہاتھ میں بندوق تھماتے ہوئے ان سے کہا گیا ہے کہ وہ نہتے معصوم افرادکو عدالت مجاز میں مقدمہ چلائے بغیر ان کا جرم ثابت ہونے سے قبل ہی خود ہی جج کے فرائض انجام دیتے ہوئے خود ہی پراسیکیوٹر کے فرائض انجام دیتے ہوئے ’’مجرم‘‘ گردانیں اور سزائے موت کا فیصلہ سنادیں، اس پر عمل بھی خود ہی کریں اور انہیں موت کے گھاٹ اتاردیں۔
ایسے قتل پر ان سے کسی بھی قسم کی باز پرس نہیں کی جائے گی، ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی ۔ ملک کا کوئی قانون ان پر لاگو نہیں ہوگا کیونکہ یہ قانون کے محافظ و نگہبان ہیں۔ شہریوں کی جان و مال کے محافظ ہیں ۔ ایسے عہدیداروں سے کہیں باز پرس کی جاتی ہے ، ارے وہ تو قانون سے بالاتر ہیں ۔

قانون کو ابھی ایسی بینائی عطاء نہیں کی گئی ہے وہ اس روشنی میں پولیس والوں کی ایسے غیر انسانی و حیوانی و غیر قانون فعل کو جرم قرار دیں۔ ہم ایسا لکھنے پر اسی طرح سلکھنے پر حق بجانب ہیں کہ سپریم کورٹ کے کئی ایک پولیس انکاونٹر پر فیصلے منظر عام پر آنے کے باوجود پولیس نے ان فیصلوں پر عمل کیا ہے نہ ہی ان فیصلوں کا احترام کیا ہے جبکہ دستور ہند کی دفعہ 144 کے تحت سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ اپنی جگہ قانون ہے جس پر عمل کرنا ہر شہری کا فرض ہے ، ورنہ خلاف ورزی کا مرتکب قانون توہین عدالت کے تحت سزا کا مستحق ہے۔شائد دستور ہند کو پولیس والوں نے آج تک نہیں پڑھا اور شائد سپریم کورٹ کے فیصلے ان کی نظر سے نہیں گزرے یا پھر انہوں نے ان فیصلوں کو سمجھا نہیں۔ ان فیصلوں کی اہمیت کو نہیں سمجھا یا ان پر عمل کرنا ان کے فرائض منصبی میںداخل نہیں۔ پولیس زندہ باد … D.K. Basu کے مقدمے میں 1997 (1) Scc 416 سپریم کورٹ نے پولیس کسٹڈی میں رونما ہونے والے مستعد ظالمانہ و بے رحمانہ واقعات و اموات پر اپنے گہرے تعلق خاطر کا اظہار کرتے ہوئے یہ فیصلے دیا تھا کہ ’’ہم پولیس اختیارات کے غلط استعمال پر کیسے لگام لگائیں؟ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ پولیس پر لازم ہے کہ وہ ا پنے عمل میں شفافیت پیدا کرے ، خود کو جواب دہ متصور کرے۔ انسانی حقوق کی حفاظت کرے ، انسانی اقدار کا احترام کرے ۔ تفتیش کے دوران محروس کے وکیل کی موجودگی کو یقینی بنائے۔ تھرڈ ڈگری کا استعمال نہ کرے‘‘۔

اوم پرکاش 2012 (12) Scc 72 کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے پولیس کو بری طرح لتھاڑا اور بڑے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے ججس صاحبان نے لکھا کہ
"IT IS NOT THE DUTY OF THE POLICE OFFICERS TO KILL THE ACCUSED MERECY BECAUSE HE IS A DREADED CRIMINAL”

پولیس کی یہ ڈیوٹی نہیں کہ وہ کسی بھی مجرم کا قتل کردے ، محض اس لئے کہ وہ ایک انتہائی خطرناک مجرم ہے ۔ یعنی خطرناک سے خطرناک مجرم کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ اسے عدالت مجاز میں حسب ضابطہ پیش کیا جائے ۔ تفتیش کے بعد اس کے خلاف چارج شیٹ پیش ی جائے، اس کا جرم ثابت کرنے کیلئے گواہان پیش کئے جائیں۔ قانون شہادت اور ضابطہ فوجداری پر عمل کیا جائے ۔ مجرم ثابت ہونے پر عدالت مجاز ہی اس کو قرار واقعی کی سزا دے اور اس پر عمل کرے۔ اب ہم پوچھتے ہیں کہ پولیس کو کونسے قانون کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی فرد کو یا زیر دریافت قیدی کو یا پھر مقدمے میں ملوث مجرم کو مقدمے کے زیر دوراں ہی فیصلے صادر ہونے سے قبل اس کو دہشت گرد قرار دے کر اس کا قتل کردے ؟ انکاؤنٹر کے نام پر یا حق حفاظت خود اختیاری کے تحت ؟
پولیس کو کس قانون کے تحت انکاؤنٹر کا حق دیا گیا ہے؟ پولیس کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ کسی بھی فرد کو بلا وجہ عدالتی کارروائی کے بغیر ’’زندگی کے لباس‘‘ سے محروم کردے اور اس کا انکاؤنٹر نام دے کر اپنے ہاتھ دھولے۔ واہ ری پولس۔ پولیس زندہ باد۔

