پی چدمبرم
ہندوستان کے پاس اب دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ ہے۔ اس کی اونچائی 182 میٹر ہے؛ اسے ایک ہندوستانی نے سانچہ میں ڈھالا اور اس کو چینی مینوفیکچررس اور ورکرس کی مدد سے نصب کیا گیا۔ اس کی تخمینی لاگت 3,000 کروڑ روپئے ہے اور سرکاری فنڈنگ کے رواج کے برخلاف اس کیلئے ادائیگی لگ بھگ پوری طرح مرکزی عوامی شعبہ کے اداروں کی جانب سے کی گئی ہے۔ مجھے اس لئے خوشی ہے کیونکہ یہ مجسمہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کا ہے، یعنی مہاتما گاندھی کے نائب، عمر تمام کے کانگریسی اور جواہر لعل نہرو کے ساتھی، نیز شدت کی حد تک محب وطن، سکیولر اور روایتی رجحان کے حامل قوم پرست شخصیت۔ جب تک وہ زندہ رہے، انھوں نے وہ جنونیوں کو معاف نہیں کیا جنھوں نے مہاتما گاندھی کا قتل کیا (وزیر داخلہ کی حیثیت سے انھوں نے آر ایس ایس پر 17 ماہ تک پابندی عائدکر رکھی تھی)، لیکن آر ایس ایس اور بی جے پی دونوں کو اس بات میں عافیت محسوس ہوئی کہ تاریخ کے اُس باب کو سرے سے فراموش کردیا جائے۔
ہم کچھ دیر کیلئے خوشی مناسکتے ہیں۔ وہ لمحات گزر جانے کے بعد ہمیں زیادہ حقیقت پسندانہ پہلو کی طرف ضرور رُخ کرنا پڑے گا۔
تشویشناک حقائق
ہندوستان کو دیگر معاملوں میں بھی ’اونچائیاں‘ حاصل ہیں:
m بھوک کے عالمی اشاریہ میں ہندوستان کا مقام 103 ہے، جو شدید بھوک کو ظاہر کرتا ہے۔ سولہ ممالک کے اس سے زیادہ اونچے (یعنی ابتر) رینکس ہیں۔
m عدم مساوات بہ متعلق جنس کے اشاریہ میں ہندوستان کا رینک 188 ملکوں میں 125 ہے۔
m معاشی آزادی کے اشاریہ میں ہندوستان کا 180 ممالک میں 130 واں رینک ہے۔
m انسانی ترقی کے اشاریہ میں یہ رینک 189 ملکوں میں سے 130 ہے۔ ہندوستان نیچے سے تیسرے مقام پر ہے۔
m آزادیٔ صحافت کے اشاریہ میں یہ رینک 180 ممالک کے تنزلی پیمانے پر 138 ہے۔
m فی کس جی ڈی پی (مجموعی دیسی پیداوار) میں ہندوستان کا رینک 140 ہے، جو 188 ملکوں میں نیچے سے تیسرے نمبر پر بھی ہے۔
m تعلیم کے اشاریہ میں تو یہ معاملہ ابتر ہے: 191 میں 145 واں رینک۔
ہمیں راحت کی سانس لے سکتے ہیں کہ انڈیا نے 191 ملکوں کی اعظم ترین تعداد کے سروے کے بعد تیار شدہ کوئی بھی اشاریہ میں 182 کی ’اونچائی‘ تک نہیں پہنچا ہے۔ تاہم، 103، 125، 130، 138، 140 اور 145 کے رینکس ایسے نہیں ہیں کہ انھیں مشکوک اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے غیرسنجیدگی سے مسترد کردیا جائے۔ یہ رینکس ہمیں کیا بتاتے ہیں؟ اونچی شرح کی ترقی اور قابل لحاظ معاشی پیشرفت جو ملک نے حاصل کی، وہ آبادی کے نمایاں حصہ کی شدید غربت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ہم اُس حصہ کی جسامت پر شاید مختلف رائے دیں، لیکن اگر وہ 20 فی صد بھی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ 250 ملین افراد کو پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ غربت جہاں نسل، مذہب اور ذات سے قطع نظر ہے، وہیں یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ نہایت غریب 250 ملین میں زیادہ تر دلت، درج فہرست قبائل، نہایت پسماندہ طبقات، اقلیتیں اور معذورین ہیں۔
نااہل حکومت
