انیس عائشہ
ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ اپنے خاندان کی سب سے تعلیم یافتہ اور معزز خاتون تھیں ۔ اپنی محنت سے عصری اور دینی تعلیم حاصل کرکے سرفراز ہوئیں اور بقول شاعر ؎
عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان و دکھ و درد کے معنی سیکھے
زیردستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخِ زرد کے معنی سیکھے
پروفیسر صاحبہ کے انتقال پرملال سے معاشرہ میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے ۔ اس طرح بے غرض اور اللہ پاک کے پسندیدہ کام کرتے ہوئے پوری زندگی وقف کردینا بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتا ہے ۔ عزائم بہت تھے پر مہلت کم تھی ۔ لیکن کسی کی عمر کا اندازہ اس سے نہیں ہوتا کہ وہ کب پیدا ہوا اور کب دنیا سے رخصت ہوا ، یہ اندازہ تو اس کی آرزوؤں ، کارناموں ، جدوجہد اور عزائم سے ہوتا ہے ۔ جو رہتی دنیا تک قائم رہتے ہیں اور کوئی نہ کوئی اس کو انجام دیتا رہتا ہے ۔ رشید احمد صدیقی کا کہنا ہے کہ بڑے آدمی کی عمر اپنے مقاصد جلیلہ سے ہمیشہ کم ہوتی ہے ،لیکن عمل لازوال ہوتا ہے ۔ طبعی زندگی میں اور روحانی و اخلاقی زندگی میں بھی ۔ اسی لئے علامہ اقبال نے کہا ہے ۔
تواسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں ، پیہم دواں ، ہر دم جواں ہے زندگی
محترمہ صبر وشکر کا پیکر تھیں ۔ بالکل اسی طرح جیسے عربی زبان میں صبر کے اصلی معنی ہر حال میں ثابت قدم رہنے کے اور دل کو قابو میں رکھنے کے ہیں ،اسی لئے البصیر بادل کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو دیر تک ایک جگہ قائم رہتاہے ۔شکر کا وسیع تر مفہوم یہ ہے کہ اللہ پاک کی نعمتوں کو صحیح طور پر استعمال کریں ۔ فرمایا گیا ہے ’’تمہیں جو نعمتیں دی گئی ہیں انہیں صحیح مصرف میں لاؤ اور مرحومہ نے یہ کردکھایا ۔ مرض کی انتہا کے باوجود کبھی شکوہ نہیں کیا ، ہمیشہ مسکرا کر اور سمجھانے کے انداز میں بات کرتیں اور اسی انداز میں تشکرانہ طور پر Dialysis کا ذکر بھی کرتیں ،جو پچھلے کافی عرصہ سے کروانا پڑرہا تھا ، جس کے فوراً بعد انتہائی آمادگی سے اپنے کاموں میں لگ جاتیں ۔ فریضۂ حج ادا کرنے بھی بہت ہمت ، سکون اور اطمینان سے گئیں گو کہ وہاں بھی کئی بار dialysis کروانا پڑا ۔
یونیورسٹی میں طالب علموں کی رہبری ،گھر اور اسکول میں پریشان حال عورتوں اور بچوں کی تعلیمی ، معاشی اور دینی مدد میں دامے ، درمے شریک رہتیں ۔ مسائل کے حل ،احکام شریعت کے لحاظ سے اپنے آپ کو شریک رکھ کر کرتیں اور فکرمند رہتیں ۔ ریحانہ سلطانہ کی موت پر جس طرح لوگوں نے اظہار تعزیت کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ 18 قرآن شریف تو اسی روز پڑھے جاچکے تھے ۔ دور دراز سے پروفیسر ،علماء ، دوست ، احباب ، اہل محلہ اور بچے اتنی بڑی تعداد میں تھے کہ ایسا منظر کم ہی دیکھنے میں آتا ہے ۔ گھر اور اسکول اپنی زبان حال سے ان کی دردمندی اور کارنامے بیان کررہے تھے ۔ عورتیں اور بچے بے اختیار اشکبار تھے ۔ ریحانہ سلطانہ نے ضرور دعا مانگی ہوگی ۔
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یارب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
دردمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو
جو واقعی قبول ہوگئی تھی ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ انہیں جنت الفردوس کا اعلی مقام نصیب ہو اور ہم سب کو کچھ اچھے کام کرنے کی توفیق حاصل ہو ۔ آمین