کے این واصف
’’ولی‘’ کے لغوی معنیٰ سے تو ہم سب واقف ہیں۔ یعنی ایسا انسان جسے قرب الٰہی حاصل ہو۔ مگر ہم عام طور سے ولی ایسے بندے کو بھی کہتے ہیں جسے دنیا و مافیہا کی خبر نہ ہو، کسی چیز کا ہوش نہ ہو، کسی دھن میں دیوانگی کی حد تک کھویا رہے۔ ایسے افراد کو مادی معاملات میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ دنیا چاہے انہیں دیوانہ تصور کرنے لگے۔ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن کسی ولی کی دیوانگی میں کچھ فرزانگی شامل ہوجائے تو اسے ’’ولی تنویر ‘‘ کہتے ہیں۔
تاریخ شاہد ہے اردو ادب میں ایسے ہزاروں، لاکھوں ادیب و شاعر گزرے ہیں جنہوں نے اپنی تخلیقات سے اردو ادب کو مالا مال کیا، مگر ذاتی زندگی میں ہمیشہ تنگ دست رہے۔ اپنے قارئین و سامعین کو اپنی تخلیقات سے ذ ہنی آسودگی بخشی مگر خود کبھی آسودہ حال نہ ہوئے ۔ اردو ادب کے ساتھ دیوانگی سے جڑے افراد کے حالات آج بھی اردو کے کل سے کچھ مختلف نہیں ہیں، لیکن جن ادیبوں ، شاعروں نے اپنی ضروریات اور ذمہ داریوں کو اپنے ادبی شوق کے برابر اہمیت دی ، وہ ادیب و شاعر دونوں محاذ پر کامیاب رہے ۔ ولی تنویر بھی ایسے ہی خوش نصیبوں میں ایک ہیں۔ سنا ہے کہ ہمارے استاد محترم اور ماہنامہ شگوفہ کے ایڈیٹر ڈاکٹر مصطفی کمال صاحب کی تجویز و مشورے پر ولی تنویر نے اڈورٹائزنگ کے میدان میں قدم رکھا۔ ابتداء میں انہوں نے ماہنامہ شگوفہ کیلئے بھی کافی اشتہارات فراہم کئے اور پھر اپنے کاروبار کو وسعت دی اور شہر کے دیگر اخبارات کیلئے بھی کام کرنے لگے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ولی تنویر اس میدان کے سکندر ہوگئے۔
محمد ولی الدین جو اپنے قلمی نام ولی تنویر سے معروف ہیں سے میری شناسائی 1977 ء سے ہے، جب میں اپنی تعلیم مکمل کرکے اپنے والد (خواجہ غیاث الدین عزیز) کی اڈورٹائزنگ ایجنسی ’’عاکف کمرشیل اڈورٹائزنگ کمپنی‘‘ سے جڑا تھا ۔ ولی تنویر اس وقت اشتہارات کی دنیا میں اپنے قدم جماچکے تھے اور میں اس میدان میں نووارد تھا چونکہ ہم دونوں کا تعلق ایک ہی پیشہ سے تھا لہذا ہم ایک دوسرے کے حریف کے طور پر میدان میں تھے ۔ آپس میں ہم رفیق ضرور تھے مگر پیشہ ورانہ رقیب (روسیاہ نہیں) بھی تھے۔ ا یک تو ولی تنویر مجھ سے سینئر تھے اور دوسرے وہ ایک عرصہ سے ہمارے والد کے ملنے والوں میں سے رہے تھے۔ لہذا ہم دونوں کو اس بات کا ہمیشہ خیال رہتا تھا ۔ اس لئے ہماری پیشہ ورانہ چشمک ہمیشہ حد ودِ ادب میں رہی ۔ آپس میں نہ کبھی بات بڑھی نہ بات بند ہوئی۔
میں اڈورٹائزنگ کی دنیا میں مختصر عرصہ ہی رہا۔ اس دوران میں نے فوٹو جرنلزم میں ایک ڈپلوما کورس کیا اور اخبار سے جڑگیا ۔ میں نے روزنامہ سیاست میں بحیثیت اسٹاف فوٹو گرافر مختصر عرصہ تک کام کرنے کے بعد انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس سے منسلک ہوگیا اور سعودی عرب منتقل ہونے تک انڈین ایکسپریس ہی سے جڑا رہا جس کی وجہ سے اردو والوں سے ، اردو کی محافل اور جرائد سے میرا تعلق ٹوٹ سا گیا۔ مگر میں ہر روز اردو اخبارات کے تقریباً ہر اشتہار کے نیچے قوسین میں تنویر لکھا ہوا ضرور دیکھتا تھا ۔ مگر ان سے شاید ہی کبھی ملاقات ہوتی تھی ۔ پھر میں 1993 ء میں سعودی عرب منتقل ہوگیا ۔ اس طویل عرصہ میں سال میں ایک بار وطن کا پھیرا ہوتا کوئی 30 ، 35 دن کا۔ جس کی وجہ سے پرانے شناسائیوں اور احباب سے ملاقاتوں کے سلسلے کم ہوگئے ۔ شہر حیدرآباد تعمیر و ترقی کے بعد اب مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں اپنے پیدائشی شہر میں بے گانہ سا ہوگیا ہوں۔
