ہم پاکستانی ۲۳ مارچ کو یوم پاکستان مناتے ہیں۔ یہ ہمارا یوم جمہوریہ ہے، جیسے ہندوستان کا ۲۶جنوری۔ ہمارے ساتھ تو دلچسپ معاملہ ہوا کہ پاکستان کا پہلا آئین ۲۳ مارچ۱۹۵۶ کو منظور ہوا اس لئے اس دن کو ہم نے یوم جمہوریہ کے طور پر منانا شروع کردیا حالانکہ یہ تاریخ ہمارے لئے ویسے بھی اہم تھی کہ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کو قرارداد پاکستان لاہور میں منظور ہوئی تھی۔ اس کی اہمیت پہلے سے تھی لیکن ۱۹۵۶ تک اسے منایانہیں گیا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ دو سال بعد ہی ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کر دیا اور اس آئین کو منسوخ کردیا جس آئین کے لئے یہ دن منایا جاتا تھا۔ وہ تو نہیں رہا لیکن دن رہ گیا۔ پھر اس کا تعلق قرارداد پاکستان سے وابستہ کردیا گیا ،اگرچہ وہ پاکستان بھی نہیں رہا ،جس کی قرارداد منظور کی گئی تھی۔
ان ہی دنوں کئی تنظیمیں۳۱ مارچ کو واہگہ سرحد پر بھارت سے تجارت کے خلاف مارچ کی تیاریاں کررہی ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ یہ شو شاندار ہوگا اس کیلئے کئی میٹنگیں اسلام آباد میں ہو چکی ہیں۔ تاجر صنعتکار تو انڈیا کو بہترین پسندیدہ ملک قرار دینے کے حق میں ہیں، لیکن یہ احتجاج کسان حلقوں کی طرف سے کیا جارہا ہے کیونکہ ان کو اندیشہ لاحق ہے کہ انڈیا میں کسانوں کاشتکاروں کو بہت سی مراعات حاصل ہیں۔ اس لئے ان کی زرعی پیداوار ،اجناس پاکستان کی نسبت ارزاں ہونگی۔ اس لئے زیادہ کھلی تجارت سے پاکستان کے کسانوںکو نقصان پہنچے گا ۔
ان کی دلیل وزنی ہے لیکن تجارت روکنے سے یہ ضروری نہیں ہے کہ پاکستان سرکار نے اگر اب تک یہ رعایتیں کسانوں کو نہیں دیں تو اب کیوں دے گی ۔ اس لئے مطالبہ تو حکومت سے یہ ہونا چاہئے کہ کسانوں کو ضروری مطلوبہ رعایتیں دی جائیں یہ صرف بھارت سے تجارت کے تناظر میں ہی نہیں ویسے بھی ضروری ہیں کیونکہ کسانوں کو مراعات سے زرعی پیداوار بڑھے گی زرعی اجناس اور زراعت سے وابستہ مصنوعات برآمد بھی کی جاسکیںگی ۔اس حلقے کی طرف سے زور شور سے احتجاج کی تیاریاں بھی کی جارہی ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے بھی بھارت کو تجارت میں بہترین پسندیدہ قوم کا درجہ دینے کے باضابطہ اعلان اورمنظوری کے لئے کابینہ کا خصوصی اجلاس بھی بلالیا ہے عین ممکن ہے آپ جب یہ سطور ملاحظہ کررہے ہوں اس وقت تک یہ باضابطہ اعلان جاری ہو چکا ہو۔خدشات بہت ہیں کہ انڈیا چونکہ پاکستان سے صنعتی میدان اور خاص طور پر مینو فیکچرنگ میں بہت آگے ہے اس لئے پاکستان گھاٹے میں رہے گا ۔پاکستان کے صنعتکار بہت سمجھدار ہیں دنیا بھر سے تجارت کر رہے ہیں اس لئے انہیں حفاظتی تدابیر کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ اس موقع کو غنیمت خیال کریں اور خوب سوچ سمجھ کرشیڈول بنائیں۔ یہ تو طے ہے کہ پاکستان کو انڈیا کو یہ درجہ تو دینا ہی پڑے گا کہ ہم نے عالمی تجارتی تنظیم سے یہ وعدہ کیا ہوا ہے۔
