محمد خواجہ مخدوم محی الدین
پی ۔ایچ۔ڈی ۔ ریسرچ اسکالر(اُردو)
اورینٹل لینگویجس ‘ عثمانیہ یونیورسٹی ‘ حیدرآباد
عثمانیہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ادباء شعراء ‘ قلم کاروں کی طویل فہرست میں کچھ چنندہ اساتذہ ادب ایسے گذرے ہیں جن کی ادبی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔بالخصوص یونیورسٹی کی تاریخ میں جن خواتین کا ذکر کیا جائے گا ان میں ایک ڈاکٹر رفیعہ کا نام بلند اور سرفراز ہے جو نہ صرف عثمانیہ یورنیورسٹی کے شعبہ اُردو کی پروفیسر رہیں بلکہ یوینورسٹی کے فیکلٹی آف آرٹس کی پہلی خاتون ڈین کے عہدہ پر فائیز رہیں ۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ عثمانیہ یونیورسٹی کے ادبی اُفق پر ایک بلند اور روشن ستارہ بن کر چھائی رہیںجنہوں نے اپنی تدریس ‘ تحقیق ‘ تقریر اور تحریر سے اُردو نثر کا دامن مالا مال کیا اور خصوصاً تنقید میںایسا کارنامہ انجام دیئے جو ہردور کے طالب علم کے لیے مفید اور کارگرثابت ہوتے رہیں گے ۔
ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ محقق ‘ نقاد ‘ افسانہ نگار‘ انشاء پرداز‘ ڈرامہ نگار‘ بہترین مقرر ‘ اعلی پایہ کی اُستاداور کامیاب منتظم تھیں ۔ان کا اُردو اور انگریزی کا مطالعہ نہایت ہی وسیع تھا ۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ عثمانیہ یونیورسٹی کی ایک ایسی استاد رہیں جو اکثر ساتھیوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی اور شاگردوں میں ہردلعزیز اور کافی مقبول تھیں ۔ پروفیسر رفیعہ سلطانہ ایک جامع الحیثیات شخصیت کی مالک تھیں ۔وہ مشرق و مغرب کی دو اہم و زرخیز زبانوں فارسی اور انگریزی زبان و ادب کا نکھرا ذوق رکھتی تھیں ۔وہ شستہ و سلیں اور عام فہم اُردو میں لیکچر دیا کرتی تھیں ۔طلبہ ان کے لیکچرس محویت کے عالم میں سنتے تھے ۔ ان کے بے شمار شاگر د ہیں ۔اورنگ آباد کی سرزمین پر ان کے ابتدائی علمی و ادبی ذوق کو مولوی عبدالحق کی وجہ سے جلا ملی ۔ اعلیٰ تعلیم کی رغبت دلانے اور حیدآباد میں حصول تعلیم کی جراء ت مولوی عبدالحق بابائے اُردو نے دلوائی ۔ ایم اے اُردو میں رفیعہ سلطانہ کا مقالہ ’’ اُردو ادب کی ترقی میں خواتین کا حصہ‘‘ جب کہ پی ایچ ڈی میں ’’ اُردو نثر کا آغاز اور ارتقاء ‘‘۔انیسویں صدی کے اوائل میں ‘‘ تھاجو ان کے وہ تحقیقی کارنامے ہیں جن پر اُردو تحقیق بجاطورپر فخر کرسکتی ہے ۔ اُردو ادب کی ترقی میں خواتین کا حصہ ‘ نسائی ادب پر لکھی جانے والی اُردو میں پہلی تحقیقی کتاب ہے ۔ یہ کتاب نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے ۔ ان کا مقالہ ’’ اُردو نثر کا آغاز و ارتقاء ‘‘ 1947 میں شائع ہوا ۔ اس زمانے میں جو تحقیقی سہولتیں میسر تھیں اور جتنی مشکلات اس زمانے کی خاتون کو دوران تحقیق پیش آتی تھیں انھیں مدنظر رکھتے ہوئے اسے ایک دستاویزی تحقیقی کارنامہ سمجھا جاتا ہے ۔ سال 1947 ء کے بعد جتنی بھی اُردو ادب کی تاریخیں تحریر کی گئیں ان میں سے زیادہ ادیبوں نے اس کتاب سے استفادہ کیا ۔ تخلیقی ادب میں رفیعہ سلطانہ کے افسانوں کا مجموعہ ’’ کچے دھاگے ‘‘ ڈراما ’’ دودِچراغ محفل ‘‘ اردو فکشن کے ذخیرہ میں گراں قدر اضافہ ہیں ۔ ’’ کچے دھاگے ‘‘ کے بعض افسانوں میں شعور کی رو کی تکنیک شائد پہلی مرتبہ استعمال کی گئی ہے ۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ سرزمین اورنگ آباد میں پیدا ہوئیں اور حیدرآباد دکن میں بے مثال ادبی کارنامے انجام دیں ۔ تخلیق ‘ تحقیق ‘ تنقید کے میدان میں قلم اُٹھایا اور اس کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ بحیثیت افسانہ نگار اچھا نام کمایا ۔ ان کے افسانے اپنے عہد سے بہت آگے کا منظر پیش کرتے ہیں ۔ ان کے فن کی اس جدت میں جہاں ان کے عمیق مطالعہ اور شدید مشاہدے کو بڑا دخل حاصل ہے وہیں یہ دکن کی مٹی کی دین بھی ہے ۔ کیوں کہ یہاں کے ہر فطری فن کار نے نہ صرف آپ اپنے راستے کا انتخاب کیا بلکہ ادب کے دھارے کو متاثرکن انداز میں پیش کرنے کی کوشش بھی کی ۔ ان میں تحقیق و تنقید کی اعلیٰ صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی۔ انھیں علمی و ادبی حلقوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔
ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ 14؍ڈسمبر 1925 ء کو اورنگ آباد میں پیداہوئیں ۔ان کے والد کا نام سردار مرزا تھا ۔ رفیعہ سلطانہ نے اورنگ آباد سے میٹرک پاس کیا تھا ۔جس کے بعد ویمنس کالج کوٹھی حیدرآباد سے 1942 میں انٹر کی تعلیم مکمل کی ۔ سال 1944 میں بی اے کیا اور 1946 میں عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم مکمل کی ۔ جب کہ پی ایچ ڈی پروفیسر عبدالقادر سروری کی زیر نگرانی مقالہ تحریر کرکے سال 1954 میں کیا ۔ سال 1947 میں ویمنس کالج کوٹھی میںبحیثیت اُردو لکچرر تقرر ہوا ۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد شعبہ اُردو ‘عثمانیہ یونیورسٹی منتقل ہوکراپنی خدمات کا آغاز کیا ۔ سال 1968 تا 1979 تک وہ پروفیسر و صدرشعبہ اُردو کے عہدہ پر فائز رہیں جب کہ ڈین فیکلٹی آف آرٹس کے باوقار منصب پر سال 1982 تا 1984 تک فائز رہیں اورسال 1985 میں وظیفہ حسن خدمات پر سبکدوش ہوئیں ۔
ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ ساہتیہ کیڈیمی آندھراپردیش کی رکن کے علاوہ بیورو فار پرموشن آف اُردو دہلی کی بھی رکن رہیں ۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کو سال 1984 ء میں بیسٹ ٹیچرایوارڈ سے بھی نوازاگیا تھا۔اُردو اکیڈیمی آندھراپردیش نے مجموعی خدمات پر 1995 ء میں ایوارڈ سے نوازا ۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ 81 سال کی عمر میں 24 ؍ مارچ 2007 ء کو اس جہان فانی سے کوچ کرگئیں ۔ ان کے انتقال سے حیدرآباد کی ادبی و علمی دنیاء میں ایک خلاء پیدا ہوگیا ۔
