وفاقی محاذ کے لئے دوڑ

کچھ اور نہیں یاد، بس اتنا ہے ہمیں یاد
ہیں آپ کہیں، آپ کی محفل ہے کہیں اور
وفاقی محاذ کے لئے دوڑ
چیف منسٹرتلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے وفاقی محاذ کے منصوبہ کو دوبارہ سرگرم کردیا ہے ۔ چیف منسٹر کیرالا پنیرائی وجین سے ان کی پیر کے دن ہوئی ملاقات پر سیاسی حلقوں میں بڑے پیمانے پر قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں کہ مرکز میں غیر بی جے پی ، غیر کانگریس محاذ کو تشکیل دینے کیلئے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ علاقائی پارٹیوں اور علاقائی چیف منسٹروں کا گروپ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر 23 مئی 2019 کے لوک سبھا نتائج معلق سامنے آئیں اور بی جے پی کو اقتدار تک پہونچنے کیلئے مطلوب تعداد نہ ملنے کی صورت میں علاقائی پارٹیوں کا محاذ تشکیل دیتے ہوئے حکومت سازی کی راہ ہموار کی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ آیا چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اپنے قومی عزائم اور مرکزی حکومت میں اہم کردار ادا کرنے کی آرزو کے ساتھ یہ دوڑ دھوپ کررہے ہیں اس بارے میں اتنا ضرور واضح کیا جاتا ہے کہ چیف مسٹر کے سی آر صرف محاذ بنانے کی کوشش کریں گے اگر بالفرض یہ محاذ بن جائے تو سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا ہی متفقہ طور پر اس محاذ کے امیدوار ہوں گے۔ چیف منسٹر کیرالا سے کے چندر شیکھر راؤ کی یہ ملاقات لوک سبھا انتخابی نتائج سے قبل ایک ماحول بنانے کی کوشش ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوک سبھا نتائج کسی ایک پارٹی کے حق میں قطعی طور پر نہیں آئیں گے۔ کانگریس کو اگر اقتدار کیلئے قطعی اکثریت ملتی ہے تو پھر صدر کانگریس راہول گاندھی وزیر اعظم ہوں گے۔ اگر کانگریس کو مطلوب تعداد نہ ملے تو متبادل محاذ بنانے کی کوششیں تیز ہوں گی۔ ایسے میں چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کا رول بادشاہ گر کی طرح ہوتا ہے تو پھر وہ قومی سیاست میں غالب آنے کی کوشش کریں گے۔ چیف منسٹر کے سی آر 13 مئی کو ڈی ایم کے صدر ایم کے اسٹالین سے بھی ملاقات کرنے والے ہیں۔ اب لوک سبھا انتخابات کے لئے صرف دو مرحلوں کی رائے دہی باقی ہے۔ اب تک کے پانچ مرحلوں کی رائے دہی اور ووٹوں کے فیصد سے جو کچھ اشارے مل رہے ہیں اس میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو یقینی طور پر اندازہ ہوگیا ہے کہ مرکز میں مخلوط حکومت بنے گی۔ مرکز میں حکومت سازی میں کے چندر شیکھر راؤ کا رول کام آئے گا۔ 23 مئی کے بعد کوئی بھی قومی پارٹی کو حکومت بنانے میں علاقائی پارٹیوں کی مدد لینی پڑے گی۔ ایسے میں تلنگانہ راشٹرا سمیتی بادشاہ گر بن سکتی ہے۔ وفاقی محاذ کیلئے کے سی آر کی کوشش کو مدنظر رکھ کر یہ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سیاسی پارٹیوں کی ترقیات کے بارے میں زیادہ دلچسپی ہوگی اور اس بات سے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ بخوبی واقف ہیں کہ عوام کی نفس کو کس طرح ٹٹولہ جاسکتا ہے۔ قومی سطح پر جن علاقائی پارٹیوں کو مضبوط نمائندگی حاصل ہوگی ان میں اُترپردیش کی متحدہ جماعتیں جیسے سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج شامل ہیں، ان میں مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس کی ممتابنرجی بھی اپنے قومی عزائم لے کر دہلی میں کیمپ کرتی ہیں تو وزارت عظمیٰ کا مسئلہ حکومت سازی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑا کرے گا۔ علاقائی پارٹیوں کا محاذاس نتیجہ پر پہنچ نہیں سکے گا کہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ کس کے حوالے کیا جائے ۔ قلمدانوں کی تقسیم بھی اس محاذ کیلئے دردِ سر بن جائے گی کیونکہ ہر علاقائی پارٹی اپنے منتخب ارکان لوک سبھا کو وزارت میں دیکھنا چاہے گی۔ دیوے گوڑا کو تمام پارٹیوں کیلئے قابل قبول لیڈر بناکر پیش کرنے کی کوشش بھی کی جاسکتی ہے لیکن کسی بھی علاقائی پارٹی کے لیڈر کو اس تجویز پر اعتراض ہو تو پھر محاذ کو حکومت بنانے میں مشکل ہوگی ۔ کے چندر شیکھر راؤ کے دل میں بھی یہی لڈو پھوٹ رہے ہوں گے کہ وہ قومی سیاست میں مرکزی کردار ادا کریں۔ مگر وہ وزارت عظمیٰ کیلئے دیگر علاقائی پارٹیوں کے پسندیدہ لیڈر نہیں ہوسکتے۔ ایسے میں صدر کانگریس راہول گاندھی کا نام دوبارہ زیر غور لایا جائے گا، یا پھر بی جے پی کو حکومت سازی کیلئے بیرونی حمایت کی ضرورت پڑے گی۔ مشروط طور پر حکومت بنانے کیلئے سیکولر علاقائی پارٹیوں کی مدد لینی پڑتی ہے تو ایسے میں وفاقی محاذ کی دوڑ لگانے والے کے چندر شیکھر راؤ اچانک بی جے پی محاذ کی صف میں کود جائیں گے۔ انتخابات کے بعد تیسرے محاذ کو مضبوط بنانے کیلئے اگر کئی دیگر پارٹیاں بھی شامل ہوتی ہیں تو پھر اس محاذ کی قوت اور قومی اعتبار سے افادیت بڑھ جائے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ چیف منسٹر کے سی آر نے گذشتہ سال بھی وفاقی محاذ کیلئے کوششیں کی تھیں، چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی سے ان کی ملاقات اور چیف منسٹر اڈیشہ نوین پٹنائیک سے بات چیت سے وفاقی محاذ میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی مگر اب لوک سبھا انتخابات کے بعد کا منظر اس صورتحال کا متقاضی ہوجائے تو پھر قومی محاذ ہی متبادل راستہ ہوگا۔