مولاناسید احمد ومیض ندوی
اس وقت پوری دنیا میں مغربی تہذیب کو غالب کرنے کی ہمہ جہت کوششیں جاری ہیں، یہودونصاریٰ جو اس شیطانی تہذیب کے علمبردار ہیں اس بات کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں کہ دنیا کے ہر خطہ میں مغرب کے طورطریقے سکہ رائج الوقت کی شکل اختیار کرلیں، اس کے لئے میڈیا کی ساری طاقتیں جھونکی جارہی ہیں، سیاسی اثر ورسوخ استعمال کیا جارہا ہے ، دنیا بھر کے نصاب تعلیم میں مغرب پرست موادشامل کیا جارہا ہے ،اہل مغرب اور یہوونصاریٰ کی شبانہ روز کاوشیں بالآخر رنگ لائیں اور پورا عالم مغربی تہذیب کی لپیٹ میں آگیا، مشرق وسطیٰ اور برصغیر ہندوپاک کا وہ علاقہ جو ہمیشہ سے مذہب پسند رہا ہے اور جہاں ہمیشہ فحاشی وبے حیائی عریانیت وبرہنگی سے حددرجہ نفرت کی جاتی تھی اب بتدریج مغربی لعنتوں میں گرفتار ہوتے جارہا ہے ان میں ہندوستان سرفہرست ہے ، گذشتہ چند سالوں سے ملک میں رونما ہورہے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں مغربی تہذیب کو فروغ دینے کے لئے ہر سطح سے کوشش کا سلسلہ جاری ہے حتی کہ سیاسی قائدین اور سیاسی پارٹیاں تک اس سلسلہ میں ساری توانائیاں جھونک رہی ہیں، ملک کی عدالتوں سے تک اب وہ فیصلے کروائے جارہے ہیں جو سراسر مغربیت کی غمازی کرتے ہیں اور ملک پر مغربی تہذیب کی گرفت کس قدر مضبوط ہورہی ہے اس کا اندازہ ملکی عدالتوں کے فیصلوں سے ہوتا ہے ،اس سے قبل ایک فیصلہ میں عدالتوں نے شادی سے قبل مردوخواتین کے ایک ساتھ رہنے کو درست قراردیاتھا ،2001ء میں ناز فاؤنڈیشن کی جانب سے دہلی ہائی کورٹ میں ایک رپورٹ داخل کی گئی جس میں ہم جنس پرستی کو قابل جرم سزا قراردینے والی دفعہ 377کے دستوری جواز کو چیلنج کیا گیا ، آخر کار 2009ء میں دہلی ہائی کورٹ نے ہم جنس پرستی کے حق میں فیصلہ سنایا جس میں کہا گیا کہ دوبالغ اگر اپنی مرضی سے کوئی رشتہ قائم کرتے ہیں تو اسے جرم نہیں کہا جاسکتا لیکن دہلی ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چار سال گزرنے پائے تھے کہ 2013ء سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو کالعدم قراردیا ، ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل پر سپریم کورٹ کی دورکنی بنچ نے کہا تھا کہ دہلی ہائی کورٹ نے ہم جنس پرستی کو جرم کے دائرہ سے نکال کر غلطی کی ہے لیکن حیرت ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کے جس فیصلہ کو عدالت ِ عظمیٰ نے چند سال قبل غلط ٹھیرایا تھا آخر کار 6/ستمبر/2018ء کو اسے درست قراردیتے ہوئے ہم جنس پرستی کے قانونی جواز کا فیصلہ سنایا ،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی سرپرستی میں پانچ ججوں کی ایک آئینی بنچ ہم جنس پرستی سے متعلق اپنے حالیہ فیصلہ میں کہا ایک ہی صنف کے دوبالغ لوگوں کے درمیان باہمی رضامندی سے جنسی تعلق جرم نہیں ہے ، عدالت ِ عظمیٰ نے ہم جنس پرستی کے قانونی جواز پر عجیب منطق پیش کرتے ہوئے کہا کہ انتخاب کرنے کا ہر فرد کو بنیادی حق حاصل ہے اور قانون کی دفعہ 377اس حق سے متصادم ہے ،سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں مزید کہا کہ کسی فرد کا جنسی رجحان اس کا انفرادی اور فطری معاملہ ہے اور جنسی رجحان کی بنیاد پر کسی سے تفریق برتنا اس شخص کے اظہار آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے ، عدالت نے کہا کہ فرد کے انتخاب کا احترام آزادی کی روح ہے ، ہم جنس پرست برادری کو ملک کے دیگر شہریوں کی طرح آئین کے تحت برابر کا حق حاصل ہے ۔