اس مقدمے میں سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ
THE COURT HAS REPEATEDLY ADMONISHED TRIGGER HAPPY POLICE PERSONAL WHO LIQUIDATE CRIMINALS AND PROJECT THE INCIDENT AS ENCOUNTER SUCH KILLING MUST BE DEPRICATED. THEY ARE NOT RECOGNISED AS LEGAL BY OURT CRIMINAL JUSTICE ADMINISTRATION SYSTEM. THEY AMOUNT TO STATE SPONSORED TERRORISM”
اس عدالت نے متعدد بار پولیس کو تنبیہ دی ہے کہ مجرموں کو انکاؤنٹر کے نام پر قتل کرنے کے بعد بغلیں نہ بجائیں۔ ہمارے ملک کا قانون ایسے اقدام کو غیر قانونی قرار دیتا ہے ۔ اس کی کوئی سند لیں۔ ایسا فصل انجام دینا گورنمنٹ کے زیر سرپرستی دہشت گردی کی تعریف میں آتا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں کے باوجود اور بالخصوص PCUL v/s STATE OF MAHARASHTRA CRIMINAL APPEAL No. 1255/99 کے مقدمے میں انکاؤنٹر کے سلسلے میں رہنمایانہ اصول مدون کرنے کے باوجود دستور میں انسانی زندگی کے تحفظ کی ضمانت دینے کے باوجود انکاؤنٹر کا سلسلہ جاری ہے ۔ چیتنیا کال بگ 1989 (2) Scc 314 کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’عدالت کا مشاہدہ ہے کہ معصوم جانوں کی حفاظت کرتے ہوئے پولیس ضابطہ و ڈسپلن کا خاص خیال رکھے۔ لاء ا ینڈ آرڈر کے ذمہ داروں کا فرض ہے کہ وہ اس امر کو یق ینی بنائیں کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت پر ازروئے قانون سختی سے عمل کریں۔ اب ہم سوال کرتے ہیں ریاستی حکومت کے ارباب حل و عقد سے لاء اینڈ آرڈر کے ذ مہ داروں سے پولیس کے ان عہدیداروں سے جنہوں نے آلیر کے مقام پر انکاونٹر کرتے ہوئے پانچ مسلم قیدیوں کو بیک وقت گولی مارکر ہلاک کردیا۔ وہ بتائیں کہ یہ زیر دریافت قیدی جن کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پیر میں بیڑیاں تھیں، کیسے پولیس ٹیم پر حملہ کرسکتے تھے ؟ انہوں نے کس قانون کے تحت اس وحشی غیر قانونی و غیر انسانی فصل کا ارتکاب کیا ؟

بالفرض محال یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ وقار نے تین پولیس والوں کا قتل کیا تھا تو اس کو سزا دینے کا اختیار عدالت مجاز کو تھا کہ پولس والوں کو ؟ وقار حنیف ، ذاکر اظہار اور امجد علی نے کیا واقعی پولیس پارٹی پر اتنی سخت سیکوریٹی میں حملہ کیا تھا ؟ اس عدالت مجاز کو ان کے تعلق سے اپنا فیصلہ دینا باقی تھا ۔ فیصلے سے قبل از وقت ہی فیصلہ کا وضع عمل کیسے ہوا ؟ ہر ملزم جرم ثابت ہونے تک معصوم ہوتا ہے لیکن پولیس والوں نے ایسا فرضی انکاؤنٹر کر کے قتل عمل کا ارتکاب کیا ہے اور تحت دفعہ 302 تعزیرات ہند ان پر قتل عمد کا مقدمہ دائر کیا جانا چاہئے ۔ اگر یہ صحیح ہے کہ وہ دہشت گرد تھے تو ہمارے ملک کا قانون اجازت دیتا ہے کہ انہیں ایسے ظالمانہ انداز میں انکاونٹر کو ڈھال بناکر پو لیس قتل کرسکتی ہے؟ ستم بالائے ستم کہ ریاستی حکومت کا چیف منسٹر ایسے سفاکانہ قتل پر مہر بہ لب ہے ! اس کی یہ خاموشی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ وہ پولیس کی اس کارروائی کو حق بجانب سمجھتا ہے۔ اس لئے تو حالیہ جاری کردہ GO میں مقتولین کو دہشت گرد کارروائی میں ملوث قرار دیا گیا ہے ۔ پھر ہم یہ کہنے پر حق بجانب ہیں کہ یہ واقعہ State Sponsered Terrorism کی تعریف میں آتا ہے ۔
افسوس کہ حکومت بھی قانون کا احترام کرنا نہیں جانتی ، نہ ہی ا سے دستور ہند کے دفعہ 21 کے تحت دی گئی حق زندگی کی ضمانت کی کوئی پرواہ ہے۔ ریاست کی سیاسی جماعتیں بھی شائد پولیس کی اس کارروائی کو حق بجانب سمجھ رہی ہیں، اس لئے کہ ہر سیاسی قائد بے غیرتی کی رضائی اوڑھے بے حیائی کے بستر پر غفلت کی نیند سو رہا ہے۔