محمد ریاض احمد
تعلیم ایک ایسی سچائی ہے جس کے ذریعہ ہر جھوٹ کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے، بغض، جانبداری، مذہبی و نسلی امتیاز کی بیخ کنی کا تعلیم ہی ایک موثر ذریعہ ہے۔ دنیا میں تعلیم کے ذریعہ خود کو منوایا جاسکتا ہے،زمانے میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا جاسکتا ہے۔ تعلیم وہ روشنی ہے جو ماحول میں تیزی سے بکھر کر جہالت کی تاریکی کو ایسے مٹادیتی ہے کہ اس کا نام و نشان باقی نہیں رہتا۔ تعلیم کے ذریعہ ہی پہاڑوں کو کاٹ کر ترقی و خوشحالی کی راہیں نکالی جاسکتی ہیں، دریاؤں کے سینے چیر کر اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے اور آسمانوں پر اُڑانیں بھری جاسکتی ہیں۔ تعلیم انسان میں سادگی، تہذیب و تمیز، عزت نفس، اپنے حقوق کیلئے لڑنے کا جذبہ پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ غرض علم وہ کشتی ہے جس میں سوار ہوکر انسان اپنی کشتی کو پار لگانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ آجکل ہمارے ملک میں نریندر مودی کی حکومت ہے جو بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قاتل اور ہندوستان کے پہلے دہشت گرد ناتھو رام گوڈسے جیسے قاتل کی تائید کرنے اور اس کی شان میں قصیدے پڑھنے والی آر ایس ایس کی سرپرستی میں کام کرتی ہے۔
مرکز میں مودی کے زیر قیادت بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد فرقہ پرستوں کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے ہیں کہ اب ملک میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ سرکاری اور خانگی شعبوں میں ملازمتوں کے معاملہ میں ان کے ساتھ مذہبی امتیاز برتا جارہا ہے۔ بڑے شہروں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں واقع اپارٹمنٹس اور بستیوں میں مسلمانوں کو مکانات اور فلیٹس کرایہ پر نہیں دیئے جارہے ہیں۔ فرقہ پرستوں کی شدید مخالفت کے نتیجہ میں مسلمان ہندو بستیوں میں جائیداد خریدنے سے بھی قاصر ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اگر کسی ہندو بستی میں کسی مسلمان کا ذاتی مکان ہو تو اسے اس قدر تنگ کیا جارہا ہے کہ وہ غریب اپنی جائیداد فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس طرح کا واقعہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ریاست گجرات کے احمد آباد میں پیش آچکا ہے جہاں وشوا ہندو پریشد کے جنرل سکریٹری پروین توگڑیہ کے کہنے پر فرقہ پرست عناصر نے ایک مسلمان کا گھیرا اس قدر تنگ کردیا کہ وہ اپنا مکان اونے پونے قیمت پر فروخت کرنے کیلئے مجبور ہوگیا۔ گجرات میں اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں تو اس میں تعجب کی بات نہیں کیونکہ اس ریاست کو فرقہ وارانہ فسادات، تعصب و جانبداری کے لحاظ سے ملک میں بدترین حکمرانی کی مثال قرار دیا جاچکا ہے۔
یہ وہ ریاست ہے جہاں فرقہ پرست درندوں نے سال 2002ء کے گجرات فسادات میں غریب و نہتے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی۔ مسلم خواتین اور لڑکیوں کی عصمتوں و عفتوں کو تار تار کیا گیا تھا۔ ماں باپ کے سامنے ان کے بچوں، بیویوں کے سامنے شوہروں، بہنوں کی نظروں کے سامنے بھائیوں کے گلے گاٹے گئے تھے۔ حکومت کی مبینہ سرپرستی میں درندوں نے صرف ان ہی انسانیت سوز جرائم پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ایک مسلم خاتون کے پیٹ میں پرورش پارہے بچے کو اس کی ماں کا پیٹ چیر کر باہر نکالا اور اسے تلوار کی نوکپر صرف اور صرف اس لئے چڑھا دیا کہ وہ مسلمان تھا۔ اسی ریاست میں ممبئی کی طالبہ عشرت جہاں اور دیگر چار بے قصور نوجوانوں کو صرف اس لئے گولیوں سے بھون دیا گیا تاکہ شری نریندر مودی جی کو ہیرو بنایا جائے اور دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ دہشت گرد اس ’’ مہان انسان ‘‘ کو قتل کرنے کے درپہ تھے جس نے فسادات کے دوران کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کے بار بار توجہ دلوانے کے باوجود انہیں اور گلبرگ سوسائٹی کے مکینوں کو فرقہ پرست بھیڑیوں کے ہاتھوں مرنے کیلئے چھوڑ دیا تھا۔ بہر حال دہلی، ممبئی جیسے شہروں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کو مکانات ، فلیٹس کرایہ پر نہیں دیئے جارہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کا تلخ تجربہ کئی مسلم صحافیوں اور اداکاروں و اداکاراؤں کو ہوچکا ہے۔ یہ سب کچھ مسلمانوں کے خلاف خطرناک سازش کا ایک بھیانک حصہ ہے، اس سے ملک یا عوام کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں بلکہ مسلمانوں کا نقصان، ہمارے وطن عزیز جنت نشان ہندوستان کا نقصان ہے۔
ایک بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ نریندر مودی حکومت میں مذہبی منافرت کے رجحان میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ خانگی فرمس پر بھی آہستہ آہستہ فرقہ پرستی کا رنگ چڑھنے لگا ہے۔ ایسے میں وہ ملازمین کی بھرتیوں کے معاملہ میں بھی ہندو امیدواروں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ حالانکہ ملازمین کا انتخاب مذہب، ذات پات، رنگ و نسل و علاقہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ امیدوار کی صلاحیتوں کی بنیاد پر کیا جانا چاہیئے۔ اگر ہمارے ملک میں صلاحیتوں کی بجائے مذہبی بنیادوں پر ملازمتیں دی جانے لگیں تو پھر ہندوستان کسی بھی حال میں ترقی نہیں کرپائے گا۔ گزشتہ تین یوم سے سماجی رابطے کی سائٹس اور غیر جانبدار میڈیا میں ممبئی کے رہنے والے ایک 22سالہ مسلم نوجوان ذیشان علی خان کے کافی چرچے ہیں جس نے اپنی تعلیمی قابلیت اور جرأت و ہمت کے ذریعہ حکومت مہاراشٹرا و مرکزی حکومت، قومی اقلیتی کمیشن، تجارتی اداروں اور سب سے بڑھ کر مذہبی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے کی خواہاں طاقتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں، اس لڑکے نے سماجی رابطے کی سائٹس خاص کر ٹوئٹر اور فیس بک کے ذریعہ اپنے ساتھ ہیروں کی ایک مشہور و معروف کمپنی کی جانب سے کی گئی ناانصافی کو اس انداز میں بے نقاب کیا کہ دشمن بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ ملازمتوں پر بھرتیاں مذہبی بنیادوں پر نہیں بلکہ صلاحیتوں کی بنیاد پر ہونی چاہیئے۔
مینجمنٹ گریجویٹ ذیشان علی نے ان کے ساتھ مذہبی امتیاز برتنے کے خلاف پولیس میں شکایت بھی درج کروائی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ فرقہ پرستی کیلئے بدنام ممبئی پولیس ہیرے برآمد کرنے والی مشہور و معروف کمپنی ہری کرشنا اکسپورٹ پرائیویٹ لمیٹیڈ کے خلاف ایف آئی آر تک درج کرلیا۔ پولیس کے اچانک غیر جانبدار ہوجانے کی اہم وجہ قومی اقلیتی کمیشن اور خود چیف منسٹر مہاراشٹرا فرنویس کا تیزی کے ساتھ حرکت میں آنا ہے۔ فرنویس اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی مسئلہ سماجی رابطے کی سائٹس پر آجائے تو وہ نہ صرف ریاست مہاراشٹرا بلکہ خود ان ( چیف منسٹر ) کیلئے بدنامی و رسوائی کا باعث بن جائے گا۔ چیف منسٹر مہاراشٹرا ذیشان کا حق دلانے کیلئے حرکت میں نہیں آئے بلکہ اپنے دامن پر بدنامی کا داغ نہ پڑ جائے اس لئے تشویش ظاہر کی۔ واضح رہے کہ ہری کرشنا اکسپورٹ پرائیویٹ لمیٹیڈ کا شمار ہیرے برآمد کرنے والی عالمی سطح کی مشہور و معروف کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ اس ڈائمنڈ اکسپورٹ فرم میں ملازمت کیلئے ذیشان علی خاں نے 19مئی کو آن لائن درخواست کی۔ ان کی درخواست میں جو الفاظ استعمال کئے گئے اس سے ذیشان کی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے لیکن چند منٹوں میں ہی ذیشان کو کمپنی سے جواب موصول ہوا جس میں کچھ اس طرح کہا گیا ’’ ملازمت کیلئے درخواست داخل کرنے کیلئے آپ کا شکریہ،ہم آپ کو افسوس کے ساتھ آگاہ کرتے ہیںکہ ہم صرف غیر مسلم امیدواروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں‘‘ کمپنی کے جواب سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس نے ذیشان علی خاں جیسے قابل نوجوان کو صرف اور صرف مسلمان ہونے کے باعث ملازمت نہیں دی۔
ذیشان نے فرقہ پرستی کا بدترین مظاہرہ کرنے والی اس فرم پر برہمی ظاہر کرنے اور کوئی پرتشدد قدم اٹھانے کے بجائے بڑے ہی سلجھے ہوئے انداز میں اس جواب کا اسکرین شاٹ لیکر اسے فیس بک پر پوسٹ کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ معاملہ ریاستی سطح سے نکل کر قومی اور بین الاقوامی سطح پر آگیا۔ نتیجہ میں کمپنی کے بانی سے لیکر تمام ذمہ داروں میں ہلچل مچ گئی۔ ہری کرشناامپورٹ پرائیویٹ لمیٹیڈ کے اسوسی ایٹ وائس پریسیڈنٹ اور کمپنی کے شعبہ فروغ انسانی وسائل کے سربراہ مہیندر دیشمکھ عجیب و غریب انداز میں وضاحت کرنے پر مجبور ہوئے۔دیشمکھ کا کہنا تھا کہ ان کی فرم میں مذہب، ذات پات، رنگ و نسل اور علاقہ کی بنیاد پر تقررات نہیں کئے جاتے ۔ ذیشان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ دراصل شعبہ انسانی وسائل میں ٹرینی کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی دیپیکا نائک کی غلطی کے باعث ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دیپیکا نائک اس شعبہ میں کم از کم چار سالہ تجربہ رکھتی ہے۔ اس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ایک ٹرینی ہے غلط اور حقیقت کو چھپانے کے مترادف ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس واقعہ کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی اس کے Linkedin صفحہ کو غیر کارکردکردیا گیا۔ دیپیکا نائک کو کمپنی دراصل بلی کا بکرا بنارہی ہے۔ یونیورسٹی آف ممبئی سے سال 2010ء میں مینجمنٹ میں گریجویشن کرنے والی دیپیکا کوئی ناتجربہ کار نہیں ہے۔ ڈائمنڈ فرم میں ایچ ار اکزیکیٹو اور پھر میوز بیسٹ انڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ میں ایچ آر منیجر و اڈوائزر کی حیثیت سے کام کرچکی تھی۔ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دیپیکا ٹاٹک کوملازمت کے خواہاں نوجوانوں کی درخواستیں موصول کرنے کا مجاز گردانا نہیں گیا تھا تو پھر اس کی فرم کی بھرتی سائٹس کی آئی ڈی تک رسائی کیسے ہوئی۔
اس کے علاوہ دیپیکا کاLinkedin صفحہ برخواست کیوں کیا گیا۔ ذیشان اور ان کے ارکان خاندان کا کہنا ہے کہ دیپیکا نائک کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔ دوسری جانب اس فرم کے بانی ساوجی ڈھولکیا نے جو کسی زمانے میں ایک غریب آدمی تھے ذیشان کے ساتھ پیش آئے واقعہ اور اس پر اس نوجوان کی دیدہ دلیری پر حیران ہیں، مودی کے گجرات سے تعلق رکھنے والے ساوجی ڈھولکیا کی زبان پر جیسے تالالگ گیا ہو، وہ مرکزی و ریاستی حکومتوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بننے پر بھی فکرمند ہیں۔ ایک مسلم نوجوان کے ساتھ مذہبی امتیاز پر سب سے پہلے ممبئی کے قانون داں اور سماجی جہدکار شیرا پونہ والا حرکت میں آئے، انہوں نے قومی اقلیتی کمیشن ، وزارت داخلہ، چیف منسٹر مہاراشٹرا وغیرہ سے شکایت کی۔ ذیشان کے مطابق مذہبی بنیاد پر امیدواروں کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جانا چاہیئے۔ چونکہ اس سے ہمارا ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ، دنیا میں اس کی بدنامی ہوگی۔ جہاں تک ہری کرشنا ڈائمنڈ اکسپورٹ لمیٹیڈ کا سوال ہے وہ 75 ممالک کو پالش شدہ ہیرے برآمد کرتی ہے ، اس کا اپنا جویلری برانڈ KISNA ہے۔ اسے ہندوستان میں ہیروں کا سب سے بڑا ڈسٹری بیوٹر سمجھا جاتا ہے۔ ملک بھر میں 6250 جویلری آؤٹ لیٹس میں KISNA کے ہیروں کے زیورات دستیاب ہیں۔ 28ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ ڈھولکیا نے گزشتہ سال دیوالی کے موقع پر اپنے ہزاروں ملازمین کو کاریں، فلیٹس اور ہیرے کے زیورات بطور تحفہ یا بونس پیش کئے تھے۔ ذیشان علی خاں نے ہری کرشنا ڈائمنڈ اکسپورٹ کے مذہبی امتیازات کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اس آواز کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچاتے ہوئے یہ دکھادیا ہے کہ اب مسلم نوجوان چیلنجز کو مواقع میں تبدیل کرنے کا آغاز کرچکے ہیں ۔ وہ تعلیمی صلاحیتوں کی بنیاد پر منفی سوچ کی بجائے مثبت فکر کو اپناتے ہوئے فرقہ پرستی، ناانصافیوں اور حق تلفیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوگئے ہیں۔
ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے جہاں ہر کسی کی مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ صلاحیتوں کی بنیاد پر قدر کی جانی چاہیئے ورنہ تعصب و جانبداری کا مظاہرہ وطن اور اہل وطن کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ذیشان نے خانگی کمپنیوں اور تجارتی اداروں میں فروغ پارہی فرقہ پرستی پر ایک طرح سے روک لگانے کا آغاز کیا ہے۔ شروعات تو اچھی ہوئی ہے، ایک کم عمر مسلم لڑکے نے تعلیم کے بل بوتے پر سارے ملک اور کارپوریٹ سیکٹر میں ہلچل مچادی۔ اپنے ساتھ کی گئی ناانصافی کے خلاف اس کی اُٹھی آواز ان 75ملکوں میں بھی پہنچ گئی ہے جہاں KISNA برانڈس کے ہیروں سے جڑے زیورات اکسپورٹ کئے جاتے ہیں۔ان ملکوں میں مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی شامل ہیں جہاں کئی اعلیٰ عہدوں پر غیر مسلم فائز ہیں۔ اہم تجارتی اداروں کی مالکین بھی غیر مسلم ہیں ان میں مہاراشٹرا اور گجرات سے تعلق رکھنے والے ہندو تاجرین و صنعت کار اور پیشہ ورانہ ماہرین کی بھی اکثریت ہے۔ اگر مسلم ملکوں میں ہندوستانی ہندوؤں کے ساتھ مذہبی امتیاز برتا گیا تو گجرات اور مہاراشٹرا میں جو خوشحالی دکھائی دے رہی ہے وہ جلد ہی ختم ہوجائے گی۔ فرقہ پرستوں اوران کے ایجنڈہ پر کام کرنے والی فرمس کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ دھیرو بھائی امبانی کو ہندوستان کا دولت مند ترین شخص بنانے والا ہندوستان نہیں تھا بلکہ عرب ملک تھا جس نے ان کی صلاحیتوںکی قدر کی اور آج دھیرو بھائی امبانی تو نہیں رہے لیکن ان کے بیٹے انیل اور مکیش امبانی کا شمار نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے متمول لوگوں میں ہوتا ہے۔بہر حال ذیشان علی خاں نے وہ کام کیا ہے جو بڑی بڑی حکومتیں اور ادارے نہیں کرسکتے۔
mriyaz2002@yahoo.com
مذہبی امتیاز برتنے والی کمپنی میں ملازمت نہ کرنے
ہندو دوستوں کا اعلان
ہندوستان میں مذہبی امتیاز برتے جانے کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے سیاسی و سماجی حلقوں میں ہلچل مچانے والے ذیشان علی خاں کو ہندو دوستوں کی بھرپور تائیدحاصل ہے۔ ان کے ساتھ ہری کرشنا ڈائمنڈ اکسپورٹس پرائیویٹ لمیٹیڈ میں ملازمت کیلئے دو ہندو دوستوں نے بھی درخواست دی تھی اور ان لوگوں کا انتخاب بھی عمل میں آیا تھا لیکن اومکار بانسوڈے اور مکند مٹوپانڈے نے اس کمپنی میں ملازمت کرنے سے انکار کردیا جہاں مذہبی امتیاز برتا جاتا ہو۔ دونوں کا کہنا ہے کہ ایچ کے ای نے ذیشان کے ساتھ غلط کیا جس کے لئے وہ کمپنی کی مذمت اور ذیشان کی تائید کرتے ہیں۔