محمد نعیم وجاہت
سربراہ ٹی آر ایس و چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے /27 اپریل کو سکندرآباد میں جلسہ عام کا انعقاد کرتے ہوئے پھر ایکبار اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے ۔ اس طرح کے جلسوں کا انعقاد کرنا لاکھوں عوام کو اکٹھا کرتے ہوئے کروڑہا عوام پر اثرانداز ہونا چندر شیکھر راؤ کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ تلنگانہ تحریک میں انتہائی اہم رول ادا کرنے والے کے سی آر نے تلنگانہ تحریک کے دوران حیدرآباد کے بشمول تلنگانہ کے تمام 10 اضلاع میں ایسے کئی جلسہ عام کا انعقاد کرنا اور عوام تک اپنے پیغام کو پہونچانے کا انہیں اعزاز ہے ۔ تاہم یہ جلسہ عام علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد پہلی مرتبہ منعقد کیا گیا ہے ۔ سربراہ ٹی آر ایس و چیف منسٹر تلنگانہ عوام کی نبص کو پہچاننے میں ماہر ہے اور ان کے جذبات سے پوری طرح واقف ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علحدہ تلنگانہ ریاست کانگریس پارٹی تشکیل دینے کے باوجود تلنگانہ کے عوام نے کے سی آر پر بھروسہ کرتے ہوئے ٹی آر ایس پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔ ٹی آر ایس کے ٹکٹ پر پہلی مرتبہ مقابلہ کرتے ہوئے کئی قائدین نے کانگریس و تلگودیشم اور بی جے پی کے کئی قد آور اور تجربہ کار قائدین کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔
حالت کو اپنے بس میں کرنے میں کے سی آر نے ابھی تک کامیابی حاصل کی ہے ۔ حکومت اور پارٹی پر اپنی گرفت کو قائم رکھا ہے ۔ انہوں نے جو بھی فیصلے کئے ہیں وزراء اور ٹی آر ایس پارٹی نے اس کی مکمل مدافعت کی ہے ۔ چاہے وہ متنازعہ ہی کیوں نہ ہو ۔ اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود چیف منسٹر اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے ۔ مثال کے طور پر سکریٹریٹ کی منتقلی کا مسئلہ ہے ۔ پہلے اس کو ایرگڈہ چیسٹ ہاسپٹل منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ تکنیکی وجوہات کے باعث اب اس کو سکندرآباد منتقلی کرنے پر غور کیا جارہا ہے ۔ آندھراپردیش کے طلبہ کی فیس ایمبرسمنٹ اسکیم کا مسئلہ ہو یا آندھراپردیش کے گاڑیوں سے ٹیکس وصولی کرنے کی بات ہو چیف منسٹر اپنے فیصلے پر بضد ہے ۔ حکومت کی تشکیل کے 10 ماہ بعد سکندرآباد میں منعقد کیا گیا جلسہ عام ۔ کیا ؟ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن انتخابات کیلئے کارآمد ثابت ہوگا ۔
ٹی آر ایس کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے ۔ گریجویٹ کوٹہ کونسل کے انتخابات حیدرآباد ۔ رنگاریڈی اور محبوب نگر میں حکمران ٹی آر ایس کے اس امیدوار کو شکست ہوئی جس نے تلنگانہ ایمپلائیز کے عام ہڑتال میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ بی جے پی کے امیدوار نے تلگودیشم کی تائید سے کامیابی حاصل کی ہے ۔ ان نتائج سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ حیدرآباد اور اس کے اطراف و اکناف رہنے والے آندھرا اور رائلسیما کے عوام ٹی آر ایس سے ناراض ہیں ۔ چیف منسٹر تلنگانہ کو اندازہ ہے کہ گریٹر حیدرآباد میں ٹی آر ایس کا کوئی خاص سیاسی موقف نہیں ہے ۔ جبکہ حیدرآباد سے تلنگانہ کابینہ میں ایک ڈپٹی چیف منسٹر کے علاوہ تین وزراء شامل ہے ۔ گریٹر حیدرآباد میں تلگودیشم اور بی جے پی کا اچھا خاصہ اثر ہے ۔ 2014 ء کے عام انتخابات کے علاوہ گریجویٹ کوٹہ کے انتخابات سے اس کا ثبوت ملا ہے ۔ سربراہ ٹی آر ایس و چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ جی ایچ ایم سی پر ٹی آر ایس کا قبضہ جمانے کیلئے تمام سیاسی حربے استعمال کررہے ہیں ۔ تلنگانہ میں تلگودیشم کا کمزور موقف ہے ۔ صدر تلگودیشم و چیف منسٹر آندھراپردیش مسٹر این چندرا بابو نائیڈو کا دوہرا موقف تلگودیشم تلنگانہ ارکان اسمبلی بالخصوص گریٹر حیدرآباد سے کامیاب ہونے والے ارکان اسمبلی کیلئے مشکل مرحلے میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ وہ بی جے پی کی تائید سے کامیاب ہوگئے ہیں ۔ تاہم تلگودیشم میں تابناک مستقبل نظر نہیںآرہا ہے اور وہ ٹی آر ایس کو اپنے لئے محفوظ پناہ گاہ تصور کررہے ہیں۔ اب تک چار ارکان اسمبلی نے تلگودیشم میں شمولیت اختیار کی ہے، جن میں تین ارکان اسمبلی کا گریٹر حیدرآباد سے تعلق ہے۔ سربراہ ٹی آر ایس و چیف منسٹر تلنگانہ نے پلینری سیشن میں جہاں کانگریس کو نشانہ بنایا وہی سکندرآباد کے جلسہ عام میں تلگودیشم کے سی آر کے نشانے پر تھی۔
لیکن ایک بات خاص طور پر نوٹ کرنے کی ہے۔ حیدرآباد میں مجلس اور بی جے پی کی اپنی اپنی سیاسی طاقت ہے جس کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا مگر تعجب اس بات پر ہیکہ چیف منسٹر اور ٹی آر ایس قائدین نے ان دونوں جماعتوں پر تنقید تو دور ان کا نام لینا بھی گوارہ نہیں کیا۔ مجلس نے ٹی آر ایس کے راجیہ سبھا امیدوار ڈاکٹر کے کیشو راؤ کی تائید کی۔ صدرنشین تلنگانہ قانون ساز کونسل کے انتخابات میں ٹی آر ایس امیدوار سوامی گوڑ کی تائید کی۔ ریاستی وزیرداخلہ مسٹر این نرسمہا ریڈی نے ٹی آر ایس کے تنظیمی انتخابات میں مجلس کو ٹی آر ایس کی حلیف جماعت قرار دیا۔ یہاں تک سمجھ میں آ گیا کہ حکمران ٹی آر ایس مجلس کو اپنی حلیف جماعت تصور کررہی ہے اور مجلس بھی ٹی آر ایس کی تائید کرتے ہوئے حکومت کی حلیف جماعت ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے۔ سربراہ ٹی آر ایس و چیف منسٹر مسٹر کے چندرشیکھر راؤ کی مجلس پر تنقید نہ کرنے کی وجہ سمجھ میں آئی ۔ ٹی آر ایس مجوزہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں مجلس سے سیاسی سازباز کا اشارہ دیا ہے۔ تاہم بی جے پی کو تنقید کا نشانہ نہ بنانے پر بھی کئی شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ کیا ٹی آر ایس گریٹر حیدرآباد کے انتخابات میں پرانے شہر تک مجلس اور نئے شہر میں کیا بی جے پی سے خفیہ سازباز کرے گی۔ یہ بات سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ بی جے پی، ٹی آر ایس کو مشین کاکتیہ، واٹر گرڈ پراجکٹ، سکریٹریٹ کی منتقلی کے علاوہ دوسرے معاملات میں حکمران ٹی آر ایس کو تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں کررہی ہے جبکہ ٹی آر ایس خاموشی اختیار کررہی ہے۔ یہاں تک مرکزی حکومت کے حصول اراضیات آرڈیننس کے خلاف ملک بھر میں مہم چل رہی ہے۔ تاہم چیف منسٹر تلنگانہ اور ٹی آر ایس نے اس آرڈیننس پر ابھی تک اپنا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ چند دن قبل ایسی ہی کچھ خبریں منظرعام پر آئی تھی کہ ٹی آر ایس بہت جلد این ڈی اے کی حلیف بن جائے گی اور چیف منسٹر کی دختر مسز کویتا کو مرکزی وزارت میں شامل کیا جائے گا۔ اس کی ٹی آر ایس نے تردید بھی نہیں کی تھی۔