ان کی تصانیف کی تعداد دس ہے ۔ جن میں کچھے دھاگے (افسانوں کا مجموعہ) 1949 ء چراغِ محفل (ڈراما)‘ اقبالِ سخن ‘ فن اور فنکار ‘ کلمتہ الحقائق ( ترتیب و تدوین ) 1961 ء ‘ اُردو ادب کی ترقی میں خواتین کا حصہ 1962 ء ( تحقیق) ‘ اُردونثر کا آغاز و ارتقاء 1962 ء (تحقیق) ‘ دکنی نثر پارے 1967 ء ( تحقیق ) اور کلیاتِ احسان شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھکتی مسلک اور اُردو شعراء انگریزی میں بھی کتاب لکھیں ہیں ۔ دکنی تحقیق کے سلسلہ میں ان کی چار کتابیں اہم ہیں۔
پروفیسر رفیعہ سلطانہ کا مرتبہ اُردو ادب میں بہت بلند ہے۔ سرزمین دکن کی خوش قسمتی ہے کہ دکن کو ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ جیسے اُردو کے پرستار ملے ۔ جنھوں نے اس زمین کی چھپی ہوئی اسرارکی عظمت سے دُنیا کو روشناس کروایا ۔ ادب کا کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس پر انھوں نے قلم نہ اٹھایا ہو ۔ 65 سال کی طویل مدت تک وہ گیسوئے اُردو کو سنوارتے رہیں ۔ کبھی تحقیق تو کبھی تنقید اور کبھی خواتین ان کے موضوع بنے ‘ خواتین کے علمی و ادبی خدمات پر لکھنے والوں میں اہم نام پروفیسر رفیعہ سلطانہ کا بھی شامل ہے ۔ ادب کے بہت سے موضوعات ایک عرصہ دراز تک نظروں سے اوجھل رہے ۔ بہت دنوں بعد زمانے میں ایسے قدرداں پیداہوئے جن میں پروفیسر رفیعہ سلطانہ سب سے زیادہ پیش پیش نظرآتی ہیں۔ دکن کا کوئی ادیب ان کی قلم کی دسترس سے باہر نہ رہا جہاں انھوں نے شعراء و مصنفین کا تعارف کروایا وہیں فن پاروں کے بارے میں معلومات بہم پہونچائیں اور اس وقت تک دائرے تحقیق بہت محدود تھا ۔ پروفیسر رفیعہ سلطانہ نے اپنی تحقیقی صلاحیتوں سے دکن کے مختلف کتب خانوں سے اُردو زبان کے انمول رتن کا انتخاب کیا جن سے اہلِ ادب کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں ۔
پروفیسر رفیعہ سلطانہ کی تحقیقی کاوشیں ان کے ادبی شعور کی ترجمان ہیں۔ ادب سے ان کی والہانہ وابستگی کا ثبوت ادب پاروں کی بازیافت کی طرف متوجہ ہونا ہے ۔انھوں نے بہمنی ‘عادل شاہی دور کی ادبی شخصیتوں کو گوشہ گمنامی سے باہر نکالا اور نئی نسل سے ان کے فن کو متعارف کروایا ۔ انھوں نے دکنی ادب پر خاص توجہ دی اور تمام عمر بڑے خلوص دردمندی اور لگن کے ساتھ مصروف رہیں ۔ ان کا مقصد یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ وہ یہ بتانا چاہتی تھیں کہ اُردو علم و ادب لازوال خزانوں سے مالا مال ہے ۔ جس نے ایسے شاعر اور ادیب پیداکئے جن کی تخلیقات نے اُردو ادب کا سربلند کیا۔ عادل شاہی ‘ قطب شاہی اورنگ آباد مغلیہ اور آصف جاہی کے بے شمار شاہکار وں کو انھوں نے نئی زندگی عطا کی اور اس بات کا احساس پیدا کیا کہ ان کی زبان کا سلسلہ ایک قابلِ فخر ادبی سرمایہ سے جا ملتا ہے ۔ انھوں نے نہ صرف بہمنی ‘ قطب شاہی اور آصف جاہی عہد کی گنگا جمنی تہذیب اور دکن کی عظمت رفتہ کو متاثر کن انداز میں پیش کیا بلکہ یہاں کے عظیم شہہ پاروں کو بھی منظرِ عام پر لایا اور نئی نسل کو اپنے تہذیبی اور ادبی کارناموں پر ناز کرنے کا جذبہ پیدا کیا اور اسی جذبہ سے سرشار ہوکر آج کی نئی نسل کے محقیقین کو بھی تحقیق میں دلچسپی بڑھی ۔ انھوں نے اُردو تحقیق میں دیانتداری کا ثبوت دیا ۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ان کی حیثیت ایک چراغ کی سی ہے جس سے طالب علموں کو روشنی ملی ۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود تحقیق کے میدان میں پیچھے نہیں ہٹیں اورساری عمر ادب کی خدمت کرتی رہیں ۔ ان میں اُردو کی خدمت کی دھن سوار تھی ۔
ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کی کتاب اُردو نثر کا آغاز و ارتقاء ‘ اُردو ادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ عام طورپر یہ کہا جاتا ہے کہ جدید اـردونثر کا آغاز فورٹ ولیم کالج سے ہوا ہے لیکن ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے یہ ثابت کردیا کیا کہ فورٹ ولیم سے قبل بھی بہت سارے نثری کارناموں کا پتہ چلتا ہے ۔ عام طورپر محققین کی نظریں زیادہ تر دکنی شاعری پر ہی رہیںاور دکنی نثر کو انھوں نے نظرانداز کردیا ۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ اس اعتبار سے قابل تعریف ہیں کہ انھوں نے پہلی بار دکنی نثر کا انتہائی گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کیا اور آنے والے محققین کے لیے دکنی نثر پر تحقیق و تنقید کی راہ ہموار کرکے یہ ثابت کردیا کہ دکنی نثر کا آغاز نظم کے ساتھ ہوا ۔
ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ ‘ دکنی تہذیب و ثقافت کی ایک زندہ تعریف تھیں۔ انھوں نے تحقیق و تنقید کے میدان میں اتنا کام انجام دیا کہ اس شعبہ میں یہ ایک طویل عرصہ تک رہنمائی کرتا رہے گا ۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کو حیدرآباد کی تاریخ ‘ یہاں کے گلی ‘کوچوں اور روایتوں سے بے پناہ عشق تھا ۔ دکنی تہذیب کے مختلف پہلوؤں پر انھوں نے جو کتابیں اور بے شمار مضامین لکھیں ہیں وہ ہماری تہذیب کی تاریخ ہیں جو سیاسی تاریخ سے زیادہ گہری اور سچی ہیں۔
تاریخ اور سوانح کے موضوع سے ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کو غیر معمولی دلچسپی تھی ‘اس موضوع پر انھوں نے ’’ حیدرآباد ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں حیدرآباد کی تاریخ درج ہے اور یہ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کا تخلیقی کارنامہ ہے ۔ اس کتاب میں میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع ریاست حیدرآباد کا جس میں اورنگ آباد ‘ گلبرگہ ‘ میدک اور ورنگل بھی شامل ہیں کا جائزہ لیا ۔ انھوں نے تین ہزار سال قبل کی ہندوستانی تاریخ کا اعادہ کیا اور اشوک کے زمانے سے اس کا سلسلہ رہنے کا ادعاکیا ۔ حیدرآباد کے رہن سہن ‘ یہاں کا طریقہ ‘ یہاں کی طرزِ حکومت اور یہاں کی عمارتوں کا بھی تذکرہ کیا ۔ اس طرح انھوں نے حیدرآباد کی سیاسی ‘ سماجی اور معاشی پہلوؤں کا اپنی اس کتاب میں احاطہ کیا۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے سوانح کے موضوع پر بھی بہت کچھ لکھا۔ ان کی سوانح نگاری کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ شخصیت پر لکھتی تو خاندانی پس منظر‘ تعلیم و تربیت ‘ آباو اجداد کا بھی تحقیقی جائزہ لیتی تھیں ۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ ایک عام آدمی بھی آسانی کے ساتھ اپنے سلف کے حالات اور کارناموں سے واقف ہوجائے۔ چنانچہ ان کی کتاب ’’ اقبالِ سخن ‘‘ میں عام فہم اور آسان زبان میں علامہ اقبال ؔجیسے عظیم شاعر پر بہت کچھ لکھا اوران کے شاعرانہ کلام کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ انھوں نے علامہ اقبالؔ کے فکر و فن کے بعض ایسے گوشوں کو لوگوں کے سامنے لایا جس کو سمجھنے کے لیے انسانی شعور کی ضرورت ہوتی ہے ۔
پروفیسر رفیعہ سلطانہ کا خواتین پر بڑا احسان ہے کہ انھوں نے خواتین کے علمی و ادبی کارناموں کو منظرِ عام پر لایا ۔ اُردو زبان و ادب کی تاریخ میں خواتین کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا ۔ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے اپنی کتاب ’’ اُردو ادب کی ترقی میں خواتین کا حصہ ‘‘ لکھ کر یہ ثابت کردیا کہ خواتین کا بھی اُردو ادب کی ترقی میں اہم حصہ رہا ہے ۔ پروفیسر رفیعہ سلطانہ نے محمد قلی سے ولی تک کے عہد کا جائزہ لیکر اس عہد کی شاعرات اور ان کے ادبی کارناموں کو پیش کیا ۔ ان کے مجموعہ کلام بھی منظر عام پرآئے ۔ دہلی ‘ لکھنو‘ رام پور اور بھوپال کی شاعرات کا مسلسل ذکر کیا ۔ خواتین کی نثر نگاری کو پیش کرکے بحیثیت ناول نگار ‘ بحیثیت مضمون نگار ‘ ہر باب میں تقسیم کرکے ہر عنوان کے تحت خواتین کے کارناموں کو پیش کیا ۔ دورِ جدید کے اصلاحی ‘ معاشرتی ‘ نفسیاتی ناول نگار خواتین کا سلسلہ وار ذکر کیا ۔ مضمون نگاری ‘ سیرت نگاری ‘ مزاح نگاری اور ڈراما نگاری میں خواتین کے کارناموں کا ذکر کیا ۔ ادبِ اطفال اور صحافت میں خواتین کا مفصل جائزہ لیا ۔ اس طرح ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے تاریخ کے اہم کرداروں کو گوشئہ گمنامی سے نکالا۔ ان کی یہ خدمت ہمیشہ یادگار رہے گی۔ انھوں نے خس وخاشاک میں چھپے ہوئے ہیروں کو منظر عام پر لایا اور علمی دنیا سے روشناس کروایا ۔
پروفیسر رفیعہ سلطانہ کی شخصیت اُردو ادب میں اعلیٰ مقام رکھتی ہیں۔ وہ ایک بڑی محقق اور نقاد تھی ۔ انھوں نے اردو ادب کو وسعت بخشی اور ان کی زبان سادہ رہی ۔ ان کے مزاج میں عجز و انکساری اور خاکساری بھی تھی ۔ یہ صفت ان کے اُسلوب کی نمایاں خصوصیت بن گئی ۔ اور ان کی زبان سادہ اور عام فہم ہے وہ اپنی عبارت میں تشبیہہ و استعارہ کا استعمال نہیں کرتی تھیں ۔ ان کا اندازِ بیان ان کی اپنی انفرادیت رہی ۔ ایک عام آدمی بھی ان کی تحریریں آسانی سے پڑھ کر سمجھ سکتا ہے ۔ پروفیسر رفیعہ سلطانہ نے تحقیق کو آسان بنا کر عام لوگوں میں ذوقِ تحقیق کو بیدار کیا اور لوگوں میں ادب اور کلچر سے محبت اور وابستگی بڑھادی ۔
maqdoom_siasat@yahoo.com