پاکستان میں وزارت عظمیٰ مذاق بن گئی

سپریم کورٹ کا فیصلہ …چند اہم نکات
قومی احتساب بیورو (نیب) سپریم کورٹ فیصلے کی تاریخ 28 جولائی 2017ء سے چھ ہفتے کے اندر جے آئی ٹی، فیڈرل انویسٹیگشن ایجنسی اور نیب کے پاس پہلے سے موجود مواد کی بنیاد نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ریفرنس دائر کرئے۔
نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز، کیپٹن (ریٹائرڈ) محمد صفدر کے خلاف لندن کی ایون فیلڈ پراپرٹیز کے حوالے سے ریفرنس دائر کیا جائے۔
نواز شریف، حسین نواز اور حسن نواز کے خلاف عزیزیہ اسٹیل کمپنی، ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ اور اس کے علاوہ ففصیلی فیصلے کے پیرا گراف 9 میں بتائی گئی دوسری کمپنیوں کے حوالے سے ریفرنس نیب میں بھیجے جائیں۔
نیب نواز شریف اور اس کے خاندان کے خلاف عدالتی کارروائی میں شیخ سعید، موسی غنی، جاوید کیانی اور سعید احمد کو بھی شامل کرے۔
نیب ان افراد کے خلاف سپلیمنٹری ریفرنس بھی دائر کر سکتا ہے اگر ان کی دولت ان کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتی۔
اسحاق ڈار (وزیر خزانہ) کو نا اہل قرار دیا گیا ہے اور حدیبیہ پیپر ملز کے حوالے سے ان کے وعدہ معاف گواہ کے بیان سے منحرف ہو جانے کے بعد ان کے پرانے (شریک جرم) اسٹیٹس کو بحال کر دیا گیا ہے اور ان کی آمدنی سے زائد اثاثے اور فنڈز رکھنے پر نیب میں ریفرنس بھیجا جائے۔
احتساب عدالت نیب کے جانب سے ریفرنس فائل کیے جانے کی تاریخ کے چھ ماہ کے اندر ان ریفرنسز کا فیصلہ کرے۔
اگر مدعا علیہان کی جانب سے عدالت میں دائر کی گئی دستاویزات جھوٹی، جعلی اور من گھڑت ثابت ہوں تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
نواز شریف نے یو اے ای میں قائم کمپنی ایف زیڈ ای میں اپنے اثاثوں کو دو ہزار تیرہ میں اپنے کاعذات نامزدگی میں ظاہر نہ کر کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور وہ اب عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کی دفعہ 99 کی روشنی میں ایماندار نہیں رہے لہذا وہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کی دفعہ 99 اور آرٹیکل 62 (اے) کی روشی میں پارلیمنٹ کے ممبر کے طور نااہل ہیں۔
الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا فوری نوٹیفیکیشن جاری کرے۔
صدر مملکت ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کو یقینی بنائیں۔
چیف جسٹس سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ سپریم کے ایک جج کو اس عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کی نگرانی کے تعینات کیا جائے۔

 

امتیاز متین ،کراچی
نوشتۂ دیوار تو بہت دنوں سے لکھا ہوا نظر آ رہا تھا لیکن اس فیصلے کی نواز شریف اور ان کے حامیوں کو توقع نہیں تھی کہ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ متفقہ طور پر وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو تاحیات نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دے گا۔ کابینہ تحلیل ہو جائے گی اور حکمراں جماعت اس مخمصے میں پڑ جائے گی کہ عبوری وزیر اعظم کسے بنایا جائے؟ کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا دیا جائے گا لیکن یہ بات کرتے ہوئے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے رکن نہیں ہیں اور عدالت نے حدیبیہ پیپر ملز کے کیس میں ان پر بھی نیب ریفرنس بنانے کا حکم دیا ہے، تو یہ ممکن نہیں ہے کہ عدالت چند ماہ بعد ایک اور وزیر اعظم کے لیے ایسا ہی فیصلہ سنا رہی ہو۔ وزارت عظمیٰ کے لیے دوسرا نام وزیر دفاع خواجہ آصف کا لیا جا رہا ہے لیکن ایسے حالات میں جب نواز شریف کو کسی پر اعتماد نہیں ہے وہ اقتدار اپنے دیرینہ دوست کے حوالے کر دیں گے جبکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اگر شریف خاندان سے باہر کوئی وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا تو مسلم لیگ (نواز) بھی باقی نہیں رہے گی، شاید وہ اپنی بیوی بیگم کلثوم نواز کے بارے میں سوچیں لیکن کیا ان کے ممبر اسمبلی منتخب ہونے تک وہ اقتدار کسی اور کے حوالے کر دیں گے؟
