پرانے شہر کی سیاسی اونر شپ پارٹی اور عوام

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری       خیر اللہ بیگ
بلدی انتخابات کا پورا مرحلہ دھوم دھام سے شروع ہوکر تشدد پر ختم ہوا، جو پارٹی متصادم ایجنڈہ پر چل رہی تھی اسے حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کی بھرپور سرپرستی حاصل تھی۔ 150بلدی ڈیویژنوں پر کئی درجن امیدواروں نے اپنی قسمت آزمائی اور سب سے بڑی آزمائش حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کے لئے تھی جس نے بلدی انتخابات میں صفر سطح سے شروع کرکے 100 نشستوں کے حصول کا نشانہ مقرر کیا تھا اس میں صد فیصد کامیاب ہوئی ،اس کے حصہ میں توقع کے مطابق حلقے آئے جبکہ مقامی پارٹی کے سیاسی اثر کو دھکاپہونچایا جانا بہت بڑی تبدیلی متصور ہورہی تھی لیکن اس نے پہلے سے زیادہ حلقے حاصل کئے۔ کانگریس، تلگودیشم اور بی جے پی کی کوششیں زیادہ ثمرآور نہیں ہوئیں۔ ٹی آر ایس کو 100 نشستیں حاصل ہونے کا دعویٰ کرنے والے وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ نے اپنے والد چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو یہ بھی تیقن دیا تھا کہ ان کی انتخابی مہم کا زبردست اثر ہوگا اور رائے دہندے ٹی آر ایس کے حق میں ہی ووٹ دیں گے۔

انتخابی مہم کے دوران چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو کے فرزند لوکیش نے بھی اپنے وجود کا احساس دلاتے ہوئے مہم چلائی تھی۔ ریاستی وزیر کے ٹی راما راؤ اور لوکیش کے درمیان سوشیل میڈیا پر زبردست انتخابی مقابلہ آرائی اور مہم دیکھی گئی۔ حیدرآباد میں جملہ 15 اسمبلی حلقے ہیں ان میں سے 2پر ٹی آر ایس، 2پر تلگودیشم، 7پر مجلس اور 4 پر بی جے پی کا قبضہ ہے جبکہ کانگریس کے حق میں صفر تھا، انہی 15اسمبلی حلقوں میں ہوئے 150 بلدی ڈیویژنس کے نتائج مقامی سطح پر عوام کے بنیادی مسائل اور عوام کی توقعات کے تابع دکھائی دیتے ہیں۔ چیف منسٹر کے سی آر نے بلدی انتخابات کی تیاری تلنگانہ کے قیام اور اپنی حلف برداری کے دن سے ہی شروع کی تھی اور اب اپنے فرزند کے ٹی راما راؤ کو بلدی نظم و نسق و شہری ترقی کی زائد ذمہ داری بھی دیں گے۔ اس سلسلہ میں ان کا کہنا ہے کہ کے ٹی راما راؤ حیدرآباد کے گلی کوچوں سے واقف ہیں اور اس شہر کے تمام مسائل کا بھی وہ علم رکھتے ہیں۔ ان انتخابات میں کانگریس  نے کافی توقعات پیدا کرلی تھیں لیکنوہ لوک سبھا انتخابات کی طرح بلدی انتخابات میں بھی بدترین شکست سے دوچار ہوئی۔2009میں52 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور اس مرتبہ مزید کی توقع تھی، رائے دہندوں نے اس کی توقع پر بری طرح پانی پھیر دیا۔
بلدی انتخابات کے عین موقع پر بی جے پی کو شدید دھکا لگا کیونکہ پارٹی کے سینئر لیڈر و مرکزی وزیر بنڈارو دتاتریہ کو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں  پی ایچ ڈی اسکالر روہت ویمولا کی خودکشی کے واقعہ میں ملوث بتایا گیا تھا، اس واقعہ کی وجہ سے تلگودیشم ۔ بی جے پی اتحاد کو نقصان پہونچا۔ قومی پارٹی کی حیثیت سے کانگریس نے خاص مظاہرہ نہیں کیا، اس سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ تلنگانہ میں اب مستقبل قریب اپوزیشن پارٹیوں کا احیاء مشکل ہوگا۔

