محمد نعیم وجاہت
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں علحدہ تلنگانہ ریاست بل منظور ہوکر ایک سال مکمل ہو گیا۔ اس ایک سال میں ملک کے سیاسی افق پر کئی تبدیلیاں آئیں، تلنگانہ کو ملک کی 29 ویں ریاست بنانے والی کانگریس سیاسی منظر سے غائب ہو گئی اور اس کو لوک سبھا میں اصل اپوزیشن کا موقف بھی حاصل نہیں ہوا، جب کہ نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی کو مرکز میں تشکیل حکومت کے لئے واضح اکثریت حاصل ہوئی۔ بعد ازاں ملک کی جن ریاستوں میں عام انتخابات ہوئے، ان میں دہلی اور جموں و کشمیر کے سوا دیگر ریاستوں میں بی جے پی نے یا تو کانگریس سے اقتدار چھین لیا یا دوبارہ اقتدار کے حصول میں کامیاب ہو گئی۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی نے تاریخ ساز کامیابی حاصل کرتے ہوئے مودی لہر کا بھرم توڑ دیا اور کانگریس کا نام و نشان مٹا دیا۔ عام آدمی پارٹی کو دہلی میں 70 کے منجملہ 67 اسمبلی حلقوں میں کامیابی حاصل ہوئی۔ ملک کے دارالحکومت میں قبضہ جمانے کے لئے نریندر مودی نے بھرپور کوشش کی اور اس سلسلے میں بی جے پی نے اپنے چیف منسٹرس، تمام ریاستوں کے بی جے پی صدور، دو سو ارکان پارلیمنٹ، تمام مرکزی وزراء اور دیگر اہم قائدین کے علاوہ آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کے قائدین کو بھی استعمال کیا، پھر بھی دہلی کے عوام نے بی جے پی کو مسترد کرکے اروند کجریوال پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ کانگریس پارٹی نے اپنی ناکامی پر افسردگی کی بجائے دہلی میں بی جے پی کی ناکامی پر درپردہ خوشی منائی، کیونکہ جو کام وہ نہیں کرسکی، اسے عام آدمی پارٹی نے کردِکھایا۔
لوک سبھا میں بی جے پی کو مکمل اکثریت کے علاوہ این ڈی اے کی حلیف جماعتوں کی تائید بھی حاصل ہے، لیکن راجیہ سبھا میں کانگریس کا کنٹرول ہے۔ واضح رہے کہ پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے بلز کا راجیہ سبھا میں منظوری ضروری ہے، جس کے لئے درکار تائید بی جے پی کے پاس نہیں ہے۔ فی الحال نریندر مودی مصلحت سے کام لیتے ہوئے ملک کی ریاستوں میں تنہا یا علاقائی جماعتوں سے اتحاد کرکے کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ ریاستوں میں بی جے پی یا اس کی حلیف جماعتوں کی کامیابی سے راجیہ سبھا میں این ڈی اے کو اکثریت حاصل ہو سکتی ہے۔
پہلی بار جموں و کشمیر میں بی جے پی نے زبردست مظاہرہ کرتے ہوئے دوسری بڑی پارٹی کا موقف حاصل کیا، جب کہ بی جے پی کو روکنے کے لئے نیشنل کانفرنس اور دیگر نے مفتی محمد سعید کی پارٹی کو غیر مشروط تائید کی پیشکش کی ہے، تاہم پی ڈی پی نے اس پیشکش کو نظرانداز کرتے ہوئے مرکز سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لئے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور دونوں جماعتوں کے درمیان حکومت سازی کے لئے مذاکرات جاری ہیں، اس طرح بہت جلد جموں و کشمیر میں نئی حکومت کی تشکیل کے آثار ہیں۔
شیو سینا، بی جے پی کی حلیف ہے، تاہم عام انتخابات میں دونوں کا اتحاد نہیں تھا، کیونکہ دونوں کے درمیان کچھ کڑواہٹ پیدا ہو گئی تھی، اس کے باوجود شیوسینا نے مہاراشٹرا میں تشکیل حکومت کے لئے بی جے پی کی تائید کی۔ ابتداء میں شیوسینا نے بی جے پی کی تائید سے انکار کردیا تھا، لیکن اس وقت شردپوار نے بی جے پی کی غیر مشروط تائید کا اعلان کردیا تھا۔ اب دہلی میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی پر صدر شیوسینا ادھو ٹھاکرے نے نہ صرف مسرت کا اظہار کیا، بلکہ بی جے پی کو اپنی تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ جس کے جواب میں وزیر اعظم نریندر مودی نے مہاراشٹرا کا دورہ کیا اور ایک جلسۂ عام میں شردپوار کو اپنے قریب بٹھاکر ان کی ستائش کرتے ہوئے شیوسینا کو یہ انتباہ دیا کہ مہاراشٹرا میں شیوسینا کا متبادل ان کے پاس (این سی پی) موجود ہے۔
جاریہ سال کے اواخر میں بہار میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ جے ڈی یو کے تنازعہ سے نریندر مودی فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں، جس کے سبب انھوں نے دلت طبقہ کو رجھانے کے لئے جے ڈی یو کے باغی چیف منسٹر جیتن رام مانجھی کی تائید کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ خط اعتماد کے لئے رائے دہی سے قبل مانجھی چیف منسٹر کے عہدہ سے مستعفی ہو گئے ہیں۔
اس وقت نریندر مودی ملک کی تمام ریاستوں پر اپنی نظر جمائے ہوئے ہیں، کیونکہ راجیہ سبھا میں اکثریت کے بغیر لوک سبھا میں منظور کئے جانے والے بلز کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی لئے انھوں نے بی جے پی کے انتخابی منشور میں موجود تمام متنازعہ وعدوں کو برف دان کی نذر کردیا۔ ملک کی دیگر ریاستوں پر توجہ مرکوز کرنے کے علاوہ دیگر جماعتوں کو این ڈی اے کا حلیف بنانا چاہتے ہیں۔
تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں ٹی آر ایس اور تلگودیشم حکومتیں اپنے اقتدار کے 8 ماہ مکمل کرچکی ہیں، تاہم دونوں حکومتوں نے توقعات کے مطابق کام نہیں کیا۔ انتخابات سے قبل اتحاد کی وجہ سے تلگودیشم، بی جے پی کی حلیف جماعت ہے۔ مرکزی کابینہ میں تلگودیشم کے ارکان موجود ہیں اور آندھرا پردیش کی تلگودیشم حکومت میں بی جے پی کے نمائندے شامل ہیں۔ ٹی آر ایس نے عام انتخابات میں تنہا مقابلہ کیا تھا، لہذا مرکز سے اس کے تعلقات کوئی خاص نہیں ہیں۔ تقسیم آندھرا پردیش بل کے کئی وعدوں کو پورا کرنے کے باوجود نریندر مودی نے آندھرا پردیش کو خصوصی پیکیج نہیں دیا، نہ ہی خصوصی ریاست کا درجہ دیا اور نہ ہی ریاست کو ٹیکس سے استثناء کیا۔ آندھرا پردیش میں ہُد ہُد طوفان کی تباہی کے بعد وزیر اعظم نے ایک ہزار کروڑ روپئے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا، مگر تاحال صرف 400 کروڑ روپئے جاری کئے گئے۔ مرکز کے اس رویہ سے تلگودیشم ناراض ضرور ہے، مگر خاموش اس لئے ہے کہ وزیر اعظم کو تلنگانہ میں تلگودیشم کا متبادل ٹی آر ایس اور آندھرا پردیش میں این کرن کمار ریڈی نظر آرہے ہیں۔ فی الوقت بی جے پی، ٹی آر ایس کو قریب کرکے چندر شیکھر راؤ کو تلگودیشم کے خلاف ہتھیار کے طورپر استعمال کرنے کی حکمت عملی تیار کر رہی ہے، لیکن یہ بات ابھی وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ چندر شیکھر راؤ خود ہتھیار بنتے ہیں یا مرکز سے اپنے تعلقات خوشگوار بنانے کے لئے وزیر اعظم کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرتے ہیں؟ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔
سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ یہاں کوئی کسی کا مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا اور ہر جماعت کا اپنا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے۔ اگر بی جے پی سے دُور رہنا ہے تو فرقہ پرست جماعت کے ساتھ نہ رہنے کا ادعا کیا جاتا ہے اور اگر اتحاد کرنا ہے تو ریاست کے مفادات کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی سے چیف منسٹر تلنگانہ کی حالیہ ملاقات کے بعد سیاسی حلقوں میں ٹی آر ایس کی این ڈی اے میں شمولیت اور اُن کی دختر کویتا کو مرکزی کابینہ میں شامل کرنے کی افواہیں گشت کر رہی ہیں۔ کے چندر شیکھر راؤ نے ان افواہوں پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا اور نہ ہی کویتا نے اس کی تردید کی۔ چیف منسٹر نے وزیر اعظم مودی اور مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو سے ملاقات کے بعد ان دونوں کی تعریف کی، جب کہ چند ماہ قبل تک چیف منسٹر تلنگانہ وینکیا نائیڈو کو مخالف تلنگانہ اور تلنگانہ کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ قرار دے رہے تھے، تاہم دورۂ دہلی کے بعد اچانک ان کے رویہ میں تبدیلی آگئی اور وہ مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو کو دونوں تلگو ریاستوں کے لئے قابلِ فخر قرار دینے لگے۔ علاوہ ازیں چیف منسٹر نے اپنی دختر کے ساتھ بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ کے فرزند کی شادی میں بھی شرکت کی، جس کے بعد ہی مذکورہ افواہوں کا بازار گرم ہوا۔
مرکز سے فنڈس اور اسکیموں کے حصول کے لئے چیف منسٹر تلنگانہ بی جے پی سے قریب ہوسکتے ہیں، مگر فوری طورپر اس کا امکان نہیں ہے، کیونکہ حیدرآباد اور ورنگل کے میونسپل کارپوریشن کے انتخابات ہونے والے ہیں، جہاں مسلمانوں کا موقف فیصلہ کن ہے، اس طرح جلد بازی میں کوئی فیصلہ کرکے ٹی آر ایس ان بلدیات سے محروم نہیں ہونا چاہے گی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ٹی آر ایس اور بی جے پی کے امکانی اتحاد کو کیا صدر تلگودیشم و چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو قبول کرسکیں گے؟ کیونکہ مسٹر نائیڈو کی گرفت مرکز اور وزیر اعظم پر بہت مضبوط ہے۔
بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ کے حالیہ دورۂ تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے موقع پر متحدہ آندھرا پردیش کے آخری چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی اور دیگر سرکردہ قائدین کی بی جے پی میں شمولیت کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں، تاہم لمحۂ آخر میں یہ پروگرام ملتوی ہو گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ این چندرا بابو نائیڈو نے اس شمولیت کی سخت مخالفت اور وزیر اعظم سے نمائندگی کی تھی، جس کے پیش نظر بی جے پی نے کرن کمار ریڈی کو بی جے پی شامل کرنے کا پروگرام عارضی طورپر ملتوی کردیا، تاہم یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر بی جے پی کو تلگودیشم بوجھ محسوس ہونے لگی تو وہ متبادل کے طورپر آندھرا پردیش میں کرن کمار ریڈی اور تلنگانہ میں ٹی آر ایس کے ساتھ اپنی دوستی بڑھا لے گی۔