وزیراعظم ہند پاکستان کم کیوں آتے ہیں

محمود شام، کراچی (پاکستان)
پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی دورۂ ہند کے بارے میں یہاں ملی جلی رائے پائی جاتی ہے۔ ایک بڑا حلقہ تو ان کے دہلی جانے کے خلاف تھا۔ دلیل یہ تھی کہ جب تک کشمیر کے لوگوں کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ ہندوستان سے پانی، سیاچین ۔ سرکریک کے مسائل پر تصفیہ نہیں ہو جاتا پاکستانی وزیراعظم کے بھارت جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔کچھ تجزیہ کاروں کا یہ کہنا تھا کہ یہاںوزیر خارجہ کو بھیج دیا جائے۔ لیکن یہ عہدہ تو میاں صاحب کے پاس ہی ہے۔ وزیر اعظم کو ہوم ورک کے بعد جانا چاہیے۔ یہ بھی بار بار کہا گیا کہ ہندوستان کے پی ایم تو پاکستان آتے نہیں ہمارے پی ایم صدردوڑے دوڑے دہلی چلے جاتے ہیں۔ میاں صاحب نے اپنی حلف برداری میں منموہن سنگھ جی کو دعوت دی۔ انہوں نے قبول نہیں کی شاید سونیا جی نے منع کردیا یا ایکسٹرنل منسٹری نے انہیں نہیں آنے دیا۔ اس سے پہلے بھی مشرف صاحب دعوت دے رہے تھے

اس وقت بھی منموہن ہاں ہوں کہتے رہے۔ لیکن پاکستان نہیں آئے۔ ہاں واجپائی جی دو بار آئے پہلے بس سے لاہور پھر اسلام آباد سارک کانفرنس میں، پی پی پی کے دور میں بھی یہی ہئوا صدر زرداری گئے پھر وزیر اعظم گیلانی۔ لیکن ادھر سے کوئی نہیں آیا۔ جمہوری دور میں بھارتی وزیر اعظم کے آنے کی روایت بہت کم ہے۔ صرف راجیو بینظیر کے پہلے دور میںآئے تھے۔ پاکستان بھارت کے سربراہوں کے درمیان جب بھی ملاقات ہوتی ہے دونوں دیشوں میں بڑی امیدیں بندھ جاتی ہیں بٹے ہوئے خاندان سوچنے لگتے ہیں کہ آنے جانے میں آسانیان پیدا ہوجائیں۔ ویزا پابندیاں نرم کی جائیں گی تجارت کھل جائے گی۔ وہاں ہندوستان میں کیا سوچ تھی یہ تو ہم نہیں جانتے۔ یہاں تو سارے چینلوں نے خوب تبصرے کئے۔
آج کل ادھر ایک میڈیا گروپ کے خلاف بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں کیوںکہ پہلے اس نے فوج کے خلاف مہم چلائی پھر ہماری مذہبی مقدس ہستیوں کی توہین کر دی گئی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ نواز سرکار اس گروپ کا ساتھ دے رہی ہے۔ اس ناتے عام لوگ حکومت کے بھی مخالف ہورہے ہیں وزیر اعظم کے دہلی کے دورے کی مخالفت اس لئے بھی زیادہ ہوئی۔ تعداد اگرچہ کم ہے مگر ایک حلقے نے اس دورے کو اچھا قدم کہا اس سے توقع ظاہر کی کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب آسکیںگے۔ مسائل کو بات چیت سے حل کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔ اب جب وزیر اعظم واپس آئے ہیں تو ششما جی اور سیکرٹری خارجہ کے بیانات نے پھر یہاں ناراضی کی ہوا باندھ دی ہے ۔ اصولی طور پر تو یہ کوئی باقاعدہ سربراہی ملاقات تھی اور نہ ہی با ضابطہ دورہ ۔ ایسے مواقع پر