دفعہ 377کی شقوں کے تحت مرد اور مرد یا عورت اور عورت کے درمیان سیکس کو جرم قراردیا گیا تھا جو کہ فرد کی آزادی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ، ہم جنس پرستی کے جواز کے لئے عدالتی فیصلہ میں آزادی اظہار کے جس فلسفہ کا سہارا لیا گیا ہے یہ وہی فلسفہ ہے جس کو بنیاد بناکر مغرب اخلاقی حد بندیوں سے آزاد ہوچکا ہے ، اس میںکوئی شک نہیں کہ فرد کی آزادی کی اہمیت مسلم ہے اسے بنیادی انسانی حقوق میں شامل کیا گیا اور ملک کا دستور اس کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے لیکن جس حقیقت کو نظر انداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ جنسی عمل کسی کا شخصی اور انفرادی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا سماجی عمل ہے جس کے انسانی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ،کسی بھی معاشرہ کی پاکیزگی اس بات پر منحصر ہے کہ اس کے افراد جنسی بے راہ روی کا شکار نہ ہو ،کوئی بھی ایسا عمل جو پورے معاشرہ پر گہرے منفی اثرات ڈالتا ہو انفرادی معاملہ قرارنہیں دیا جاسکتا ۔
مغربی ذہن کے حامل افراد ہمیشہ روشن خیالی کا سہارالیکر مغرب کی ہر لعنت کو ویلکم کہتے ہیں، یہ روشن خیالی نہیں بلکہ ایسی بدترین تاریکی ہے جس میں انسان کو کچھ سجھائی نہیں دیتا ،ملک کی دستور سازی کرنے والے بزرگوں کے خواب وخیال میں بھی ایسی روشن خیالی نہیں آئی ہوگی ، آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی حیوانیت پر اتر آئے اور اخلاقی بندشوں سے بالکلیہ بے لگام ہوجائے ، ناز فاؤنڈیشن کی جانب سے داخل کی گئی رٹ میں بھی یہی دلیل دی گئی تھی کہ باہمی رضامندی سے ہونے والی ہم جنس پرستی کو جرم قراردیناPrivacyمیں مداخلت ہے ، ہمارے قائدین جس مغربی تہذیب سے مرعوب ہوکر ہم جنس پرستی کی وکالت کررہے ہیں انہیں اس شیطانی تہذیب کی ان تباہ کاریوں کا جائزہ لینا چاہئے جس نے پوری مغربی دنیا میں تباہی مچاکر رکھی ہے ،بڑھتی ہوئی لذتیت بے قید اختلاط جنسی آوارگی،عریانیت وفحاشی اور حد سے بڑھی ہوئی جنس زدگی نے وہاں کیا کچھ قیامت برپا کررکھی ہے اس کے تصور ہی سے دل کانپ کررہ جاتا ہے ،مغربی معاشروں میں خاندانی زندگی کا تصور ختم ہوچکا ہے ،شادی بیاہ کو ایک فرسودہ رسم خیال کیا جانے لگا ہے ، کنواری ماؤں کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ، جرائم بدکاری اور عصمت ریزی روزکا معمول بن چکے ہیں،یوروپ میں ہر30/سکینڈ میں ایک حمل گرایا جاتا ہے ،ہر سال 142/حمل گرائے جاتے ہیں اور ہر 30/سکینڈ بعد ایک شادی ٹوٹتی ہے ، ہر تین گھروں میں دوگھروں میں بچہ نہیں ہوتا ، ترقی اور آزادیٔ نسواں پر برطانیہ میں C-Voteکے ذریعہ کرائے گئے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ وہاں کالج سے فارغ ہوتے پچاس فیصد لڑکیاں اپنی عصمت گنواچکی ہوتی ہیں، ہر 23/لڑکیوں میں ایک اسقاط کراچکی ہوتی ہے ، سب سے کم عمر کا اسقاط ایک بارہ سالہ لڑکی نے کرایا 2005ء Cbime Clock Luusکے مطابق ہر 17/سکینڈ میں ایک جرم ہواہر پندرہ منٹ پر ایک دست درازی اور چھیڑ چھاڑ کا کیس ،ہر 77/منٹ پر جہیز کی موت،ہر29/منٹ پر ایک زنا،ہر 17/ منٹ پر ایک قتل، ہر61/منٹ پر ایک لوٹ اور ہر31/منٹ پر ایک جنسی تشددہوا ، یہ 2005ء کی رپورٹ ہے جب کہ اب تک اس میںکئی گنا اضافہ ہوچکا ہے ۔
فرانس میں ہر ماہ 6/خواتین، برطانیہ میں 8/جب کہ فن لینڈ میں 3/عورتیں اپنے مردساتھیوں کے تشدد کی وجہ سے ہلاک ہوجاتی ہیں ،یوروپین کمیشن کے مطابق چالیس فیصد خواتین ملازمین کو اپنے دفاتر میں جنسی طورپر ہراساں کیا جاتا ہے ،صرف برطانیہ میں سالانہ پچاس ہزار خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے جب کہ سولہ سالہ اور اس سے بھی کم عمر لڑکیوں کی بڑی تعداد کو ساتھی طالب علموں ،اساتذہ یا رشتہ داروں کی طرف سے جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اسی طرح فن لینڈ میں25/ فیصد غرض پورے یوروپ کی 30/ فیصد خواتین کو کم از کم ایک دفعہ ضرور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،ادارہ اطفال یونیسیف کے مطابق یوروپ میں ہر سال دس لاکھ بچوں کو جن میں بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے جنسی مقاصد کے تحت فروخت کیا جاتا ہے ، زنا کی کھلی چھوٹ کے سبب 34/فیصد خواتین ایڈزیا دیگر موذی جنسی امراض میں مبتلا ہیں، یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں سالانہ پانچ لاکھ بچوں کو اسقاطِ حمل کے ذریعہ ہلاک کردیا جاتا ہے اور اتنے ہی بچوں کو امریکہ کی گلیوں میں ان کی بن بیاہی مائیں پھینک کر چلی جاتی ہیں، ایک سروے رپورٹ کے مطابق امریکہ میں سالانہ ساڑھے بارہ لاکھ خواتین اسقاطِ حمل کرواتی ہیں۔
ناروے ،ڈنمارک ،فن لینڈ، سویڈن اور بلجیم میں شادی کی شرح میں 90/ فیصد کمی آئی ہے ، یوروپ میں پیدا ہونے والے 40/ فیصد بچے ناجائز ہوتے ہیں یعنی ان کے والدین کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا، سویڈن، فن لینڈ، ناروے اور ڈنمارک میں تو 75/سے 85/ فیصد بچے ناجائز ہوتے ہیں ، بھلا جس تہذیب نے ایسی تباہی مچارکھی ہو اس سے وارفتگی اور اس کی لعنتوں کوفروغ دینے کے لئے ملکی دستورکو تبدیل کرنا کیا تباہی کو دعوت دینے کے مترادف نہیں؟ہم جنس پرستی کی حمایت میں انتہائی لچر قسم کی دلیلوں کا سہار ا لیا جاتا ہے ، مثلاً یہ کہ ہم جنسی کے فعل کے نتیجہ میں دونوں افراد اکثر ایڈس میں مبتلا ہوتے ہیں تو ایسے لوگ مریض ہونے کی وجہ سے ہمدردی کے مستحق ہیں نہ کہ سزا کے یہ دلیل کس قدر نامعقول ہے اس کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں؛اسی طرح ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ جس طرح آدمی کا گورا یا کالا ہونا اس کے اختیار میں نہیں اسی طرح ہم جنسی کا رجحان بھی پیدائشی ہوتا ہے ؛ ایسا شخص ہم جنسی میں مبتلا ہونے پر مجبورہے ؛ لیکن ماہرین نے ثابت کیا ہے کہ ہم جنسی حیاتیاتی نہیں ہے ۔