سماجی اور سیاسی حالات نے غربت کی صورتحال کو ابتر بنا دیا ہے۔ ہمیں اسکول انفراسٹرکچر، ٹیچروں اور پڑھائی کے معیار کے تعلق سے فکرمند ہونا چاہئے۔ ہمیں ڈاکٹروں، نرسوں، پیرامیڈکس اور میڈیکل ٹیکنیشنس کی سخت قلت کا سامنا ہے۔ فراخدلانہ معیشت کے اقدامات کے باوجود ہنوز بہت زیادہ حدبندیاں ہیں، اور ریگولیٹرز بڑی آسانی سے کنٹرولرز کا روپ دھار لیا ہے۔ مداخلت کاری والے قواعد، ٹیکس کی اونچی شرحیں، اور انسپکٹرز اور تحقیقات کاروں کو سزادہی کے اختیارات جیسے اقدامات کے ذریعے حکومت کی طرف سے سختی نے کاروبار کا گلا دبا رکھا ہے۔ جنس کی عدم مساوات خواتین کو مواقع سے محروم کرتی ہے اور معاشی بڑھوتری کو دبا تی ہے۔ خوف میڈیا کی دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ یہ برائیاں تو ہمیشہ رہی ہیں لیکن سماجی اور سیاسی ماحول بہتر اور زیادہ آزاد ہونے کی بجائے گزشتہ چار سال میں بڑھتی عدم رواداری، سزا سے بڑھتی معافیاں، ہجوم کا تشدد اور نفرت و خوف کا پھیلاؤ دیکھنے میں آئے ہیں؛ اور حکومت تماشائی ہے۔
سب سے بڑی مایوسی پارلیمنٹ اور مقننہ جات کی کارگزاری (یا عدم کارگزاری کہہ لیں) رہی ہے۔ عاملہ نے پارلیمنٹ سے نفرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں عاملہ زیادتیوں کے ساتھ ساتھ عاملہ کی بے عملی بہت دیکھنے میں آرہی ہے۔ عدالتیں قانون سازی۔ نظم و نسق سے متعلق خلاء کو پُر کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور عدلیہ کی اتھارٹی کو کافی وسیع کیا ہے۔ کھلی معیشت اور اچھی باقاعدہ مارکیٹس ہونے کے باوجود ان پر کم بھروسہ معلوم ہوتا ہے۔ میری رائے ہے کہ فراخدلانہ پالیسی کا عمل بہت پیچھے چھوڑ دیا گیا اور اسے دوبارہ صحیح مقام پر لایا جاسکتا ہے۔ مگر نقصان تو معیشت کا ہوگا، اور آخرکار وہ جو پیچھے چھوڑ دیئے گئے وہی بدستور سب سے پیچھے رہ جائیں گے۔ اعداد و شمار کے ایک پہلو سے معلوم ہورہا ہے کہ ملک میں اوسط ماہانہ گھریلو آمدنی 16,480 روپئے ہے۔ تصور کیجئے کہ اُن خاندانوں کی غربت اور سختیاں کیا ہوں گی جو اس اوسط سے کمتر یا بہت نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
ایسا نہ ہو کہ ہم انھیں فراموش کردیں
اس تعلق سے قدیم مباحثہ ہے کہ کسی حکومت کے وسائل پر سب سے پہلے کس کی دعوے داری ہونی چاہئے۔ بہت سارے دعوے مذہب یا ذات یا جنس یا معذوری کی اساس پر کئے گئے۔ میری رائے ہے کہ ان میں سے کوئی بھی مطابقت میں نہیں ہے۔ حکومت کے وسائل پر اول دعویٰ آبادی کے 20 فی حصہ سے تعلق رکھتا ہے جسے پچھڑنے چھوڑ دیا گیا ہے۔ غربت جیسا کہ ہم عام طور پر آمدنی کی غربت سے مراد ہے؛ تاہم، وہ آمدنی والی غربت دیگر محرومیوں کا موجب بنتی ہے … غذا، امکنہ، پانی، صاف صفائی، روزگار، معیاری تعلیم اور نگہداشت صحت، وغیرہ کی محرومیاں۔ نیز، جب تک آبادی کے نچلے 20 فی صد لوگوں کو معقول آمدنی حاصل نہ ہو، وہ بدستور دشمن سماج اور سیاسی ماحول کے شکار رہیں گے۔ لہٰذا، ہمیں حکمرانی پر ازسرنو غور ضرور کرنا چاہئے، بجٹ سازی کے اصولوں کو مکرر تحریر کریں اور اُس ماڈل اور مشینری کو بدل ڈالو جس کے ذریعے حکومتیں اپنے پروگراموں کو انجام دیتی ہیں۔
’پچھڑے ہوئے افراد‘ گزشتہ چار سال کی غلط حکمرانی سے بالکلیہ مایوس ہوچکے ہیں اور نئے وعدے جو زیرترتیب ہیں، ان سے مزید الجھن میں مبتلا ہورہے ہیں۔ یہ وعدے عظیم الشان مندر کی تعمیر، شہروں کے نام بدلنا، اور ایسی مزید یوجنائیں شروع کرنا جن کیلئے ناکافی فنڈ ہے۔ کوئی بھی وعدہ کی آزمائش یہی ہے کہ آیا اس سے اُن لوگوں کو کچھ فائدہ ہوسکتا ہے جو مخروط کے نچلے حصے میں ہیں؟