نواز حکومت اس وقت ویسے بہت ہوا میں اڑ رہی ہے کہ سعودی عرب کے ڈیڑھ ارب ڈالر نے ہمارے خزانے میں بڑی برکت ڈال دی ہے ڈالر نیچے گرے جارہا ہے اب بحرین کے بادشاہ بھی کسی قدر سخاوت کے لئے پاکستان کے دورے پر پہنچ گئے ۔یہ اس لئے اہم بات ہے کہ پہلے چالیس برس کے دوران بحرین کے سربراہ کبھی خود دورے پر نہیں آئے ۔پاکستان تو خود کئی پیچیدہ مسائل میں الجھا ہوا ہے،وہ اس وقت کسی کے کیا کام آسکتا ہے ۔میڈیا میں یہ تجزیہ چل رہا ہے کہ شام کی خانہ جنگی میںعرب ملکوں کو ہماری عسکری مدد کی ضرورت ہے ۔عرب ملک الگ الگ آرہے ہیں کیا انہیں پہلے کی طرح سعودی قیادت قبول نہیں ہے ۔سعودیہ، بحرین، قطر ،متحدہ عرب امارات سب کچھ مختلف رائے رکھتے ہیں یا امریکہ اور مغرب نے انہیں یک رائے نہیں ہونے دیا ہے ۔امریکہ اس وقت مسلمانوں کو فرقوں میں بانٹ کر سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ۔صرف پاکستان کے لئے ہی نہیں یہ فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم خطے کے سب ملکوں کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے انڈیا کے لئے بھی افغانستان کے لئے بھی چین کو بھی اس سے گزند پہنچ سکتی ہے۔
امریکہ عراق میں یہ کوششیں کرچکا ہے افغانستان میں کر رہا ہے پاکستان میں شمالی علاقوں میں ایسی صورت حال موجود ہے جو چین کے پڑوس میں ہیں ۔پاکستان میں صرف ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین قوم کو ان خطرات سے کھل کر خبردار کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں پاکستانی فوج سے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر انہیں حکومت ملک سے باہر لڑنے کا حکم دے تو اسے ماننے سے انکار کردیں ،اس بیان پر ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ پنجا ب اسمبلی کی طرف سے کیا گیا ہے ۔ انہی دنوں میں دوبئی میں پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان پھر ملاقاتیں ہوئی ہیں اور سندھ حکومت میں ایم کیو ایم کی شمولیت کی حکمت عملی طے کی جائے گی ۔پاکستان میں بھارت کے الیکشن کا ذکر بھی ہورہا ہے اور خیال کیا جارہا ہے کہ ان کے بعد پاکستان میں سیاسی صف بندی پھر نئے سرے سے ہو سکتی ہے۔ میں پاکستان بھارت تعلقات کا اور اس خطے کی سیاست کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے کچھ تشویش میں مبتلا ہوں کہ عرب ملکوں کی مہربانیاں اچھا شگون نہیں ہیں ان کی کوشش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ اپنے آپ پر آئی ہوئی مصیبت ہماری طرف منتقل کردیں۔ امریکہ کے اپنے عزائم ہیں اب اسے اپنی توانائی کی ضروریات اس علاقے سے پوری کرنی ہیں اس لئے وہ یہاں اپنی مرضی کے نقشے اسی طرح بنانا چاہتا ہے جیسے اس نے یورپ کے ساتھ مل کر ۱۹۴۰ کی دہائیوں میں مشرق وسطی میں وضع کئے تھے۔ہمیں مل جل کر اپنے نقشے تراشنے کی فکر کرنی چاہئے۔کیا خیال ہے آپ کا۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:92-3317806800