میرا کالم سید امتیازالدین
ہم نے کل ایک انگریزی اخبار میں پورے ایک صفحے کا ایک مضمون دیکھا جس میں بتایا گیا ہے کہ آج کل پرائیوٹ ٹیوشن کرنے والے اساتذہ موج کررہے ہیں اور جوں جوں امتحانات قریب آرہے ہیں اُن کی فیس میں اضافہ ہورہا ہے۔ فبروری سے جون تک ایک ٹیوٹر آسانی سے فی طالب علم کم سے کم بیس ہزار روپے تک کمالیتا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ بچوں کے والدین اسکول کی تعلیم سے مطمئن نہیں ہوتے کیوں کہ ہر کلاس میں طالب علموں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ٹیچرس بچوں پر خصوصی توجہ نہیں دے سکتے۔ لامحالہ سرپرست اپنے بچوں کو ٹیوشن دلانا چاہتے ہیں تاکہ اُن کا بچہ یا بچی اچھے نمبرات سے کامیاب ہوجائے اور اُنھیں کسی اچھے کورس میں داخلہ مل جائے۔ اکثر لوگ گھر کے اخراجات میں کمی کردیتے ہیں تاکہ تعلیمی اخراجات کی کفالت ہوسکے۔ اکثر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری بساط ایسی نہیں کہ ہم اپنی اولاد کے لئے اتنی جائیداد چھوڑ سکیں جو اُن کو زندگی بھر کام آئے۔ اگر بچے تعلیم یافتہ ہوں تو وہ اپنی زندگی خود گزار سکیں گے۔ ہم ایسی سوچ رکھنے والے والدین سے صد فیصد متفق ہیں۔ کئی دولتمند والدین سے ہم واقف ہیں جنھوں نے اولاد کی تعلیم پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ اولاد نکمی نکلی اور ماں باپ کا چھوڑا ہوا اثاثہ چند سال بھی ساتھ نہ دے سکا۔ اس کے برخلاف ہم ایسے لوگوں سے بھی واقف ہیں جو کرائے کے مکانوں میں رہے۔ سادہ غذا کھائی، سادہ کپڑے پہنے لیکن اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر اتنی توجہ دی کہ بچے قابل نکلے اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی کمائی سے گھر کا نقشہ بدل دیا۔
بات ٹیوشن کی چلی ہے تو ہم کو اپنا بچپن یاد آتا ہے۔ اُن دنوں انگریزی اور ریاضی پڑھانے والوں کی تنخواہیں پندرہ بیس روپئے سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں۔ عربی کے مولوی صاحب کی تنخواہ اُس سے بھی کم۔ جب ہم اسکول کی بڑی جماعتوں میں آگئے تو ہماری مالی حالت اس قابل نہیں تھی کہ ہم کسی سے ٹیوشن لیتے۔ لیکن ہمارے اساتذہ اتنی توجہ دیتے تھے کہ ہم کلاس کے نوٹس اور ہوم ورک کی مدد سے امتحانات میں کامیاب ہوجاتے تھے۔
ہم نے اپنی زندگی میں دو ٹیوشن کئے ہیں جن کی خوشگوار یادیں آج بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ ہوا یوں کہ جب ہم کالج میں آگئے تو ہمارا ذاتی خرچ کچھ بڑھ گیا اور گھر سے جو معمولی جیب خرچ ملتا تھا وہ اونٹ کی ڈاڑھ میں زیرہ لگنے لگا۔ ہمارے بعض دوست بھی ٹیوشن کیا کرتے تھے اور ہم کو ٹیوشن سے ہونے والی آمدنی کے فوائد پر نہایت مؤثر لکچر دیا کرتے تھے۔ چنانچہ ہم نے بھی اُن کی دیکھا دیکھی ٹیوٹر بننے کی ٹھانی۔ ہم نے ایک دن اخبار میں اشتہار دیکھا کہ ایک ہونہار طالب علم کو انگریزی پڑھانے کے لئے ٹیوٹر کی ضرورت ہے۔ ہم فوراً اخبار میں دیئے ہوئے پتے پر پہنچ گئے۔ مکان کافی شاندار تھا۔ ہم نے اطلاعی گھنٹی بجائی لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ مکان پر ایسا سناٹا چھایا ہوا تھا کہ ہم کو گمان گزرا کہ شاید ٹیوٹر کی ضرورت اتنی شدید ہے کہ سارا گھر ٹیوٹر کی تلاش میں گیا ہوا ہے۔ ہم نے جی کڑا کرکے دوسری مرتبہ پھر کال بل دبائی۔ اس بار ہم کو کھنکارنے اور کھانسنے کی آواز آئی۔ پھر اُس مکان کی آہنی گیٹ کے قفل کھلنے کی آواز آئی۔ گیٹ کُھلی اور ایک بڑے میاں برآمد ہوئے۔ اُنھوں نے خوابیدہ آنکھوں سے ہمیں دیکھا اور آنے کی غرض دریافت کی۔ ہم نے اپنا مدعا بیان کیا۔ بڑے میاں نے ہمیں نیچے سے اوپر تک دیکھا۔ کہنے لگے ’’میاں ! ابھی تو چھوٹے بابا اور بڑے صاحب دونوں سورہے ہیں۔ آپ ایک گھنٹے کے بعد آیئے‘‘۔
خوش قسمتی سے وہ اتوار کا دن تھا اور ہمارے پاس برباد کرنے کے لئے وقت کی کوئی کمی نہیں تھی۔ چنانچہ ہم قریب کی ایک ہوٹل میں گئے اور وہیں مقیم ہوگئے۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم پانچ دس منٹ کے لئے چائے نوشی کی غرض سے جاتے تو اُسے جانا کہتے لیکن یہاں تو ہمارا مقصد ایک گھنٹہ گزارنا تھا۔ اس لئے ہم نے اپنے جانے کو قیام پذیر ہوجانا محسوس کیا۔ ہم نے نہایت آہستہ آہستہ چائے پی، ٹیبل پر اُس دن کا اخبار پڑا تھا۔ ہم نے تمام خبریں، مراسلے اور اشتہارات بھی دیکھ ڈالے۔ اداریہ بھی پڑھنا چاہتے تھے کہ ایک اور صاحب جو شاید اخبار کی تاک میں تھے اور اُسی ٹیبل پر بیٹھے تھے، کہنے لگے ’’بھائی ابتدائی دو صفحات مجھے بھی دیجئے‘‘۔ یوں بھی ہم بیزار ہوگئے تھے۔ اس لئے کسی نہ کسی طرح ایک گھنٹہ گزار کر ہم دوبارہ اپنے ہونے والے شاگرد کے درِ دولت پر حاضر ہوگئے۔
ہمارے ہونہار شاگرد کے والد نے ہمیں بتایا کہ لڑکا آندھرا میٹرک کی تیاری کررہا ہے اور تین ٹیوٹرس پہلے ہی اُس کو تیار کرنے کی تیاری میں لگے ہیں اور انگریزی کا قرعہ ہمارے نام نکلا ہے۔ چالیس روپئے ماہانہ فیس طے پائی۔ روزانہ پانچ تا چھ بجے شام پڑھائی کے اوقات رہیں گے۔ لڑکے کے والد نے یہ بھی بتایا کہ ہمیں نرمی برتنا پڑے گا کیوں کہ ہمارا شاگرد بہت نازک مزاج ہے اور اپنی دادی کا لاڈلا ہے۔ اُس لڑکے کو پڑھاتے ہوئے ہم کو عجیب عجیب تجربات سے گزرنا پڑا۔ ہفتے میں تین دن صاحبزادے بیمار رہا کرتے اور ہم اُلٹے پاؤں لوٹ جاتے۔ دو تین مہینے کے بعد امتحان کی تاریخ قریب آگئی اور امتحان کی اصل تیاری شروع ہوئی۔ تیاری سے مراد پڑھائی نہیں تھی بلکہ لڑکے کی دادی کی راست نگرانی میں توشے کی تیاری شروع ہوئی کیوں کہ امتحان کا مرکز وجئے واڑہ یا وشاکھاپٹنم کے کسی مقام پر تھا۔ موصوف دو وفادار نوکروں کے ساتھ ٹرین سے روانہ ہوئے اور ہمارا ٹیوشن اختتام کو پہنچا۔ جب نتیجہ نکلا تو ہم نے اُن کے گھر فون کیا۔ اُن کے والد نے بتایا کہ لڑکا تمام مضامین میں فیل ہوچکا ہے۔ صرف انگریزی میں سب سے زیادہ یعنی پچیس نمبر آئے ہیں اس لئے سپلیمنٹری امتحان میں بھی ہماری خدمات حاصل کی جائیں گی۔ ہم نے خود اپنی پڑھائی کا بہانہ کرکے معذرت کرلی۔ کمال یہ ہے کہ چار پانچ سال بعد ہماری اُس لڑکے اور اُس کے باپ سے کسی شادی میں ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اُس نے گریجویشن کرلیا ہے اور کسی بینک میں آفیسر ہے جبکہ ہم اپنی تعلیم مکمل کرنے کے باوجود بے روزگار تھے۔ اثر و رسوخ بھی کیا چیز ہے۔
