ٹرمپ کی کامیابی تک دہشت گرد حملوں میں شدت جاری رہنے کا امکان

ڈاکٹر جاوید جمیل
واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پیروکار اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کام کر رہے ہیں کہ امریکہ میں رائے عامہ پر ’’بنیاد پرست اسلام‘‘ کی گرفت اتنی زیادہ ہوجائے کہ ٹرمپ کے نفرت اور اس نفرت کو اسلامی بنیاد پرستی کی جڑیں کاٹنے کیلئے باتیں ہر امریکی کے دل میں گھر کرجائیں۔ اسی طرح دہشت گرد حملوں میں دنیا بھر میں شدت کی اور عالمی ذرائع ابلاغ کی جانب سے ان کی اشاعت و تشہیر کی وضاحت ہوسکتی ہے۔

یہی مغربی جمہوریت کا طریقہ کار ہے۔ انتخابی عمل ایک نفسیاتی جنگی حکمت عملی بن گیا ہے۔ جب بھی اور جہاں کہیں انتخابات ماضی قریب میں منعقد ہوں گے، سیاسی پارٹیاں اور ان کی تائید کرنے والے پیروکار رائے عامہ پوشیدہ اور حقیقی یا فرضی جنگی کھیلوں کے ذریعہ ہموار کرنے کی کوشش کریں گے۔  وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ انتخابی حکمت عملی عوام کے ذہنوں میں خوف پیداکرنے اور ان کی امیدیں جگانے سے متعلق ہے۔ ممکن ہے کہ خوف کی حقیقت ان کی امیدیں جگاکر ووٹ حاصل کرنے سے زیادہ کامیاب ثابت ہو۔
یہ کھیل ہر جگہ بشمول ہندوستان ، آسٹریلیا اور ملایشیا کھیلا جارہا ہے۔ انتخابی عمل پر مقامی حالات اور اندرون ملک مسائل کا غلبہ ہے۔ بین الاقوامی مسائل بھی اپنا کچھ حصہ ادا کرتے ہیں۔ انگلستان یا فرانس کے انتخابات یوروپی واقعات ہیں لیکن امریکہ کے انتخابات عالمی واقعہ ہے اور غالباً یہ کبھی بھی ماضی میں عالمی واقعہ نہیں بنے ۔ جیسا کہ اس بار بن گئے ہیں۔
واضح طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بین الاقوامی سطح کی پیروی کرنے والے گروپ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے سرگرم ہیں کہ امریکی رائے عامہ پر بنیاد پرست اسلام کا خوف اس حد تک طاری ہوجائے کہ ٹرمپ کے نفرت انگیز خیالات اور اس نفرت کو بنیاد پرست اسلام کی جڑیں کاٹنے کیلئے استعمال کرنے کا نظریہ ہر امریکی کے دل میں گھر کرجائیں۔ ذرائع ابلاغ پر دولت اسلامیہ کے حملے اور حملے کرنے کے دعوے ایک عرصہ تک چھائے رہیں گے۔ اگر نکسلائیٹس ہندوستان میں کئی افراد کو قتل کرتے ہیں تو امریکہ  کئی شامی افراد کا قتل کرتا ہے لیکن یہ خبروں کی سرخیوں میں نہیں آتا لیکن اگر کوئی مسلمان ہلاک کردیا جائے یا زخمی کیا جائے جس کی ذمہ داری دولت اسلامیہ قبول کرلے تو اس کو کئی دنوں تک خبروںکی زینت بنایا جاتا ہے۔

اگر کہیں بھی مباحث ہوں کہ دولت اسلامیہ کا ابتدائی دنوں میں عروج مغرب کی کارستانی تھی تاکہ شام کی حکومت کو اقتدار سے بیدخل کردیا جائے تو اس کو اب پوری طرح فراموش کردیا گیا ہے۔ کوئی بھی نہیں پوچھتا کہ یہ موضوع نفرت انگیز تھا یا نہیں۔ یہاں تک کہ اس کے اثرات شام میں دکھائی دینے لگے۔ عراق میں دولت اسلامیہ کے داخلہ تک یہ تنظیم بہت مشہور ہوگئی تھی۔ کوئی بھی یہ نہیں پوچھتا کہ دولت اسلامیہ کے لشکر میں اتنے یوروپی فوجی کیوں ہیں اور اتنے زیادہ نو مسلم کیوں ہیں؟ کوئی بھی یہ نہیں پوچھتا کہ مغربی ممالک میں تیار کئے ہوئے ہتھیاروں میں یہ افراد زبردست فتح تک مسلح کیسے ہوگئے۔ دولت اسلامیہ اب صرف دولت اسلامیہ عراق و شام بن گئی ہے۔

ترکی میں ناکام بغاوت کی کوشش سے بھی مغربی ممالک کے اعصاب متاثر ہوئے۔ وہ چاہتے تھے کہ ترکی بھی شام ، لیبیا یا مصر کے راستہ پر کوئی بھی یہ نہیں پوچھتا کہ مغربی حکومتیں اتنی ہمدرد کیوں ہیں ؟ ناکام بغاوت کے ذمہ داروں سے ہمدردی کیوں جتا رہی ہیں۔ وہ اردغان سے صبر و تحمل اختیار کرنے کی اپیل کیوں کر رہے ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں شام ، لیبیا ، عراق اور مصر میں اس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا تھا۔مجھ پر یقین کریں یا نہ کریں اگر ٹرمپ کامیابی کی سمت پیشرفت کر رہا ہے تو رائے عامہ پہلے ہی اس کی تائید میں ہموار ہورہی ہے تو دولت اسلامیہ کے مزید چند حملے انتخابات کو ان کے حق میں کردیں گے اور یہ تائید فیصلہ کن بن جائے گی۔ دولت اسلامیہ اپنے آقاؤں کی عائد کردہ ذمہ داری نبھا رہا ہے۔ اکتوبر تک انتظار کیجئے۔ ممکن ہے کہ امریکہ میں بھی دولت اسلامیہ کا ایک حملہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہو تو اس کا زبردست اثر مرتب ہوگا۔ جنگوں کیلئے ’’بش خاندان کے افراد‘‘ یا ٹرمپ خاندان کے افراد کی ضرورت نہیں ہوتی جو ممالک میں صرف اپنے مفروضوں کی بنیاد پر دراندازی کرتے ہیں۔ ان پر اجتماعی تباہی کے ہتھیاروں کا بھوت سوار ہے۔ مغربی ممالک مسلم سرزمینوں پر دراندازی کر رہے ہیں۔ لاکھوں مسلمانوں کا قتل کر رہے ہیں لیکن نہ تو مغربی ممالک اور نہ عیسائیت کے مغرب زدہ رجحان پر کوئی الزام عائد کیا جاتا ہے ۔ اسلام اور مسلمان ہزاروں افراد کی ہلاکت کیلئے مرکز توجہ بنے رہتے ہیں۔
کوئی شخص امریکیوں کی اکثریت کو یقین دلادیں کہ ٹرمپ خاندان کے افراد اور بش خاندان کے افراد نہ صرف غیر امریکی یا امریکہ دشمن دنیا کو تباہ کردیں گے بلکہ آخر کار وہ خود امریکہ کو تباہ کردیں گے۔ کوئی تو ایسا ہو جو  امریکی عوام کو یقین دلاسکے کہ دنیا کو حقیقی خطرہ مغربی بنیاد پرستی سے لاحق ہے، اور لاحق رہے گا۔