پرانے شہر میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالات جس طرف جارہے ہیں ان میں ایک موثر اور مضبوط تبدیلی وقت کا تقاضہ سمجھی جارہی ہے۔ یہاں ایک موافق غریب اور عوام دوست پارٹی کی ضرورت زیادہ محسوس ہونے لگی ہے۔ دیانتدار قائدین کے فقدان کی وجہ سے یہاں سوائے مجلس کے کوئی دوسری سیاسی جماعت اس ضرورت کو پورا کرتے ہوئے نظر نہیں آتی۔ اگر پرانے شہر کے موجودہ حالات اور ماضی کی سیاسی قیادت کی دیانتداری کا معروضی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مجلس کی سینئر قیادت نے جو نقوش چھوڑے تھے انہیں مٹاکر ہی دَم لینے کی قسم کھانے والوں نے رائے دہندوں کو بھی بزرگوں کی تہذیب کو پیروں تلے کچل دینے کی تربیت دی ہے۔ پرانے شہر سے مجلس کو دور کرنے کی جدوجہد کے ساتھ بلدی انتخابات میں کود پڑنے والی کانگریس کو تشدد کا شکار ہونا پڑا۔ ریاست تلنگانہ کی مقتدر قوتوں کو بھی پرانے شہرکے تعلق سے اپنی سیاسی پالیسی میں تبدیلی لانے کی ہمت نہیں ہوئی۔پرانے شہر میں کانگریس قائدین کو زدوکوبی کے ساتھ دھتکاری جانے والی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
یہ ٹھیک ہے کہ وقت کے ساتھ ٹی آر ایس نے مصلحت پسندی سے کام لینے کا ہنر سیکھا ہے لیکن سیاسیشراکت داری کی وجہ سے جو باتیں پیدا ہوتی جارہی ہیں وہ عوام کے نزدیک ناپسندیدہ قرار دی جاسکتی ہیں۔ حکمراں ٹی آر ایس کو شہر کے عوام کے ساتھ آنکھ مچولی نہیں کرنی چاہیئے بلکہ پرانے شہر اور نئے شہر کے درمیان برسوں سے جو فرق برقرار رکھا گیا ہے اب اسے ختم کرنے کے لئے حکمراں پارٹی کو اپنے وعدہ کی تکمیل کی جانب قدم اٹھانے ہوں گے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ نئے شہر کی ترقی اور پرانے شہر کی ابتری کا ہے۔ اس ابتری کا بنیادی سبب ہر ایک کو معلوم ہے، ووٹ دے کر اپنی پسند کا کارپوریٹر منتخب کرنے والے عوام کی اکثریت  اتنی بھولی ہے کہ اسے کارپوریٹرس کی دھاندلیوں اور بے ایمانیوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ انہیں سمجھنے کیلئے سیاسی تاریخ اور پرانے شہر کی حقیقی صورتحال کا ادراک لازمی ہے۔ عوام کا اجتماعی سیاسی شعور ہی اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ان کے علاقے، محلہ اور بستی میں کس طرح کے انتظامات ہونے چاہیئے۔ پرانے شہر میں صرف ایک جماعت کی سیاسی منصوبہ بندی ہی سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی آرہی ہے۔ اس کی سیاسی اونر شپ نے ہی پرانے شہر کو کھنڈر میں تبدیل کردیا ہے۔ عوام کا تازہ خط اعتماد حاصل کرنے کے بعد اسے مزید بے لگام ہونے کے بجائے اپنی کارکردگی کا دیانتدارانہ احتساب کرنا ہوگا۔

عوام کے ایک گوشہ کے اعتراضات اور تحفظات ذہنی بھی صرف دیوان خانے کی بحث یا چبوترے کی میٹنگوں تک ہی محدود ہوتی ہے اور یہی لوگ اپنے ووٹ دینے کی روٹ کو تبدیل نہیں کرتے۔ ملت پرست جماعت ہونے کا دعویٰ کرنے کا شاید یہی فائدہ ہے کہ لوگوں کی ہمدردی برقرار رہتی ہے۔ لیڈر شپ پیدا کرنے کیلئے مسلمانوں نے ایک خاص سطح سے اوپر اُٹھ کر سوچنے اور غور و فکر کے ساتھ جدوجہد کرنے کی ہمت نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ ملت کے نام پر جذبات کو ہوا دینے والی جماعت عوام کی فطری کمزوریوں سے فائدہ اٹھارہی ہے۔ بہرحال منتخب ہونے والے تمام کارپوریٹرس کی تعریف کی جانی چاہیئے کہ انہوں نے عوام کا دل جیتنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اب ان کا یہ اولین فریضہ ہے کہ وہ اپنے رائے دہندوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کا مظاہرہ کریں۔ بلدیہ کے بجٹ میں سب سے زیادہ حصہ وصول کرنے کی فکر کے ساتھ ہر گلی اور ہر محلے کی ضرورت کو پورا کیا جائے تو آئندہ الیکشن میں یہی رائے دہندوں کے ساتھ دوستانہ ہم کلام ہونے کا موقع ملے گا۔ بہر حال اب شہرحیدرآباد کا ہرمحلہ اور محلے کی گلی ایک منظم اور مربوط موثر چابک دست اور وچوکس کارپوریٹر کے زیر کمان بنیادی مسائل بھی حل ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے اور حکمراں پارٹی کے وعدوں کے مطابق بہت بڑی نہ سہی کچھ نہ کچھ تبدیلی کی اُمید رکھی جاسکتی ہے۔
kbaig92@gmail.com