ہمارا دوسرا ٹیوشن بھی دل چسپ تھا۔ ایک دن ایک لڑکا ہم سے ملنے آیا۔ معلوم ہوا کہ اُس کی عمر تقریباً بیس سال ہے۔ وہ شادی شدہ ہے لیکن اُس کی دلی خواہش ایم بی بی ایس کرنے کی ہے اور وہ فزکس اور کیمسٹری میں مدد چاہتا ہے۔ اُس لڑکے کے باپ کی مٹھائی کی دکان تھی۔ ہم کالج سے چھوٹ کر شام چھ بجے پہنچتے۔ ہمارے پہنچتے ہی مٹھائی، نمکین اور چائے سے ہماری تواضع ہوتی۔ اُس کے پاس ہر سبجکٹ پر کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ لیباریٹری کا جملہ سامان بھی موجود تھا۔ کیمسٹری کے بعض تجربات ایسے بھی تھے کہ آگ لگ جانے کا یا کپڑوں کے جل جانے کا خدشہ لگا رہتا تھا۔ ہم نے اُس سے کہا بھی کہ صرف تھیوری کی تیاری کافی ہے۔ پریکٹیکل امتحانات کی تیاری گھر پر ضروری نہیں ہے لیکن اُس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی اور ہم کو یہ ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں اُس کے ساتھ پریکٹیکل کرتے کرتے ہم جاں بحق نہ ہوجائیں۔ سالانہ امتحان سے ایک مہینے پہلے اُس نے اپنی بیوی کو اُس کے میکے بھیج دیا اور صرف کتابوں کی دنیا میں گم ہوگیا اور بالکل نصابی گفتگو کرنے لگا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اُس کو نہ صرف ایم بی بی ایس میں داخلہ مل گیا بلکہ وہ ڈاکٹر بھی بن گیا۔ ہم آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ہم اُس کو ٹیوشن نہ بھی دیتے تو اُس کی لگن ایسی تھی کہ وہ ڈاکٹر بن کے رہتا۔
ٹیوشن کی بعض دوسری قسمیں بھی ہوتی ہیں۔ ہمارے ایک دوست ایک لڑکی کو اتنا دل لگاکر پڑھاتے تھے کہ بالآخر اُس گھر کے داماد بن گئے۔
بہرحال آج کا زمانہ مقابلہ کے امتحانوں کا زمانہ ہے۔ اس لئے ماں باپ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو ٹیوشن دلاتے ہیں تو تعجب کی بات نہیں۔ لیکن ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اگر والدین تعلیم یافتہ ہیں تو اُنھیں اپنے بچوں کو خود پڑھانا چاہئے اور تعلیمی سال کے آغاز سے ہی سالانہ امتحان کی تیاری شروع کردینی چاہئے۔ ڈسمبر یا جنوری کے مہینے میں اگر آپ بیدار ہوں گے تو پریشانی میں ہزاروںکا خرچہ ہوگا اور نتیجہ بھی خاطر خواہ نہیں نکلے گا۔ ہمارے بیشتر طلبہ کے ساتھ پرابلم یہ ہے کہ وہ سال کے ابتدائی مہینے گپ شپ یا ٹی وی میں گنوادیتے ہیں۔ جب سالانہ امتحان میں بہت کم دن رہ جاتے ہیں تو کچھ تو ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ سے یا پھر خود اپنے فیل ہوجانے کے خوف سے کتاب کھولتے ہیں۔ پطرس بخاری نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اُس نے فائنل ایئر کی تیاری اُس وقت شروع کی جب امتحان میں بمشکل پندرہ بیس دن باقی رہ گئے تھے۔ اُس نے ہمت سے کام لیتے ہوئے امتحان کی تیاری کا پروگرام بنایا۔ پہلے تو اُس نے کتابوں کے صفحات جمع کئے۔ پھر امتحان کی تیاری کے لئے جتنے دن بچے تھے اُن کی تعداد جمع کی۔ صفحات کو دنوں سے تقسیم کیا۔ یومیہ پانچ سو صفحات جواب آیا۔ اُس نے وحشت زدہ ہوکر اپنے کسی مخلص دوست سے اس کا تذکرہ کیا۔ دوست نے معاملہ کی سنگینی پر غور کیا اور اُسے مشورہ دیا کہ یومیہ پانچ سو صفحات اکیلے تم سے پڑھنا مشکل ہے۔ بہتر ہے کہ کچھ صفحات تم اپنے دوستوں میں تقسیم کردو۔ ہمارے طالب علموں کو ایسی صورتحال سے بچنے کے لئے سال کے آغاز سے ہی تیاری شروع کرنی چاہئے۔