کے این واصف
سعودی وزارت تعلیم (شعبہ فارن اسکولز) کے لائسنس پر مملکت میں 500 سے زائد خانگی اسکولز قائم ہیں۔ جن میں کوئی ڈھائی لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں ۔ ان میں سے 50 اسکولز ایسے ہیں جہاں ہندوستانی CBSE نصاب پڑھایا جاتا ہے ۔ اور 50 اسکولز میں سے 13 اسکولز ریاض شہر میں ہیں ۔ ان خانگی مدارس میں کچھ اسکولز ایسے ہیں جو مختلف ممالک کے سفارت خانوں کی نگرانی میں چلتے ہیں جنہیں کمیونٹی اسکولز کہا جاتاہے ۔ ان سارے خانگی مدارس میں جو لیڈی ٹیچرز پڑھاتے ہیں ان میں اکثریت ایسے ٹیچرز کی ہے جو فیملی ویزا پر مملکت میں اپنے شوہر یا باپ کی کفالت میں یہاں مقیم ہیں ۔ پچھلے سال جو نطاقات قوانین نافذ ہوئے تھے تو اس میں کہا گیا تھا کہDependents Visa پر مقیم خواتین ملازمت نہیں کرسکتے جس کے ساتھ ہی سارے مملکت کے مدارس میں کھلبلی مچ گئی ۔ کیونکہ اکثریت میں ایسے ٹیچرز کی تھی جو Dependents visa پر ہیں ۔ مدارس کے انتظامیہ کی جانب سے نمائندگی کے بعد وزارت محنت نے کہا چونکہ ٹیچرز کا کام اچانک روکا نہیں جاسکتا لہذا انھیں ایک سال تک اپنی ملازمت جاری رکھنے کی عارضی اجازت دی گئی ۔ اس سلسلے میں ہفتہ کو وزارت کی جانب سے دو نئے اعلانات جاری کئے گئے ۔ پہلے اعلان میں کہا گیا ہے کہ مملکت میں فیملی ویزے پر مقیم غیر ملکی خواتین کو قانونی طور پر تدریس کی سہولت فراہم کی جارہی ہے جس کے لئے ’’اجیر ورک پرمٹ‘‘ حاصل کرنا پڑے گا ۔ ورک پرمٹ کی فیس 1500ریال مقرر کی گئی ہے ۔ پرمٹ ایک برس کیلئے کارآمد ہوگا جس کی میعاد میں توسیع کی جاسکتی ہے ۔ وزارت محنت کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق اجیر سے مستفید ہونے والے اسکولوں اور اداروں پر ’’نطاقات‘‘ کا پروگرام لاگو ہوگا اور انھیں نطاقات کی خلاف ورزی نہیں کرنے دی جائے گی ۔ ذرائع کے مطابق جو ادارے اجیر کی سہولت حاصل کرسکتے ہیں ان میں پلاٹینم ، ہائی گرین ، مڈل اور لوگرین اور یلو کیٹگری والے ادارے شامل ہیں ۔ جبکہ ریڈ زون والے ادارے اس سہولت کو حاصل نہیں کرسکتے ۔ ریڈ زون والے اداروں سے منسلک کارکن اجیر کے تحت نہ دوسرے ادارے میں جاسکتے ہیں اور نہ دوسرے اداروں سے کارکن عارضی طور پر حاصل کرسکتے ہیں ۔
اجیر ورک سسٹم کی خدمات جن اداروں کو فراہم کی گئی ہے ان میں شعبہ تدریس ، شعبہ صحت ، تعمیرات ، کیٹرنگ اور صفائی کا کام کرنے والی کمپنیاں اور ادارے شامل ہیں ۔ وزرات محنت کی جانب سے اجیر کی ویب سائٹ کا ایڈریس www.ajeer.com.sa ۔ اجیر خدمات حاصل کرنے کیلئے اقامہ کی میعاد کم از کم 6 ماہ ہونی چاہئے ۔ اجیر ورک پرمٹ کی قانونی حیثیت کے سوال پر وزارت محنت کا کہنا تھا کہ جن خواتین ٹیچرز یا کارکنوں کو اجیر ورک پرمٹ جاری کیا جائے گا وہ اسکول یا اداروں میں کام کرنے کے قانونی طور پر اہل ہوں گے ۔ اجیر پرمٹ عارضی ہوگا جو اقامہ کے ساتھ قابل قبول ہوگا ۔ ورک پرمٹ سے یہ تصور نہ کیا جائے کہ اس کا حامل دیگر اداروں میں بھی کام کرسکے گا ۔ اجیر ورک پرمٹ جس ادارے یا اسکول کیلئے جاری کیاجائے گا اسی کیلئے کارآمد ہوگا ۔ فیملی ویزے پر مقیم خواتین جواسکول میں تدریس سے منسلک ہیں انھیں قانونی طور پر اجیر کی خدمات فراہم کی جارہی ہے جس کے وزارت تعلیم کی جانب سے ان ٹیچرز کی اسناد تصدیق کرنے کے بعد جاری شدہ سرٹیفکٹ اور اسکول کا اگریمنٹ جمع کروانا ہوگا جسے منظور کرنے کے بعد انھیں عارضی ’’اجیر ورک پرمٹ‘‘ جاری کیا جائے گا ۔ اجیر کی خدمات سے انفرادی اقاموں پر مملکت میں موجود غیر ملکی مستفید نہیں ہوسکتے جبکہ ورک پرمٹ حاصل کرنے کیلئے عمر کی حد کم از کم 18 برس ہونی چاہئے ۔ اجیر ورک پرمٹ کے ختم ہونے سے فیملی ویزے پر مقیم خواتین کا اقامہ متاثر نہیں ہوگا ۔ اجیر کی فیس ناقابل واپسی ہوگی اور نہ ہی یہ فیس کسی ادارے کے نام منتقل کی جاسکے گی ۔ وزارت محنت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اجیت ورک پرمٹ ہولڈر کا آجر سے اختلاف ہوجاتا ہے تو اسے حق ہے کہ وہ لیبر آفس میں شکایت دائر کرے جہاں قانونی تقاضوں کے مطابق اس کا مقدمہ کارکن کے طور پر پیش کیاجائے گا ۔ نطاقات پروگرام کے حوالے سے سوال پر وزارت محنت کے ذرائع کا کہنا تھاکہ اجیر سسٹم سعودائزیشن کے پروگرام نطاقات سے مربوط ہوگا ۔ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ اجیر کی سہولت حاصل کرنے والے ادارے نطاقات سے خارج ہوجائیں گے ۔ اگر اجیر ورک پرمٹ حاصل کرنے والے کارکن کا معاہدہ ختم ہوجاتا ہے تو بھی اس کا نطاق پروگرام میں ایک برس تک کیا جائے گا ۔ اور ادارے کو ہر 3 غیر ملکیوں پر ایک سعودی کارکن متعین کرنا ہوگا تاکہ نطاقات پروگرام میں اپنی کیٹگری برقرار رکھ سکیں ۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ اجیر ورک پرمٹ اسی وقت تک کارآمد ہوگا جب تک اقامہ کارآمد ہے ۔ اگر سربراہ خانہ کا مملکت میں کام ختم ہوجاتا ہے یا اس کا اقامہ دوبارہ تجدید نہیں ہوتا ایسی صورت میں اجیر ورک پرمٹ منسوخ سمجھا جائے گا ۔
اسی ہفتہ وزارت کی جانب سے جو دوسرا اعلان جاری کیا گیا وہ یوں تھا ۔ وزارت محنت نے فیملی ویزوں پر مقیم خواتین کو تدریس کی باقاعدہ اجازت دینے کیلئے اجیر ورک پرمٹ کا اجراء گزشتہ روز (اتوار) سے جاری کرنا شروع کردیا ۔ جس سے مقیم خواتین کے حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ تفصیلات کے مطابق اجیر ورک پرمٹ ایک برس کیلئے جاری کیا جائے گا جس کی فیس 1500 ریال مقرر کی گئی ہے ۔ وزارت محنت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اجیر کی فیس اسکول کو ادا کرنا پڑے گی ۔ اجیر ورک پرمٹ خاندان کے ایک فرد کیلئے جاری کیا جاسکے گا ۔ اگر غیر ملکی کی اہلیہ کام کررہی ہے تو صرف اسی کو جاری کیا جائے گا یعنی ایک سربراہ خاندان کے اقامہ پر ایک ہی ورک پرمٹ جاری کیا جاسکتا ہے ۔ انٹرنیٹ پر اجیر کی ویب سائٹ کا ایڈریس یہ ہے www.ajeer.com.sa ۔ اجیر ورک پرمٹ سے استفادہ کیلئے اسکول انتظامیہ وزارت محنت کی ویب سائٹ پر اجیر براؤز پر لاگ ان کرکے اپنا اکاونٹ بنائے ۔ بعد ازاں ویب سائٹ پر ٹیچرز کا ڈاٹا فیڈ کرے جس کے بعد انھیں پن کوڈ جاری کیا جائے گا ۔ واضح رہے کہ مملکت میں وزارت محنت کی جانب سے ورک قوانین میں تبدیلی کے بعد اسکولوں کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا جس پر وزارت تعلیم نے وزارت محنت کو تجویز پیش کی کہ مملکت میں فیملی ویزوں پر مقیم خواتین کو تدریس کی اجازت دینے کیلئے خصوصی اقدامات کئے جائیں تاکہ تدریس کا عمل نہ رکے ۔ اس ضمن میں وزارت محنت اور وزارت تعلیم کی جانب سے کافی عذر کے بعد اجیر ورک پرمٹ کی سہولت کااعلان کیا گیا ہے ۔ جسے باقاعدہ طور پر پچھلے اتوار کو جاری کردیا گیا ۔ اس ضمن میں نجی اسکولوں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اجیر ورک پرمٹ سے انھیں قدرے سہولت ہوگی تاہم ابھی تک وزارت تعلیم یا محنت کی جانب سے اس بارے میں باقاعدہ طور پر کوئی نوٹس نہیں کیا گیا ۔ اس سے اس کے خد و خال پوری طرح واضح ہوسکے ۔ دوسری جانب نجی اسکولوں میں پڑھانے والی ٹیچرز کا کہنا ہے کہ اجیر کی سہولت سے انھیں قانونی تحفظ مل جائے گا جو بہت بہتر اقدام ہے ۔ لیکن اس سلسلے میں نجی اسکولوں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ’’نطاقات‘‘ پروگرام کی وجہ سے اجیر سسٹم مقبول نہیں ہوسکتا ۔ فی ٹیچر سالانہ فیس کے 1500ریال اضافی ادا کرنے پڑیں گے جس کا اضافی بوجھ والدین پر پڑسکتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارت تعلیم کی جانب سے فیملی ویزے پر مملکت میں موجود خواتین ٹیچروں کے مسئلہ کو حل کرنے کے حوالے سے کوششیں جاری ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اجیر کے ساتھ اگر نطاقات میں رعایت دی جائے تو شعبہ تعلیم میں کافی بہتری آسکتی ہے ۔ بصورت دیگر اضافی اخراجات کیلئے مجبوراً طلباء کی فیس بڑھانی پڑے گی ۔ نیز یہ بھی کہا گیا کہ وزارت تعلیم کی جانب سے خواتین ٹیچروں کی اسناد کی تصدیق کیلئے جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اس کے سبب کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ اسناد کی تصدیق کے لئے وزارت خارجہ ورک ویزے کا مطالبہ کرتی ہے جبکہ فیملی ویزے پر مقیم افراد کیلئے ورک ویزا پیش کرنا ممکن نہیں ۔ اسناد کی تصدیق کیلئے متعلقہ ادارے کی جانب سے لیٹر جاری ہوتا ہے جس پر وزارت خارجہ کی تصدیق ضروری ہوتی ہے جو ورک ویزے کی فراہمی کی مشروط ہے ۔ اجیر سسٹم میں اسناد کی تصدیق کیلئے اس مرحلے کو آسان کرنا چاہئے تاکہ کارکن کی اسناد کو اس کے ملک میں سعودی سفارت خانہ اور دیگر ادارے آسانی سے تصدیق کرسکیں ۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ فیملی ویزے پر مقیم ٹیچروں کیلئے اجیر ورک پرمٹ اسی صورت میں کارآمد ہوسکتا ہے جب تک نطاقات پروگرام کی حد تبدیل نہ کی جائے ۔ پروگرام کے تحت ہر 3 غیر ملکیوں پر ایک سعودی کارکن کو متعین کرنا ضروری ہے ۔ بصورت دیگر ادارے کی کیٹگری بلو یا ریڈ ہوجائے گی ۔ ذمہ داروں کا کہنا تھاکہ آئندہ برس سے سعودی ٹیچروں پر ملنے والے امدادی فنڈ کی میعاد بھی ختم ہوجائے گی جس کے بعد پوری تنخواہ ادارے کو بھرنا ہوگی جس سے غیر معمولی اضافی بوجھ اسکول پر پڑے گا ۔ دوسرے معنوں میں طلباء کی فیسوں میں اضافہ ناگزیر ہوگا ۔
مہنگائی کا اثر دنیا کی ہر شئے اور ہر ملک میں ہے ۔سعودی عرب ویسے غذائی اشیاء کی قیمتوں پر حکومت کی جانب کافی کنٹرول ہے ۔ مگر یہاں خصوصاً مکان کے کرایے ، علاج معالجہ اور بچوں کی تعلیم کافی مہنگی ہے ۔ کمیونٹی اسکولز کی فیس دیگر خانگی اسکولز سے کچھ کم رہتی ہے مگر خانگی اسکولز میں فیس وغیرہ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ بہت سارے تارکین ان اسکولز میں اپنے بچوں کو داخل کرانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ۔ اس لئے مجبوراً بہت سارے لوگ اپنی فیملی وطن منتقل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے یہاں تارکین وطن کی اکثریت مجرد زندگی بسر کرتی ہے ۔ بہرحال خانگی اسکول انتظامیہ کے پاس یہی راستہ بچتا ہے کہ وہ اپنی مالی پریشانی کا بوجھ والدین کے کاندھوں پر ڈالے ۔ اور والدین کے اپنی آمدنی میں کسی اضافے کے بغیر ان نئے اخراجات کے بوجھ کو برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