محمدجسیم الدین نظامی
ہندوستانی جمہوری تاریخ کا یہ کیسا المیہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم ملک کا’’کالادھن‘‘ باہر سے واپس لانے کا وعدہ کرتے ہیںاور دوسری طرف ملک کا سرمایہ دار طبقہ ملک کا ’’سفید دھن‘‘ لے کر بیرون ملک فرار ہو ر ہورہاہے … کرپشن سے نجات کیلئے نوٹ بندی کے ذریعہ عام آدمی کی جمع پونجی بینکوں میں رکھنے پرمجبور کیا جاتاہے اور پھر انکے کھاتے سے’’ مینیم بیلنس‘‘ کے نام پر 1,772 کروڑ روپئے وصول لئے جا تے ہیں….اِدھر چند ہزار روپے کا قرض لیکر کسان اپنی ’’جان چھوڑنے‘‘ کو مجبو ر ہورہے ہیں،اور اُدھر ہزاروں کرورڑ روپے قرض لیکر امیر افراد آرام سے‘‘ ملک چھوڑ‘‘ رہے ہیں….اک طر ف ملک میں ابھی بھی لاکھو ںغریب خاندان ایک عدد چھت کیلئے محتاج ہے اوردوسری طرف صرف 1% امیروںکا ملک کی 73% دولت پر قبضہ ہے…جہاں ہر سیاسی پارٹی کے اقتدار کی تاج پوشی غریبوںکے حقو ق کی فراہمی کے وعدے کے ساتھ ہوتی ہے،وہیں ملک کے 67% لوگ آج بھی خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے پرمجبور ہیں… آخر ہمارے ملکی جمہوریت کے کینوس پر بنائی گئی یہ کیسی تصویر ہے جس میں ’’وکاس ‘‘کے پیچھے’’ وناش ‘‘واضح طور پر دیکھا جاسکتاہے۔30 ستمبر 2017 تک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جان بوجھ کر قرض کی ادئگی نہیں کرنے والے (ولفل ڈیفالٹر) کے پاس ملک کے مختلف بینکوں کے 1.1 لاکھ کروڑ روپے پھنسے ہوئے ہیں.۔اس wilful Defaulters میں نہ صرف کمپنیاں بلکہ بعض افراد شامل ہیں۔ ولفل ڈیفالٹرس انہیں کہا جاتا ہے جو قرض ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یعنی وہ چاہیں تو بینکوں کا قرض واپس کر سکتے ہیں، لیکن نہیں کرتے۔ حیرت انگیز طور پر صرف 11 گروپس کے پاس 26,000 کروڑ روپے ہیں۔انگریزی اخبارٹائمس آف انڈیا نے اس حو الے سے 9000 سے زائد اکاؤنٹس کا تجزیہ کیا ہے، جن سے قرض واپسی کیلئے بینکوں نے مقدمے درج کروا رکھے ہیں۔ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ 11 بڑے قرض دار گروپ میں ہر ایک کے پاس 1000 کروڑ روپے سے زیادہ کا قرض پھنسا ہوا ہے۔ اور اس طرح یہ کمپنیاں بینکوں کا جملہ 26ہزار کروڑ روپے دبا ئے بیٹھی ہیں۔ 25 لاکھ روپے یا اس سے زیادہ سے زیادہ کے خلاف درج کرائی گئی شکایتوں سے متعلق اعداد و شمار عام طور پر دستیاب ہیں۔
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتی ہیں کہ جتن مہتا کی کمپنیاں’’ونسم ڈائمنڈس اینڈ جیولری لمیٹیڈ‘‘ اور فارایور پریسس جیولری اینڈ لمیٹڈ نے مختلف بینکوں کو 5,500 کروڑ ادا نہیں کیا ہے۔ بتا یا جاتا ہے کہ جتن مہتا نے سینٹ کٹس اور نیویس کی شہریت حاصل کرلی ہے، جن کے ساتھ ہندوستان کا تحویل مجرمین کامعاہدہ بھی نہیں ہے۔ یعنی، مہتا کی ہندوستان واپسی کی فی الحال کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ دوسرا نمبر وجئے مالیا کے کنگفشر ایئر لائنز کا سے آتا ہے، جن پر بینکو ں کا3000 کروڑ روپے سے زیادہ کا بقایہ ہے۔ انکے علاوہ اس فہرست میں کولکتہ کی تیسری بڑی کمپنی کے آر ای آئی ایگرو ہے ۔ سندیپ جھن جھنوالا اس کمپنی کے مالک ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آر ای آئی ایگرو کی لسٹنگ کبھی لندن اور سنگاپور اسٹاک ایکسچینج میں ہوئی تھی۔ یہ کمپنی اک آئی پی ایل ٹیم کو اسپانسر بھی کرچکی ہے۔ یہ صاحب بینکوں کے 2,730 کروڑ روپے سے زیادہ کا قرض دبا کربیٹھے ہیں۔ چوتھے نمبر پر پربھود ھ کمار تیواری ہیں، اور اسکے اران خاندان کی ملکیت والی کمپنیاں ہیں۔ ان کے تحت، مہوا میڈیا، پرل اسٹوڈیوز پرایئوٹ لمیٹڈ، سنچورین کمیونیکیشن اور پکس میڈیا پرایویٹ لمیٹڈ جیسی کمپنیاں ہیں جن پر بینکوں کا 2,416 کروڑ رو روپے بقایا ہے۔ ان کے علاوہ 2,000کروڑ روپے سے زیادہ کے قرض والی ایسی کمپنیاں جن کے پاس بینکوں کے پیسے لوٹانے کی صلاحیت ہے، لیکن واپس نہیں کر رہی ہیں، ان میں زوم ڈیویلپرس پرائیویٹ لمیٹڈ، ریڈ اینڈ ٹیلر (انڈیا) لمیٹڈ۔