ملک میں جس ہم جنس پرستی کو قانونی جواز فراہم کرنے کی وکالت کی جارہی ہے وہ نسل انسانی کے لیے جس قدر تباہ کن ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت ایڈز کی شکل میں جس عذاب نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور جس میں گرفتار ہوکر دنیا بھر میں سالانہ لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بن رہے ہیں ؛ ایسے خطرناک موذی مرض کی بنیاد ی وجہ ہم جنس پرستی اور غیرفطری جنسی تسکین ہے ؛ بلکہ ایڈز کے مرض نے ہم جنس پرستی ہی کی کوکھ سے جنم لیا ہے امریکی ریاست سانفرانسسکو میں سب سے پہلے ایڈز کا آغاز ہم جنس پرستوں میں ہوا، امریکی ادارہ برائے کنٹرول وانسدادِ مرض کے مطابق امریکہ میں ہر سال 30/ لاکھ نوعمر بچے جن کی عمر20/سال سے کم ہے سالانہ ایڈزمیں مبتلا ہوتے ہیں، درج بالا 82/فیصد امریکن مرد جو ایڈز کا شکار ہوئے ان میں ایڈز پھیلانے والے عوامل کا تجزیہ کچھ یوں ہے : 42/ فیصد مرد ہم جنس پرستی کی وجہ سے ایڈز میں مبتلا ہوئے 25/ فیصد ایسے تھے جو نشہ آور اشیاء کے ایک دوسرے کی سرنج استعمال کرنے سے اس مرض کا شکار ہوئے ، یعنی 71/فیصد افراد ایسے تھے جو ہردو غلط افعال کی بناء پر ایڈز میں مبتلا ہوئے ۔(سہ روزہ دعوت۳۱/ڈسمبر/۳۱۰۲ئ)اسی طرح برطانیہ میں ایڈز کے عوامل سے متعلق کئے گئے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ میں بھی ایڈز لاحق ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہم جنس پرستی ہے ، جس میں 66/ مرد مبتلا ہوتے ہیں، خود ہمارے ملک میں سروے جائزے کے مطابق قریب 25/لاکھ ہم جنس پرست ہیں، جن میں تقریباً سات فیصد ایڈز سے متاثر ہیں ، ہم جنس پرستی کی حوصلہ افزائی کرنا گویا ایڈز کو دعوت دینا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جب بھی انسان خدا کے بنائے ہوئے فطری نظام سے ہٹ جاتا ہے ، اپنے لیے تباہی کا سامان تیار کرلیتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے ہماری جنسی تسکین کے لیے مردوعورت کا فطری نظام قائم فرمایا ہے ، سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں رکھا گیا تو ہرقسم کی نعمتوں کے باوجود وہ سکون قلبی سے محروم رہے ؛ چناںچہ حضرت حوا علیہا السلام کی تخلیق کی گئی پھر ان دونوں کے ذریعہ دنیا میں نسل انسانی پھیلنے لگی تو مردوعورت نکاح کے مقدس رشتہ سے وابستہ ہوکر جنسی تسکین حاصل کرتے تھے ،قرآن مجید میں مرد کے لیے سکون کا ذریعہ اس کی بیوی کو قراردیا گیا ہے ، ارشاد ہے : وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوا إِلَیْْہَا وَجَعَلَ بَیْْنَکُم مَّوَدَّۃً وَرَحْمَۃً۔ (الروم:۲۱) اس کی (قدرت)کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے(میاں بیوی کے )درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا : وَجَعَلْنَا لَہُمْ أَزْوَاجاً وَذُرِّیَّۃً (الرعد:۸۳)ہم ان کے لیے بیویاں اور اولاد بنائے ۔
قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں میں نبیوں کی بیویوں کا بھی تذکرہ ہے ، نبی آخر الزماں ﷺ نے بھی کئی عورتوں سے نکاح فرمایا، دنیا کا کوئی مذہب جنسی تسکین کے لیے ہم جنس پرستی کی اجازت نہیں دیتا اور یہ کیوں کر ہوسکتا ہے جب کہ اس غیرفطری عمل کے سبب خاندانی نظام اور توالد وتناسل کا سلسلہ ٹھپ پڑجائے گا جس پرنسل انسانی کی بقا ہے ،اگر ایسی حرکت کو قانونی جواز فراہم کردیا جاتا تو یہ دراصل نسل انسانی پر روک لگانا اور اسے خطرہ سے دوچار کرنا ہوگا؛پھر غورکرنے کا مقام ہے کہ ہر کام کا جوفطری طریقہ ہے وہی اس کے لیے موزوں ہوسکتا ہے ، مثلاً کھانے کا فطری طریقہ یہ ہے کہ منہ سے کھایا جائے ،اس کے برخلاف اگر کوئی ناک سے کھانا چاہے تو یہ عمل غیرفطری اور انسانی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا، اس کے باوجود اگر معاشرہ کے چند افراد ناک ہی سے کھانا چاہیں اور اس پر اصرار کرتے ہوئے کہیں کہ یہ ہمارا انفرادی حق اور شخصی آزادی ہے تو انہیں اختیار ہے کہ وہ جوچاہیں کریں اور اپنی ہلاکت کے لیے وہ خود گڑھا کھودیں لیکن انہیں یہ حق نہیں پہونچتا کہ وہ اپنے اس غیر فطری عمل کو قانونی شکل دینے کا مطالبہ کریں ،اسے شحصی آزادی نہیں کہا جائے گا بلکہ یہ تو اپنی بددماغی کودوسروں پر مسلط کرنا ہے جو لوگ ہم جنس پرستی کی وکالت کررہے ہیں انہیں قوم ِلوط کے عبرتناک انجام سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ جب ان کی فطرت مسخ ہوگئی اور وہ اس لعنت میں گرفتار ہوگئے تو حضرت لوط علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کا مذاق اُڑاتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ لوگ بڑے پاکباز بنے جارہے ہیں ، انہیں شہر سے نکال باہر کرو؛لیکن ان پر کیسی تباہی آئی؟وہ اس بری طرح سے صفحۂ ہستی سے مٹادئے گئے کہ ان کی بستیاں الٹ دی گئیں اور ان پر آسمان سے پتھر کی بارش ہوئی ، آج بھی بحر میت کے نام سے جو سمندر ہے وہ ان کے عبرتناک انجام کی زندہ تصویر بنا ہوا ہے ، سورہ اعراف میں ان کی تباہی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے ’’ اور ہم نے لوط علیہ السلام کو بھیجا، جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیائے جہاں والوں میں سے نہیں کیا، تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو عورتوں کو چھوڑ کر؛بلکہ تم توحد ہی سے گزرگئے ہو اور ان کی قوم سے کوئی جواب نہ بن پڑا ،بجز اس کے کہ آپس میں کہنے لگے کہ ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ بڑے پاک صاف بنتے ہیں؛سو!ہم نے لوط علیہ السلام کو اور ان کے گھروالوں کو بچالیا بجز ان کی بیوی کے کہ وہ ان ہی لوگوں میں رہی جو عذاب میں رہ گئے تھے اور ہم نے ان پر خاص طرح کا مینہ برسایا، پس ! دیکھو توسہی ان مجرموں کا انجام کیا ہو‘‘۔
