پتھر کو پانی میں تیرتے ہوئے دیکھا ہے؟

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری        خیر اللہ بیگ
آپ نے کبھی پتھر کو پانی میں تیرتے ہوئے دیکھا ہے؟ بچوں کو پانی میں پتھر پھینک کر خوش ہوتے ہوئے ضرور دیکھا ہوگا۔ بچپن میں پتھر کو پانی پر تیرانے کی کوشش کی گئی، ہم بھی ندی یا تالاب کے کنارے بیٹھے چھلکے نما پتھروں کوپوری طاقت سے پانی میں پھینکتے اور یہ پتھر پانی کی سطح پر تین چار چھلانگیں لگاکر بالآخر ڈوب ہی جاتا۔ جس طرح پتھر پانی میں تیر نہیں سکتا، اسی طرح لیڈر کرسی کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ کرسی اور عہدہ کی لالچ اتنی شدید ہوتی ہے کہ سیاستدا ں احسان فراموشی کا بدترین مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ ریاست تلنگانہ میں اسی طرح کی احسان فراموشیوں کا مظاہرہ کا مشاہدہ کرنے والوں نے یہ ضرور دیکھا ہوگا کہ حکمران پارٹی میں شامل ہونے والے اندھا دھند قائدین کی تعداداب بیروز گاری کا شکار ہوکر بے چین اور مضطرب ہے۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی میں اس آرزو کے ساتھ شمولیت اختیار کی گئی تھی کہ انہیں کچھ نہ کچھ عہدہ اور کرسیاں مل جائیں گی۔ آئندہ پانچ یا 10سال تک اپنی سرپرست پارٹی میں خشک زندگی گذارنے سے بہتر ہے کہ حکمراں پارٹی میں شامل ہوکر اقتدار اور عہدہ کے مزے حاصل کریں مگر انحراف کرکے ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے ایسے کتنے قائدین ہیں جن کی آرزو پوری ہوئی ہے۔ خود ٹی آر ایس کے محنت کش قائدین کو پارٹی سربراہ نے انگوٹھا دکھایا ہے تو دوسری پارٹیوں سے نکل کر ٹی آر ایس میں شامل ہونے والوں کو ’’ ہولڈ ‘‘ پر رکھا ہے۔ ٹی آر ایس کے اقتدار پر آنے کے بعد دو سال یوں ہی گذر گئے۔ پارٹی اور دیگر پارٹیوں سے آنے والے دوسرے درجہ کے قائدین کو اب تک کسی کارپوریشن یا محکمہ کا عہدہ نہیں مل سکا۔
 گذرتے وقت کے ساتھ ان کے اندر مایوسی اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حکمراں ٹی آر ایس نے دیگر پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے قائدین کو یہ لالچ دے کر ہی انحراف کی ترغیب دی تھی کہ انہیں عہدے دیئے جائیںگے۔ دیگر پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی یا سابق ارکان اسمبلی سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں کچھ نہ کچھ عہدے دیئے جائیں گے۔ اگرچیکہ اب ریاستی حکومت اپنی میعاد کے نصف حصہ کو پہونچ چکی ہے، اب تک چیف منسٹر نے کئی عہدوں پر لیڈروں کو نامزد نہیں کیا ہے۔ اس پارٹی کے لیڈروں اور دوسری پارٹیوں سے آئے بھگوڑے کہلائے جانے والوں کو کسی بھی کارپوریشن کا عہدہ نہیں دیا گیا۔ البتہ ٹی آر ایس کے ذاتی لیڈروں کو اس بات کی خوش فہمی ہے کہ انہیں مختلف کارپوریشنوں کا چیرمین بنایا جائے گا۔ لیکن وقت آنے پر پتہ چلا کہ چیف منسٹر نے چند لوگوں کو ہی یہ خوشی بخشی ہے  ماباقی کئی قائدین ٹوٹے دلوں کے ساتھ چیف منسٹر کی جانب اُمید کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ ریاست میں تقریباً 50 کارپوریشنس ہیں اور حکومت نے اب تک صرف چند کارپوریشنوں کے عہدوں پر لیڈروں کو بٹھایا ہے۔ ٹی آر ایس میں کچھ لیڈروں کو چھوڑ کر اب تقریباً لیڈر مایوسی کا شکار ہیں اور ان مایوس لیڈروں پر بی جے پی کی نظرہے کیونکہ بی جے پی کا کہنا ہے کہ وہ 2019 کے اسمبلی انتخابات میں کامیاب ہوگی اور آئندہ اقتدار اسی کا ہوگا۔ بی جے پی کا دعویٰ کھوکھلا بھی ہے کیونکہ تلنگانہ میں اس پارٹی کا کوئی طاقتور لیڈر نہیں ہے اس کے باوجود اقتدار کا خواب دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