اس وقت ایک سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) اپنے مرکز پنجاب میں احتجاجی سیاست کا راستہ اختیار کرے گی؟ شاید نہیں کیونکہ لوگوں کو اپنے رہنما کی طرح اپنے کاروباری مفادات اور دولت زیادہ عزیز ہے۔ دوسرا قانونی راستہ ہے جس میں فی الحال تاخیر نظر آتی ہے کیونکہ فاضل بنچ کے کچھ ارکان یہ فیصلہ سنا کر چھٹیوں پر چلے گئے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی ریویو پٹیشن آئندہ تین ماہ تک نہیں سنی جا سکے گی۔ پانامہ پیپرز کیس کو اس حد تک لے جانے والوں میں تین درخواست گزاروں عمران خان (سربراہ تحریک انصاف)، شیخ رشید احمد (سربراہ عوامی مسلم لیگ) اور امری جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا اہم ترین کردار رہا ہے جنہوں نے آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔ عمران خان کی جانب سے وکیل سید نعیم بخاری تھے جبکہ شیخ رشید احمد نے اپنا مقدمہ خود لڑا تھا اور سراج الحق کی جانب سے توفیق آصف پیش ہوئے تھے۔ نواز شریف اور ان کے بچوں کی طرف علیحدہ علیحدہ وکیل پیش ہوئے تھے اور مقدمے کے دوران کئی وکیل تبدیل بھی کیے گئے تھے جن میں سے ہر وکیل کو بھاری معاوضہ دیا گیا تھا۔
28 جولائی 2017ء یقیناً پاکستان کی تاریخ میں ایک یادگار اور تاریخ ساز دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ جو مسلم لیگی اور ان کے حامی سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنی حیرت اور غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں وہ یہ بات بھول گئے ہیں کہ پانچ رکنی بنچ نے اپنے فیصلے کے آغاز میں ہی واضح کر دیا ہے کہ یہ فیصلہ 20 اپریل 2017ء کے فیصلے کا تسلسل ہے۔ اسی فیصلے کے تحت جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے ہزاروں صفحات پر مشتمل اپنی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی جس کے بعد پانچ دن تک ہر روز تین رکنی بنچ نے اس رپورٹ پر اعتراضات سننے کے ایک ہفتے کے بعد اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ لوگوں کی ابھی تک یاد ہے کہ عبوری فیصلے میں مشہور ناول ’’گاڈ فادر‘‘ کا جملہ استعمال کیا گیا تھا اور ایک بار عدالت نے پوچھا تھا کہ کیا وہ سسلی کی مافیا ہیں۔
اس فیصلے سے ملک کے دولت مند طبقات کا یہ گمان ضرور ٹوٹ گیا ہے کہ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، دولت مند طبقات کے جو افراد عدالتوں کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ کہنے لگے تھے کہ ’’چار وکیلوں کے بجائے ایک جج کر لو۔‘‘ اب کم از کم ایسی باتیں کرنے سے گریز کریں گے۔ اس بات کا ایک پس منظر ہے کہ شریف خاندان ججوں پر سرمایہ کاری کرنے اور عدالتوں سے فیصلے اپنے حق میں کروانے کا عادی رہا ہے۔ اس ضمن میں کچھ ٹیلیفون ریکارڈنگز بھی ٹی وی چینلز پر سنوائی جاتی رہی ہیں۔
پانامہ پیپرز کیس کی سماعت کرنے والا پانچ رکنی بنچ جسٹس آصف سعید کھوسہ،جسٹس اعجازافضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پھر مشتمل تھا جس نے 20 اپریل 2017ء کو ایک عبوری فیصلہ سنایا تھا اور بنچ کے تین جج صاحبان نے مزید تفتیش کے لیے ایک چھ رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا جسے 60 دن میں تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروانی تھی۔ سپریم کے تین رکنی بنچ نے جے آئی ٹی ارکان کے لیے حکومت کے پیش کردہ کچھ ناموں کو مسترد کرکے افسران کا خود انتخاب کیا تھا۔ اس جے آئی ٹی کے سربراہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعلی افسر عامر عزیز، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچیج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال رسول، نیشنل اکائونٹیبلیٹی بیورو (نیب) کے ڈائریکٹر عرفان نعیم منگی، انٹر سروسز انٹیلی جنس کے بریگیڈیئر نعمان سعید اور ملٹری انٹیلیجنس کے بریگیڈیئر کامران خورشید شامل تھے۔
کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں اور جے آئی ٹی کے ارکان کو شریفوں کی جانب سے بھاری پیشکشیں بھی کی گئیں اور دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن یہ گیارہ معزز افراد نہ ڈرے اور نہ لالچ میں آئے اور سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے وہ تاریخی فیصلہ دے دیا ہے جو پاکستانی عوام کی امنگوں کے مطابق تو تھا لیکن متکبر حکمرانوں کے لیے شدید دھچکہ ثابت ہوا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے تینوں بچوں مریم نواز، حسین نواز اور حسن نواز، داماد کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر، سمدھی اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جو عالمگیر بے عزتی ہوئی ہے اس کے باوجود انہیں یہ امید ہے کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم ہائوس کے مکین بن جائیں گے۔ تاحیات نا اہلی کے باوجود مریم نواز اب بھی یہ کہہ رہی ہیں کہ نواز شریف 2018ء کے انتخابات میں پہلے سے زیادہ اکثریت حاصل کریں گے۔ سمجھ نہیں آتا کہ ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ واقعی میں احمق ہوتے ہیں یا ان کے چاروں طرف موجود خوشامدی انہیں بد تر از احمق بنا دیتے ہیں۔
پانامہ پیپرز کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی نے ایک معیار واضح کر دیا ہے کہ اگر اگر کسی کے اثاثے اور دولت اس کے معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں کوئی گڑبڑ ضرور ہو رہی ہے۔ یہ فیصلہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ پاکستان میں بے ایمانی اور ایمانداری کا ایک معیار مقرر کیا گیا ہے اور نواز شریف کے خلاف فیصلہ درحقیقت بدعنوان حکمراں طبقات کے خلاف مہم کا آغاز ثابت ہوگا کیونکہ آئندہ دنوں میں کئی اور سیاسی رہنما، بڑے تاجر، صنعتکار، بیورو کریٹس، بینکر، سرمایہ دار، ٹھیکیدار، میڈیا ہائوسز کے مالکان اور صحافی وغیرہ بھی اس کی زد میں آئیں گے جن کے مالی معاملات درست نہیں ہیں۔
کچھ دن پہلے ہی کی بات ہے کہ معروف وکیل اور سیاست داں بابر اعوان ایک ٹی وی چینل پر کہہ رہے تھے کہ ’’1971ء میں نواز شریف کے والد میاں شریف نے اپنے کل اثاثے 10 لاکھ روپے ظاہر کیے تھے جن میں ان کی اتفاق فونڈری اور ورکشاپ اور اس کے برابر میں ایک برف خانہ تھا جس کی بالائی منزل میں میاں شریف اپنے سارے بچوں کے ساتھ رہا کرتے تھے۔‘‘ خود نواز شریف کی شادی کی تصاویر دیکھ کر ان کی مالی حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن ہر دور اقتدار شریف خاندان کی دولت میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا جسے نواز شریف اور ان کے بچے ’’اللہ کے فضل و کرم‘‘ قرار دیتے رہے اور بالآخر رسوائی ہاتھ آئی۔ شیخ رشید احمد نے صحیح کہا تھا کہ ہمارے بچوں کے اٹھارہ سال کی عمر میں شناختی کارڈ نہیں بنتے ان کے بچے اس سے بھی کم عمر میں ارب پتی بن جاتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے کو چیئرپرس آصف علی زرداری نے ہوائوں کا رخ اسی وقت بھانپ لیا تھا جب انہوں نے ینٹو سے اینٹیں بجانے والی تقریر کی تھی اور پھر وہ خود ہی باہر چلے گئے تھے اس کے بعد وہ ملک میں آئے گئے لیکن اب کی بار وہ اپنی بیماری کا بہانہ کرکے جو ملک سے باہر گئے تو جاتے جاتے کہہ گئے کہ نواز شریف نے اپنی انا اور ضد کی وجہ سے کشتی ہی ڈبو دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آنے سے پہلے وزیر اعظم ہائوس میں بکروں کے صدقے اور دورد و وضائف کے ورد بھی کروائے جا رہے تھے لیکن ججوں نے فیصلہ سنا کر حکمراں خاندان کے سارے وظائف کو الٹ دیا۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ شرمناک انکشاف بھی ہوا کہ نواز شریف 2013ء میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے ایک سال بعد تک متحدہ عرب امارات میں قائم ایک کمپنی کے دس ہزار درہم ماہانہ کے ملازم رہے تھے۔ اس اقامے کے سامنے آنے کے بعد بہت سے وزیروں اور اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کے اقاموں اور دوسرے ملکوں کی شہریتوں کے خفیہ راز بھی کھلتے چلے گئے، اور سندھ حکومت تو چلتی ہی دبئی سے ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کئی صوبائی اور وفاقی وزرا بھی مشرق وسطیٰ کے ممالک میں مینجر اور سپروائزر جیسی ملازمتوں اقامے لیے بیٹھے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انہیں کس بات کا خوف ہے؟