ہرقوم کو ایک ہی قسم کے عذاب سے ہلاک کیا گیا لیکن قوم لوط پر بیک وقت کئی عذاب نازل کئے گئے ، یہ دراصل اس قبیح فعل کا نتیجہ تھا جس میں وہ مبتلا تھے اور پیغمبر کی باربار نصیحت کے باوجود باز نہیں آئے تھے ، ہم جنس پرستی کی شناعت کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ جانور بھی ہم جنس پرستی کو پسند نہیں کرتے ،کبھی آپ نے کسی جانور کو نہیں دیکھا کہ نرنرسے شہوت پوری کیا ہو ، ہم جنس پرستی ذاتی معاملہ نہیں اگر یہ بات درست ہے تو پھر خودکشی کرنا بھی جرم میں شمار نہیں ہونا چاہئے ، اس کا اثر بھی دوسروں پر نہیں پڑتا، خودکشی کا اثر اگر بالواسطہ دوسروںپر پڑتا ہے توہم جنس پرستی کا اثر توپوری نسل ِانسانی پرپڑتا ہے ؛بلکہ اس سے نسل ِ انسانی کے وجود ہی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے ،ملک کے تمام باشندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلاتفریق مذہب وملت اس لعنت کی مخالفت کریں۔
اخیر میں ایک اہم اقتباس پر اس بات کو ختم کیا جاتا ہے :
یہ بالکل ایک صریح حقیقت ہے کہ مباشرتِ ہم جنس ((Homosexuality قطعی طور پر وضعِ فطرت کے خلاف ہے ۔اللہ تعالیٰ نے تمام ذی حیات أنواع میں نر و مادہ کا فرق محض تناسل و بقاعِ نوع کے لیے رکھا ہے اور نوعِ انسانی کے اندر اس کی مزید غرض یہ بھی ہے کہ دونوں صنفوں کے افراد مل کر ایک خاندان وجود میں لائیں اور اس سے تمدّن کی بنیاد پڑے _ اسی مقصد کے لیے مرد اور عورت کی دو الگ الگ صنفیں بنائی گئی ہیں ، ان میں ایک دوسرے کے لیے صنفی کشش پیدا کی گئی ہے ، ان کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی ترکیب ایک دوسرے کے جواب میں مقاصدِ زوجیت کے لیے عین مناسب بنائی گئی ہے اور ان کے جذب و انجذاب میں وہ لذّت رکھی گئی ہے جو فطرت کے منشا کو پورا کرنے کے لیے بہ یک وقت داعی و محرّک بھی ہے اور اس خدمت کا صلہ بھی _
جو شخص فطرت کی اس اسکیم کے خلاف عمل کرکے اپنے ہم جنس سے شہوانی لذّت حاصل کرتا ہے وہ ایک ہی وقت میں متعدّد جرائم کا مرتکب ہوتا ہے : اوّلاً وہ اپنی اور اپنے معمول کی طبعی ساخت اور نفسیاتی ترکیب سے جنگ کرتا ہے اور اس میں خللِ عظیم برپا کردیتا ہے ، جس سے دونوں کے جسم ، نفس اور اخلاق پر نہایت بُرے اثرات مترتّب ہوتے ہیں۔ثانیاً وہ فطرت کے ساتھ غدّاری اور خیانت کا ارتکاب کرتا ہے ، کیوں کہ فطرت نے جس لذّت کو نوع اور تمدّن کی خدمت کا صلہ بنایا تھا اور جس کے حصول کو فرائض اور ذمے داریوں اور حقوق کے ساتھ وابستہ کیا تھا وہ اسے کسی خدمت کی بجا آوری اور کسی فرض اور حق کی ادائیگی اور کسی ذمے داری کے التزام کے بغیر چُرا لیتا ہے _ ۔ثالثاً وہ انسانی اجتماع کے ساتھ کھلی بددیانتی کرتا ہے کہ جماعت کے قائم کئے ہوئے تمدّن اداروں سے تو فائدہ اٹھالیتا ہے ، مگر جب اس کی اپنی باری آتی ہے تو حقوق اور فرائض اور ذمے داریوں کا بوجھ اٹھانے کے بجائے اپنی قوتوں کو پوری خود غرضی کے ساتھ ایسے طریقے پر استعمال کرتا ہے جو اجتماعی تمدّن و اخلاق کے لیے صرف غیر مفید ہی نہیں ، بلکہ ایجاباً مضرّت رساں ہے _ وہ اپنے آپ کو نسل اور خاندان کی خدمت کے لیے نا اہل بناتا ہے ، اپنے ساتھ کم از کم ایک مرد کو غیر طبعی زنانہ پن میں مبتلا کرتا ہے اور کم از کم دو عورتوں کے لیے بھی صنفی بے راہ روی اور اخلاقی پستی کا دروازہ کھول دیتا ہے ۔