جلسہ کا کامیاب انعقاد کرتے ہوئے چیف منسٹر نے پارٹی اور حکومت پر اپنی مضبوط پکڑ ہونے کا ثبوت تو دیا ہے مگر ہریش راؤ اور کے ٹی آر میں نظریاتی اختلافات نظر آرہے ہیں۔ پلینری سیشن میں پہلی قطار میں چیف منسٹر کے فرزند کے ٹی آر کو بٹھایا گیا تو دوسری قطار میں چیف منسٹر کے بھانجے کو بٹھایا گیا۔ جب یہ تصویر میڈیا کی سرخیوں میں شامل ہوئی تو جلسہ عام میں دونوں کو پہلی قطار میں ایک دوسرے کے بازو بازو بٹھایا گیا اور کے سی آر کی دختر مسز کویتا کو خاندان میں اختلافات ہونے کی تردید کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ چیف منسٹر تلنگانہ کا اچھے مقرر میں شمار ہوتا ہے۔ تاہم جلسہ عام میں ان کی تقریریں اتنی متاثر نہیں تھی جو ہمیشہ ہوا کرتی تھی۔ ایک موقع پر کے سی آر نے مکمل برقی حاصل ہونے یا نہ ہونے کا جلسہ گاہ میں شریک عوام سے سوال کیا مگر انہیں توقع کے مطابق عوام سے ردعمل حاصل نہیں ہوا۔ پھر چیف منسٹر نے آئندہ سال سے دن میں مسلسل 9 گھنٹے برقی سربراہ کرنے کا اعلان کیا تو عوام نے تالیاں بجاتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا۔ تلنگانہ کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے سربراہ ٹی آر ایس و چیف منسٹر تلنگانہ نے عوام کے دلوں میں اپنے لئے اونچا مقام پیدا کیا ہے جو ناقابل فراموش ہے۔
تاہم پارٹی کے تنظیمی امور اور حکومت کی تشکیل میں ہریش راؤ کے رول کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ باوجود اس کے انہیں اور دوسرے اہم قائدین کو جلسہ عام میں خطاب کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ صرف پی راجیشور ریڈی، محمد محمود علی اور ڈاکٹر کے کیشو راؤ کو ہی تقریر کرنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ وزارت میں خاتون کو نمائندگی نہ ملنے پر حکومت اپوزیشن جماعتوں کے تنقیدوں کا پہلے سے ہی شکار ہے۔ جلسہ عام میں بھی کسی خاتون کو خطاب کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ تلنگانہ کے تمام مواضعات کا دورہ کرنے کا چیف منسٹر تلنگانہ کو اعزاز ہے۔ تاہم خودکشی کرنے والے کسانوں کے ارکان خاندان سے ملاقات کرنے انہیں پرسہ دینے کی کوشش نہیں کی۔ جلسہ عام سے تلنگانہ کے عوام کو کئی توقعات وابستہ تھے۔ تاہم غیرموسمی بارش ہونے والے نقصانات کی پابجائی کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی مسلمانوں اور قبائیلیوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کے معاملے میں عہد کے پابند ہونے کا کوئی بھروسہ دلایا گیا جس سے عوام کو مایوسی ہوئی ہے۔ تنظیمی سطح پر ٹی آر ایس مستحکم نظر آرہی ہے۔ تاہم ٹی آر ایس کے حلقوں میں یہ بات عام ہیکہ ٹی آر ایس میں مخالف تلنگانہ اور دوسری جماعتوں سے ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے قائدین کو اہمیت مل رہی ہے۔ 14 سال تک ٹی آر ایس تحریک کا حصہ رہنے پولیس کی لاٹھیاں کھانے اور مقدمات کا سامنا کرنے والے حقیقی قائدین و کارکنوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ تلنگانہ حکومت کی کابینہ میں 8 وزراء کا تلگودیشم سے تعلق ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم بھی ناانصافی ہوئی۔ حکومت کے نامزد عہدوں پر بھی غیر ٹی آر ایس قائدین کو اہمیت دینے کے تعلق سے ناراضگیاں پائی جاتی ہے۔ پارٹی کے حقیقی قائدین کی ناراضگیوں کو دور نہیں کیا گیا اور ان سے انصاف نہیں کیا گیا تو پارٹی میں اس کے نقصانات ہوسکتے ہیں۔ کانگریس کے 10 سالہ دورحکومت میں اقتدار پر رہنے والے قائدین نے دوسرے درجہ کے قائدین اور پارٹی کیڈر کو نظرانداز کیا۔ پارٹی میں اتنی ناراضگی بڑھ گئی کہ کانگریس پارٹی کے قائدین اور کارکنوں نے کانگریس کے امیدواروں کو شکست دینے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ٹی آر ایس کے قائدین اور کارکنوں میں بے چینی دیکھی جارہی ہے۔ اس کی ابتدائی مرحلے میں یکسوئی نہیں کی گئی اور حالت کو کنٹرول نہیں کیا گیا تو بہت دیر ہوجائے گی۔