پچھلے سال اپریل میں ہم چھٹی پر تھے۔ مولانا آزاد انسٹی ٹیوٹ باغ عامہ میں محفل افسانہ کی خبر پڑھی۔ ادبی محافل میں شرکت کی اپنی ذاتی دلچسپی کے علاوہ ہمارے ذہن میں یہ خیال بھی تھا کہ محفل میں احباب سے ملاقات ہوگی، پرانے تعلقات کی تجدید ہوگی اور ہم اس محفل میں پہنچ گئے۔ ہم ابھی ہال کی طرف بڑھ ہی رہے تھے کہ سامنے سے اپنے رفیق دیرینہ اور نامور افسانہ نگار ولی تنویر صاحب کو آتے دیکھا۔ انہیں دیکھ کر جتنی مسرت ہوئی اتنی ہی حیرانی بھی ۔ خوشی اس بات کی تھی کہ کوئی تین دہائیوں سے زائد عرصہ کے بعد انہیں دیکھا تھا اور حیرانی اس بات کی تھی کہ جس شخص کو از حد متحرک، تندرست و توانا دیکھا تھا وہ آج عصائے پیری کے سہارے چل کر آرہا ہے۔ قریب آئے تو بڑی گرمجوشی اور شفقت سے ملے ۔ بڑی دیر تک ہم درختوں کے سایے میں کھڑے باتیں کرتے رہے ۔ آخر میں انہوں نے ایک اور تفصیلی ملاقات کیلئے ان کے گھر آنے کی دعوت دی ۔ چند روز بعد مقررہ وقت و تاریخ پر ہم ان کے مکان پہنچے ۔ انہوں نے اس محفل کیلئے دیگر چند حضرات جن میں ڈاکٹر عقیل ہاشمی ، پروفیسر وہاب قیصر ، رؤف خیر وغیرہ شامل تھے کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ یہ محفل مختصر مگر پر اثر تھی اور کیوں نہ ہو اس محفل کا اہتمام ولی تنویر نے جو کیا تھا۔ جنہیں ادبی محافل بپا کرنے کا نصف صدی کا تجربہ جو ہے۔ ولی تنویر برسوں ادارہ محور ادب کے روح رواں رہے جس کی محافل میں حیدرآباد کی بڑی بڑی ادبی ہستیوں نے شرکت کی تھیں۔
ایک سال بعد ہم پھر حیدرآباد آئے ۔ ولی تنویر صاحب کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے فوری فون پر رابطہ کیا اور اطلاع دی کہ ’’تاریک اجالے‘‘ کے عنوان سے ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ شائع ہوچکا ہے۔ میں نے ان سے کتاب حاصل کر کے کہا بقول محترم مجتبیٰ حسین اردو ادب پہلے ادب برائے ادب تھا ، پھر ادب برائے زندگی ہوا اور آج کل یہ ادب برائے رسم اجراء ہے ۔ یعنی پہلا مضمون، افسانہ یا غزل ہوتے ہی تخلیق کار مجموعہ شائع کرنے اور اس کی تقریب رونمائی کا منصوبہ تیار کرنے لگتے ہیں اور آپ ہیں کہ نصف صدی سے افسانہ نگاری کرنے کے بعد اب جاکر پہلا مجموعہ شائع کروایا ۔ اس پر ولی تنویر نے کہا کہ ایک تو بزنس کی دوڑ دھوپ نے کبھی دم لینے نہیں دیا اور جب کچھ فرصت ملی تو دیکھا کہ برسوں سے ایک لکڑی کی صندوقچی میں رکھا پچاس سال کا ادبی سرمایہ کو حشرات الارض نے چاٹ لیا ہے پھر اس کے بعد بڑی تلاش ، بڑی جستجو کے بعد جو کچھ یکجا کیا جاسکا وہ ’’تاریک اجالے‘‘ کی صورت میں آپ کے ہاتھ میں ہے۔
میں ولی تنویر صاحب سے کوئی چار دہائیوں سے واقف ہوں۔ مگر ان کے مجموعہ میں ڈاکٹر عقیل ہاشمی ، پروفیسر وہاب قیصر ، رؤف خیر، ڈاکٹر ایم اے مجید، محمود سلیم اور خود ولی تنویر کے پیش لفظ سے ان کی شخصیت کے کئی پرد ے اٹھے اور میں ان کے بارے میں بہت سی باتیں جان سکا جن سے میں واقف نہیں تھا ۔ میں نے یہاں جو باتیں رقم کی ہیں وہ صرف ولی تنویر صاحب سے متعلق میری شخصی رائے اور کچھ پرانی یادیں ہیں۔ میں اپنے آپ کو اس مجموعہ یا ان کی فن افسانہ نگاری پر کچھ اظہار خیال کرنے کا اہل نہیں پاتا۔ کہتے ہیں جو بچھو کے کاٹے کا منتر نہیں جانتا اسے سانپ کے بل میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہئے ۔ ولی تنویر صاحب 50 سال سے افسانہ نگاری کر رہے ہیں جبکہ ہم 50 سال سے صرف افسانے پڑھ رہے ہیں۔ ابھی ہم اس کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرنے یا افسانے کی تکنیک یا اس کے معیار کو پرکھنے وغیرہ کی اہلیت اپنے اندر نہیں پاتے۔ ہاں اردو ادب کے تین ، چار بڑی اور معتبر ہستیوں نے اس کتاب میں ولی تنویر اور ان کے فن کے بارے میں جو اظہار خیال کیا ہے میں اس کی بھرپور تائید کرتا ہوں۔