کئی سربراہ آتے ہیں اور میزبان ملک کے آئنی اور انتظامی سربراہوں سے میٹنگیں محض ایک رسم ہوتی ہیں۔ اس لئے اختلافی امور سے دور رہا جاتا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے دہلی جاکر ایک اچھا قدم اٹھایا تھا۔ بھارت کی طرف سے اس موقع پر ایسے بیانات نے اس خیرسگالی کے جذبے کو کمزور کیا ہے ۔ پاکستان میں عام طور پر تو مودی جی کی گجرات کی کڑوی یادوں کے سبب اچھے خیالات نہیں پائے جاتے۔ لیکن ایک سنجیدہ طبقہ جو نئے وزیر اعظم کی سیاسی زندگی کی تفصیلات سے واقف ہے اور جانکاری رکھتا ہے کہ یہ عہدہ انہیں اچانک نہیں مل گیا۔ ایک لمبی اور گھمبیر کتھا اس کے پیچھے ہے۔ بڑے غریب گھر سے مشکلیں پریشانیاں مسائل کا سامنا کرتے اپنے دوستوں کی سازشوں کا مقابلہ کرتے یہاں تک پہنچے ہیں۔ جیسے کٹھن دن انہوں نے دیکھے ہیں اور جتنی محنت انہوں نے کی ہے اس عہدے پر ان کا حق بنتا تھا۔
امریکہ نے ان کی مخالفت کی انہیں ویزا دینے سے بھی انکار کیا اس روشنی میں یہ آس کی جا سکتی ہے کہ وہ بدیسی دبائو میں نہیں آئیں گے۔ اس لئے یہ امید بھی کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے بارے میں ان کی پالیسی آزاد ہوگی۔ امریکہ انگلینڈ کی مرضی کے تحت نہیں ہوگی یہ تو آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان کی ذات جتنی طاقتور ہو چکی ہے وہ من موہن جی کی طرح پارٹی لیڈرشپ کے دباؤ میں بھی نہیں آئیںگے ۔ آر ایس ایس سے ان کا سمبندھ ضرور رہا ہے لیکن اپنے فیصلوں اور ہوم ورک سے ان کا قد اتنا بڑھ گیا ہے کہ کوئی ان پر دھونس نہیں جما سکتا۔ آجکل کاروبار کا دور ہے۔ سیاست پر بھی اکنامکس چھائی ہوئی ہے اور مودی جی کے ساتھ کاروباری گروپ ہیں۔ نہ صرف انڈیا کی اکانومی مضبوط ہوگی اس پورے علاقے کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

پاکستان میں اسوقت یہ معاملہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ طالبان میں پھوٹ پڑگئی ہے۔ با اثر محسود گروپ تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہو گیا ہے۔ پاکستان آرمی چیف ایک دو روز پہلے ہی وزیرستان کے دورے پر گئے اسی اثنا میں یہ خبریں آئیں اور کچھ قبیلوں نے جرگہ منعقد کیا اور حکومت سے کہا کہ ان کے علاقوں میں کارروائیاں بند کی جائیں وہ امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان دنوں موسم اچھا ہے فوجی کارروائی آسانی سے ہو سکتی ہے اس لئے یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ دہشت گرد کچھ مہلت لینے کی کوشش کررہے ہیں کہ حکومت کو بات چیت کا کہہ کر اپنی تیاریاں کی جائیں۔ فوج کے پاس یہی چند مہینے ہیں۔ جون جولائی اگست ۔ستمبر سے سردی شروع ہو جاتی ہے درمیان میں رمضان کا مقدس مہینہ بھی آرہا ہے اس میں بھی فوجی اپریشن عام طور پر نہیں ہوتا ہے۔اس وقت سیاسی تناؤ بڑھ رہا ہے۔ عمران خان کے جلسے بڑے بڑے ہورہے ہیں میاں صاحب کے گڑھ پنجاب کے بڑے شہروں میں وہ سیاسی طاقت کا اچھا شو کر رہے ہیں۔ اس سے انہیں مقبولیت مل رہی ہے۔ نواز سرکار اس سے کتنے دباؤ میں آتی ہے یہ بجٹ اجلاس کے دوران معلوم ہوگا۔ پی پی پی ابھی نواز کا ساتھ دے رہی ہے زرداری چالاک سیاستدان ہیں۔ ہوا کا رخ دیکھ کر چلتے ہیں وہ ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں کہ فوج اور نواز آپس میں ٹکرائیں اور دوسری طرف میڈیا سے بھی نواز کی لڑائی چلے یہ نواز شریف کو پورا یقین دلارہے ہیں کہ ان لڑائیوں میں وہ مخالفین کا ساتھ نہیں دیں گے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پی پی پی سیاسی طور پر اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ وہ نواز شریف کی کوئی مدد کر ہی نہیں سکتی۔ پنجاب جہاں عمران خان نے محاذ کھولا ہوا ہے وہاں پی پی پی خود بہت زیادہ مسائل سے دوچار ہے۔ پچھلے سال الیکشن میں بد ترین شکست کھا چکی ہے۔ مذہبی جماعتیں جو کبھی مسلم لیگ کی طاقت ہوتی تھیں وہ جنگ جیو گروپ کی طرف سے اہل بیت کی شان میں گستاخی پر نواز حکومت کی جانب سے کوئی ایکشن نہ لینے پر اس کے خلاف مورچہ لگائے ہوئے ہیں۔ نواز شریف اسمبلی میں بھاری اکثریت لینے کے باوجود بڑے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہیں نہ ملک میں استحکام لا سکے ہیں۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:92-3317806800