 ٹی آر ایس کا متبادل ہونے کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی اور اس کی قومی قیادت امیت شاہ کو دن میں خواب دیکھنے کی عادت ہے تو وہ اس عادت کے سہارے حکمراں ٹی آر ایس کو ناکام بنانے کا بھی خؤاب دیکھ رہے ہیں۔ تاہم سچائی چُھپ نہیں سکتی بناوٹی اُصولوں یا خوابوں کے مصداق بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری مرلیدھر راؤ نے ہی از خود یہ اعتراف کیا کہ ان کی پارٹی تلنگانہ میں اپنے بل پر حکومت نہیں بناسکتی کیونکہ اس ریاست میں بی جے پی کے قائدین کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے اور اقتدار حاصل کرنے کیلئے یہ تعداد کافی نہیں ہے۔ بی جے پی کے ریاستی یونٹ میں ایسا کوئی طاقتور لیڈر نہیں ہے کہ وہ تلنگانہ کے عوام کی رائے کو یکلخت فرقہ پرستی کے نظریہ کا حامی بنانے میں کامیاب ہوسکے۔ بی جے پی تلنگانہ قائدین صرف اپنی بستی ہی میں جانے پہچانے جاتے ہیں انہیں ان کے حلقہ میں بھی کوئی نہیں پہچان پاتا،یہ لوگ مالی طور پر بھی کمزور ہیں اور حلقہ حاصل کرنے کیلئے بے تحاشہ دولت خرچ کرنا بھی ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ صرف قومی سطح پر نریندر مودی کی شہرت کے عوض تلنگانہ کا رائے دہندہ بی جے پی کے ہاتھ مضبوط کرنے یہ غیر یقینی بات ہے، البتہ بی جے پی کی قومی قیادت کچھ ایسے چال چل سکتی ہے جس کی مدد سے وہ حکمراں ٹی آر ایس میں پھوٹ ڈال کر اس کی طاقتور سیاسی لابی کو حاصل کرسکتی ہے یا پھر از خود ٹی آر ایس کو بی جے پی میں ضم کرنے والے عوامل سے گذرتی ہے۔ فی الحال بی جے پی کے گوشو ںمیں یہ بات خوش فہمی کے ساتھ گشت کررہی ہے کہ اگر جنوبی ہند میں کرناٹک بی جے پی کا باب الداخلہ ہے تو تلنگانہ اس کے اقتدار کے لئے ایک شاندار موقع کی کھڑکی ہے۔

 بی جے پی کو جس طرح گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور اتر پردیش میں سیاسی طاقت اور حوصلہ حاصل ہے اسی جذبہ کے ساتھ وہ جنوبی ہند کی جانب پیشرفت کررہی ہے۔ کرناٹک میں کچھ برس اتحادی حکومت میں رہنے کے بعد بی جے پی پوری طرح سے جنوب میں سرگرم ہونے کی کوشش کررہی ہے اور فرقہ پرستی کا کارڈ کھیلنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ کوئی بھی پارٹی عوامی حمایت کے بغیر سورما نہیں بن سکتی۔ جب تک قومی اقتدار سے دور تھی بی جے پی کا لیڈر کمزور تھا اب قومی سطح پر بی جے پی کو اقتدار ملنے کے بعد ہر علاقہ میں بی جے پی کا لیڈر خود کو طاقتور کہنے لگا ہے۔ تلنگانہ کا جہاں تک سوال ہے اس وقت چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی موجودگی میں کوئی پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا کی طرح قومی پارٹی اقتدار کا خواب نہیں دیکھ سکتی۔ کے سی آر گذشہ ڈھائی سال سے اقتدار کے مزے حاصل کررہے ہیں اور آئندہ 7سال تک اقتدار پر برقرار رکھنے کا خواب بھی دیکھ لیا ہے۔ حکمراں پارٹی اور اس کے قائدین کی خوش فہمیاں اور دعوے و وعدوں کی پاسداری کی باز گشت اپنی جگہ پر لیکن عملی طور پر یہ لوگ ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں ان کے سامنے آنے والا کل کیا صورت لے کر اُبھرے گا، اس سے بے خبر ہیں۔

 بی جے پی کو اسٹریٹ پاور کو تحریک دینے کا تجربہ حاصل ہے اور اسے منظم طریقہ سے انجام بھی دے سکتی ہے مگر اس سے پہلے کہ اس گروہ کے قائدین ٹی آر ایس کے مضبوط قلعہ کی بنیادوں کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوجائیں محترم کے سی آر کو بھونچال آنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اپنے  انتخابی وعدوں کو خاص کر مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات دینے کی پہل کرنی چاہیئے۔ اگر تلنگانہ میں واقعی فرقہ پرستوں کا زور پکڑا تو ٹی آر ایس کو صرف مسلم ووٹوں کا سہارا ملے گا، اس سہارے کو بے سہارا کرنے سے گریز کرنا ہی عقلمندی ہے۔
kbaig92@gmail.com