محمد ریاض احمد
شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ اس سرزمین نے دنیا کو ایسی شخصیتیں عطا کی ہیں جو زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں۔ خاص طور پر تعلیمی شعبہ میں حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ماہرین تعلیم و دانشوران نے ساری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ایسی ہی شخصیتوں میں ڈاکٹر محمد ممتاز علی بھی شامل ہیں جو فی الوقت انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا میں تشنگان علم کی پیاس بجھارہے ہیں۔ انھیں مشرق و مغرب کے ممالک میں عالمی کانفرنسوں، سمینارس وغیرہ میں بطور خاص مدعو کیا جاتا ہے تاکہ تشنگان علم اپنی پیاس بجھاسکیں اور ان کی علمی وسعتوں، حکمت و دانش سے استفادہ کرسکیں۔ ڈاکٹر ممتاز علی برصغیر ہند کے دو عظیم جامعات عثمانیہ یونیورسٹی اور علیگڑھ یونیورسٹی کے نمائندہ و سفیر ہیں۔ ڈاکٹر ممتاز علی عثمانیہ یونیورسٹی اور علیگڑھ یونیورسٹی کے خزینہ کے وہ قیمتی جواہر میں سے ایک ہیں جس سے ایک علمی دنیا روشن ہے۔ حال ہی میں اُنھیں استنبول یونیورسٹی میں تاریخ اسلام اور اسلامی تہذیب کے زیرعنوان لکچر دینے کے لئے بطور خاص مدعو کیا گیا تھا۔ ویسے بھی اس فرزند دکن کو دنیا کی مختلف یونویرسٹیز، دانش و حکمت کے اداروں وغیرہ میں عالمی سطح پر مسلسل مدعو کیا جاتا رہا ہے۔ انھیں مباحثوں و مذاکرات میں بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ وہ اسلامی موضوعات، مغربی فکر و مغربی فکر کا تقابلی جائزہ بڑے ماہرانہ انداز میں لیتے ہیں اور جو بھی کہتے ہیں دلائل کے ساتھ کہتے ہیں۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے ترانے میں اسرارالحق مجاز لکھنوی نے جن خیالات کو اشعار میں ڈھالا تھا اس کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں اور دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ
یہ میرا چمن ہے میرا چمن ، ہے میرا چمن ، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
سرشار نگاہِ نرگس ہوں پابستہ گیسو سُنبل ہوں
جو ابر یہاں سے اُٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسے گا
ہر جوئے رواں پر برسے گا ہر کوہِ گراں پر برسے گا
ہر سرد و سمن پر برسے گا ، ہر دشت و دمن پر برسے گا
خود اپنے چمن پر برسے گا غیروں کے چمن پر برسے گا
یہ شہر طرب پر گرجے گا ہر قصر طرب پر کڑکے گا
یہ ابر ہمیشہ برسا ہے یہ ابر ہمیشہ برسے گا
برسے گا ، برسے گا ، برسے گا
پروفیسر ممتاز علی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ شعبہ اُصول الدین و تقابلی ادیان کے پروفیسر کے ساتھ ساتھ دی فیکلٹی آف اسلامک ری ویلڈنالج، ہیومن سائنس کے کوآرڈی نیٹر کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کے علمی کارناموں کے بارے میں روزنامہ سیاست نے کئی رپورٹس اور ان کا انٹرویو بھی شائع کیا۔ اپنے حالیہ دورہ ترکی کے موقع پر عالمی سطح کی معروف و تاریخی استنبول یونیورسٹی میں ڈین آف دی فیکلٹی الٰہیات پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ بدر، ڈپٹی ڈین فیکلٹی پروفیسر ڈاکٹر محمود صالح اوگلو نے ان کا خیرمقدم کیا۔ فیکلٹی آف الٰہیات استنبول یونیورسٹی ایک معروف فیکلٹی ہیں۔ یہ استنبول یونیورسٹی کی وہی فیکلٹی ہے جہاں عالم اسلام کی معروف علمی شخصیت ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے نہ صرف لیکچرس دیئے تھے بلکہ وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دی تھیں۔ یہ بات 60 اور 70 کے دہے کی ہے۔ حسن اتفاق سے ڈاکٹر محمد حمیداللہ بھی حیدرآباد سے تعلق رکھتے تھے۔ ہمارے لئے ایک اعزاز کی بات ہے کہ پروفیسر ممتاز علی بھی پروفیسر ڈاکٹر حمیداللہ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ تب ہی تو انھیں استنبول یونیورسٹی کی فیکلٹی آف الٰہیات نے لیکچرس کیلئے بطور خاص مدعو کیا۔ ان کے لیکچرس میں ترکی کے مقامی اور دوسرے بین الاقوامی طلبہ، اسکالرس کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ انھوں نے عصری اور معاصر اسلامی فکر اور عصری و معاصر مغربی فکر و تہذیب جیسے عنوان پر خطاب کیا۔ ان کا لیکچر کافی معلومات آفرین رہا۔ ڈاکٹر محمد ممتاز علی ترکی میں ماضی میں بے شمار عالمی کانفرنسوں میں شرکت کرچکے ہیں۔ پہلی مرتبہ ڈاکٹر علی کو فیکلٹی آف الٰہیات نے سال 2007 ء میں مدعو کیا جس میں اُنھوں نے عصر حاضر میں امن و ہم آہنگی کے زیرعنوان خطاب کیا تھا۔ اُسی سال ڈسمبر 2007 ء میں پروفیسر علی کو مذہبی اُمور سے متعلق حکومت ترکی کی ڈائرکٹوریٹ نے عالمی کانفرنس میں مدعو کیا جس میں انھوں نے ’’اتحاد انسانیت‘‘ کے زیرعنوان مقالہ پیش کیا۔ مئی 2009 ء میں ترکی میں ایک اور عالمی کانفرنس و ہمہ تہذیبیت کے زیرعنوان منعقد ہوا۔ سال 2011 ء میں پروفیسر ڈاکٹر علی کو انٹرنیشنل اور عالمیانے کے زیرعنوان منعقدہ عالمی کانفرنس میں مدعو کیا۔ توپ غازی یونیورسٹی ترکی اور جامعہ سکاریا میں سال 2015 ء کے دوران بھی کلیدی مقرر کی حیثیت سے مدعو کیا گیا۔ وہاں پروفیسر ڈاکٹر علی نے تنقیدی و تجزیاتی فکر کے زیرعنوان منعقدہ عالمی کانفرنس میں علم کے موتی بکھیرنے کی سعادت حاصل کی۔ واضح رہے کہ ترکی کے علاوہ پروفیسر ممتاز علی نے دنیا بھر کے بے شمار ممالک بشمول امریکہ، برطانیہ، کنیڈا، اٹلی، ٹوکیو (جاپان)، سنگاپور، آسٹریلیا، سعودی عرب، نائجیریا، دوحہ، یو اے ای، اردن، پاکستان اور بنگلہ دیش کے کئی شہروں میں معلومات آفرین لیکچرس دیئے سمینارس سے خطاب کیا اور مقالے پیش کئے۔
ڈاکٹر ممتاز علی نے ملک کی مشہور معروف اور قدیم ترین جامعات میں سے ایک عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے گریجویشن کیا اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی۔ انہوں نے تاحال 26 ممالک کے دورے کرتے ہوئے مختلف عنوانات پر اپنے مقالے پیش کئے۔ میں یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ پروفیسر ممتاز علی نے جہاں تعلیمی شعبہ میں نمایاں خدمات انجام دیں وہیں ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی، مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان امن و اتحاد اور بین مذہبی مذاکرات کے فروغ میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ سال 2015 میں بنارس ہندو یونیورسٹی میں ’’برصغیر ہند میں تنازعات کے حل اور تعمیر امن‘‘ کے زیر عنوان خطاب کیا۔ اکتوبر 2015 میں سالٹ لیک یونیورسٹی امریکہ میں نفرت انگیز تقاریر اور اس کے اثرات کے زیر عنوان پارلیمنٹ آف ورلڈ ریلیجن میں خطاب کیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ پروفیسر ڈاکٹر ممتاز علی 1955 میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے وہ محمد محبوب اور محبوب بی کے 5 بچوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ انہوں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملیشیا میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے 1987 میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا تب سے ہی وہ اسی یونیورسٹی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر علی 15 کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ ترقیاتی مطالعہ جدیدیت، نظریہ علوم، مطالعہ طریقہ کار، تنقیدی فکر، فلسفہ سائنس اور جدیدیت جسے علوم باشعبوں میں وہ غیر معمولی مہارت اور دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اسلامی تناظر میں کئی نصابی کتب بھی منظر عام پر لائیں ان کی کتاب ISLAMISATION OF KNOWLEDGE کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملیشیا کے کیمپس میں بسٹ سیلر تسلیم کیا گیا ہے۔ 2014 اور 2016 میں انہیں ان کی دو کتابوں issue in Islamization of Human Knowledge: Civilization Building Discourse of Contemporary Muslims Thinks
(2 Islamization of Modern Science and its Philosophy: A Contemporary Civilizational Discourse کے لئے نیشنل بک ایوارڈس عطا کئے گئے۔ پروفیسر علی کمیٹی برائے پوسٹ گریجویٹ اسٹڈیز اور کمیٹی برائے سمینار (شعبہ اصول الدین و تقابلی مذہب میں) کے کوآرڈینیٹر کی بھی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کے کئی ایک مقالے جو گہری تحقیق کی بنیاد پر تحریر کئے گئے تھے عالمی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔
mriyaz2002@yahoo.com