محمد ابراہیم ،دوبئی
ہر ماں باپ امیر نہیں ہوتے اپنی ملازمت یا کاروبار کے ذریعہ اپنے جینے کا سہارا بنالیتے ہیں۔ بعض والدین اپنی والاد کی خواہش پوری کرنے سے خاصر رہتے ہیں ان کو حالات اور معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے بڑی دشواری زندگی میں پیدا ہوتی ہے۔ بچے دوسرے کو اچھا دیکھتے ہوئے اپنے والدین سے خواہشات کا اصرار کرتے ہیں اگر والدین اس کی خواہش کو پورا کرنے سے قاصر ہوں تو طرح طرح کی باتیں اپنی معصومیت سے بلا خوف والدین کو بولتے ہیں جس سے والدین پر بڑی شدید قسم کی تکلیف رونما ہوتی ہے۔ اولاد کی پسند کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ناکام ہوجاتے ہیں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
رفتہ رفتہ امیری اور غریبی میں اسکول کی تعلیم مکمل ہوتی ہے پھر اس کے بعد کالج کے دور کا آغاز ہوتا ہے اور کالج میں ہمہ اقسام کے کورس ہوتے ہیں اپنی زندگی میں کس سمت میں جانا ہے اس لحاظ سے انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ اپنے انتخاب کئے ہوئے کورس کے مطابق کالج کی پڑھائی شروع ہوتی ہے اس کی تکمیل کے بعد میں ڈگری یا پروفیشنل کورس یعنی پیشہ وارانہ کورس جیسے انجینئرنگ ڈاکٹری،سائنٹسٹ آرکیٹکٹ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ اپنی کالج کی ڈگری و پرفیشنل کورس کی تکمیل کے بعد روزگار کے دور کا آغاز ہوتا ہے تب والدین راحت کی سانس لیتے ہیں۔ بعض لوگ روزگار یا بزنس پیشہ اختیار کرتے ہیں رفتہ رفتہ روزگار کے ذریعہ اپنے والدین کو اپنی تنخواہ لاکر دیتے ہیں اس کے کچھ سال کے بعد شادی کا مرحلہ شروع ہوتا ہے اور لڑکیاں ڈھونڈنے کا دور شروع ہوتا ہے۔ اگر لڑکا کافی تعلیم یافتہ ہے تو ہو اپنے حساب سے لڑکی کے انتخاب کو ترجیح دیتا ہے اور بعض وقت والدین کے فیصلے اس کے برعکس ہوتے ہیں اپنی اعلی تعلیم یافتہ اور اچھی تنخواہ کے بل بوتے پر اولاد اپنے والدین پر دباؤ ڈالتے ہیں اور اپنے گھر سے علحدگی کی دھمکیاں دیتے ہیں جس سے والدین کو دونوں میں سے ایک شرط کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔
شادی اچھی طرح کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لڑکی والوں کے لحاظ سے اپنے رتبے کا خیال کرتے ہوئے شادی انجام پاتی ہے۔ اب معاملہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کام آتا ہے ۔والدین کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں یا کم قابلیت ضروری ہے۔ یہاں پر اللہ تعالی کے حکم کے مطابق والدین پر کسی قسم کی تکلیف دینا نہیں ہے چاہے وہ کیسے بھی ہوں کیونکہ والدین کی بے عزتی کرنا کتنی معیوب بات ہے والدین اپنی اولاد کی خاطر اپنی خواہشوں کو مار کر اپنی اولاد کی پرورش اچھی کرتے ہیں اور قابل اور عزت دار انسان بناتے ہیں جس کو سماج ایک نئی پہچان ملتی ہے پھر ان کو بڑے لوگوں میں تعرف کروانے سے کیوں کتراتے ہیں؟؟ کیا یہ ان کی غلطی ہے کہ تم کو تعلیم یافتہ بنانا؟اگر نہیں پڑھاتے لکھاتے تو بھی پریشانی میں مبتلا رہتے کیونکہ اولاد کاگلہ رہتا کہ کاش ہمارے والدین بھی ہم کو تعلیم یافتہ بناتے تو یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا۔
والدین تمام بچوں کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ والدین کو یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کا کام ہوگیا ہے بیچارے غم اور بے بسی کے عالم میں ہر چیز برداشت کرتے ہیں کیونکہ وہ ضعیفی کی عمر میں پہنچ گئے ہیں ہر ایک کیلئے تکلیف دہ ہے۔ اگر والدین مالدار ہوں تو اس وقت کسی کو ان کی ضعیفی نظر نہیں آتی نہ کوئی اور چیز نظر آتی ہر بات ماننے کیلئے تیار رہتے ہیں کیونکہ کب کس کو ان سے کچھ مل جائے ایک آس میںہر کام کرتے ہیں اس کے برعکس مال نہیں رہا تو بیچارے بڑی ذلت کی زندگی گذارتے ہوئے گزارہ کرتے ہیں۔ کوئی اولاد چاہے شادی شدہ لڑکی ہو یا لڑکے ہو والدین کو اپنے پاس رکھنے سے کتراتے ہیں والدین کو رکھنے سے اولاد کے کام میں خلل پڑجاتا من مانی نہیں کرپاتے کیونکہ وہ ٹوکتے ہیں ان کا ٹوکنا ان کیلئے عذاب زندگی بن جاتا ہے۔والدین کی خدمت کرنا باعث رحمت ہے باعث زحمت نہیں۔ اللہ تعالی ہر اولاد کو اپنے والدین کے ساتھ حسن اخلاق و محبت اور رحم دلی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