، ایس کمارس نیشن وائیڈ لمیٹڈ اور ڈیکن کرانیکل ہولڈنگز لمیٹڈ ۔ زوم ڈیو پلرس کے مالک وجئے چودھری ہیں ۔جبکہ ریڈ اینڈ ٹیلر س انڈیااو ر ایس کمار س نیشن وائڈ لمیٹیڈ کے مالک نتن کاسلیوال ہیں۔ اسی طرح ڈکن کرانیکل میڈیا کی مشہور شخصیت ٹی وینکٹ رمن ریڈی شامل ہیں۔اعداد و شمارکے تجزیئے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بینکوں کے پھنسے ہوئے قرضوںکی رقم میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ ستمبر 2013 سے ستمبر 2017کے درمیان پھنسے ہوئے قرض کی رقم 28,417 کروڑ روپے سے بڑھ کر قریب چارگنا یعنی1.1 لاکھ کروڑ روپے ہوگئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 250کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم دبائے بیٹھے 50 سے زیادہ کمپنیوں یا گروپوں کے پاس بینکوں کا جملہ 48,000کروڑ روپے پھنسے ہیں جو حال ہی پیش کئے بجٹ میں صحت کے بجٹ کے قریب قریب ہے ۔
ا س رقم میں60% حصہ سرکاری بینکوںکا ہے جبکہ ولفل ڈیفالٹرس نے پرائیوٹ بینکو ں کو بھی 14,000 کروڑ روپے کی چونا لگارکھاہے۔سوال یہ ہے کہ کہ اس طرح کی’’ وائٹ کالر ڈکیتی‘‘ کیا ’’سیاسی سرپرستی ‘‘کے بغیر ممکن ہے؟ بجائے اسکے کہ حکومت فوری اسکے ازالہ کی کوشش کرتی ،اپنے پیشرو حکومت کو اسکا ذمہ دار قرار دے کر اپنا دامن جھٹکنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔حکومت عوام کو غربت اور بیروزگاری سے نجات دلانے کے بجائے اسے مزید کنگال اور بے حال کرنے پر تلی ہوئی ہے۔عوامی دولت کی اندھا دھند لوٹ مار اورحکومت کی غلط اقتصادی پالیسی نے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے… کرپشن کے خلاف بلند بانگ دعووںکے سہارے برسر اقتدار آنے والی بی جے پی کے دور اقتدار میں کرپشن میں مزید اضافہ ہوچکاہے۔پچھلے سال نومبر میں امریکی رسالہ فوربس کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے کرپٹ ممالک کی فہرست جاری کی گئی ۔ اس فہرست کے مطابق 69 فیصد رشوت کی شرح کے ساتھ ہندوستان تمام ایشیائی ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔عالمی غیر سرکاری تنظیم ٹرانس پیرینسی انٹرنیشنل کی رپورٹ’’ گلوبل کرپشن انڈیکس-2017‘‘ میں ملک کو 81ویں مقام پر رکھا گیا ۔ہندوستان کو اس انڈیکس میں ایشیائی ممالک میں بد عنوانی اور پریس کی آزادی کے معاملے میں سب سے خراب حالت والے ممالک کے زمرہ میں رکھا گیا ۔ 2016 کے مقابلے 2017 میں ہندوستان کی رینک میں گراوٹ بھی درج کی گئی ہے۔جیسا کہ 2017 میں 176 ممالک کی فہرست میں ہندوستان 79ویں مقام پر تھا، وہیں 2016 میں ہندوستان 76ویں مقام پر آگیا۔اب تو کرپٹ میڈیا کی جانبداری کے باوجود یہ واضح ہوچکا ہے کہ ملک و قوم کی ترقی ‘خوشحالی کے جھوٹے نعروں سے عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ مہنگائی ‘بیروزگاری میں مسلسل اضافہ نے غریب عوام کو بے حا ل کر رکھا ہے۔ سیاست دانوں اورسرمایہ داروںکی گٹھ جوڑ نے ملک و قوم کو ترقی ‘خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے غربت ‘بیروزگاری کے کنواں میں گرا دیاہے۔ ملک کے سیکڑوں سیاسی قائدین اور سیاسی جماعتیں یا تو ازخود اس سارے کھیل میں ملوث ہیں یا پھر خاموش تماشائی بن کر صرف اپنے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں۔ عوام کی پریشانیوںسے انھیں کوئی سروکار نہیں…مگر آئندہ سال پھر عام انتخابات ہونے والے ہیں، ہمیں چاہیے کہ سہی اورغلط میں تمیز کریں، صرف ذاتی پسند اور ناپسند کی مجبوریوں سے باہر نکل کر اجتماعی اور قومی سوچ اختیار کریں، اور ملک کے مفاد میں اپنا حقِ خود اختیاری استعمال کرکے ایسے لوگوں کا انتخاب کریںجو بڑی بڑی باتیں کرنے کے بجائے عمل پریقین رکھتا ہو. ..جو حقیقی معنوں میں’’سب کا ساتھ سب کاوکاس‘‘ کاغیرجانبدارانہ جذبہ رکھتاہو… بصورت دیگر ہم اپنی مزید تباہی و بر بادی کے خود ذمہ دارہونگے اورہمیں یہ نہ کہنا پڑے کہ …
تم نے انکو چُنا رہبری کیلئے
وہ جو مشہور ہیں رہزنی کیلئے