نواز شریف نا اہل ہو گئے لیکن ان کے حامی اور اب بھی ان کے حق میں باتیں کر رہے ہیں شاید ڈھکے چھپے لفظوں میں اب بھی یہ کہہ رہے ہں کہ ’’رقم بڑھائو نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، جنہیں پاکستان میں ان کے بہت سے چاہنے والے خاص طور پر تحریک انصاف کے حامی مولانا ڈیزل کے نام سے پکارتے ہیں، فیصلے کے بعد وزیر اعظم ہائوس میں ہونے والے سابق وزرا کے اجلاس میں نواز شریف سے ملاقات کی اور اپنی حس مزاح سے بسورتے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے نظر آئے، ممکن ہے انہوں نے خود کو عبوری وزیر اعظم کے طور پر پیش کر دیا ہو، ویسے بھی کچھ برس قبل وہ اسمبلی میں وزیر اعظم کے انتخاب میں حصہ لے چکے تھے۔ ممکن ہے نواز شریف، عمران خان اور شیخ رشید احمد کو تڑپانے کے لیے مولانا فضل الرحمن کو عبوری وزیر اعظم بنوا دیں۔ اگر ایسا ہوا تو شاید وزارت عظمیٰ بھی مذاق ہی بن جائے۔ مولانا نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو اپنے بیٹے کی کمپنی کیپیٹل FZE میں ملازمت کرنے پر نا اہل قرار دیا ہے جس سے انہوں نے کبھی تنخواہ نہیں لی۔ مولانا فضل الرحمن نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود اور تمام آئینی اور قانونی ماہرین عدالت کے اس فیصلے پر حیران ہیں۔
سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے نواز شریف کو گھر بھیجنے کے لیے اتنا کمزور نکتہ کیوں اٹھایا؟ جب یہ سوال سپریم کورٹ کے سابق جسٹس ناصر اسلم زاہد سے پوچھا گیا تو انہوں نے ایک نیوز چینل کو اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ سپریم کورٹ کے اس منصب تک پہنچتے ہیں وہ بہت تجربہ کار ہوتے ہیں۔ عام طور پر کسی مقدمے کے سب سے کمزور نکتے کی بنیاد پر فیصلہ سنایا جاتا ہے جس کو زیادہ اہم نہیں سمجھا جاتا اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جس کے خلاف فیصلہ سنایا گیا ہے اس کے پاس اپیل کرنے کا حق باقی رہے، لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ ریویو میں بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
نواز شریف کے حامیوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو جوڈیشل مارشل لا قرار دیا یا اس کے ساتھ ہی کچھ لوگوں نے آئین کی شق 62 اور 63 پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ شقیں جنرل ضیا الحق نے آئین میں شامل کروائیں تھیں جن کے تحت کسی بھی ممبر اسمبلی کا صادق اور امین ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے اٹھارہویں ترمیم منظور کی تھی تو آئین کی ان دو شقوں کو نکالنے یا تبدیل کرنے سے گریز کیوں کیا گیا تھا۔ جس کے جواب میں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ یہ دونوں شقیں مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلمای کی مخالفت کی وجہ سے نہیں نکالی جا سکیں۔ کچھ لوگوں کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے پیچھے بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نظر آ رہا ہے جس نے ایک بار پھر منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا ہے، کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ سیاستدانوں کو سمجھنا چاہیے کہ آرٹیکل 62, 63 کی آڑ میں ان کے سیاسی کردار کو کم کرنے کے لیے کھیل کھیلا گیا ہے۔ یہ کیس قانونی نہیں بلکہ ایک سیاسی کیس تھا اسے اسی طرح لڑنا چاہیے تھا۔ کسی کو سہروردی یاد آ رہے ہیں تو کوئی بھٹو، جونیجو اور گیلانی کو یاد کر رہا ہے اور عدالت کے فیصلے کو ایک اور سیاہ باب قرار دے رہا ہے لیکن اس سارے معاملے میں جنرل ضیا الحق کو نا پسند کرنے والے اس حقیقت کو کیسے فراموش کر گئے ہیں نواز شریف درحقیقت جنرل ضیا الحق کے پروردہ تھے اور جب جنرل ضیا الحق نے وزیر اعظم جونیجو کی حکومت آئین کے آرٹیکل 58(2)b کے تحت برطرف کی تھی تو انہوں نے جنرل ضیا الحق کا ساتھ دیا تھا۔ چند ضیا مخالف لوگ اس فیصلے سے خوش ہیں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو نا اہل قرار دے کر سپریم کورٹ کے فیصلے سے جنرل ضیا الحق کی سوچ کا خاتمہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