وارانسی میں مودی کو کجریوال اور راج ناتھ سنگھ کو ریتا بہوگنا شکست دے سکتے ہیں

لکھنؤ ۔ 3 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) سیکولر پارٹیاں، سیکولر لیڈر سیکولرازم کے تحفظ کیلئے چاہے جتنا شور ہنگامہ مچائیں اور سیکولرازم خطرے میں نعرے بلند کرکے عوام سے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں لیکن واقعتاً ان میں سے کسی کو سیکولرازم کی پرواہ نہیں ہے، جس کی تازہ مثال ملک کے عام انتخابات ہیں۔ ایک طرف نریندر مودی کو ملک کیلئے خطرہ بتایا جارہا ہے دوسری طرف مودی کو یو پی کے وارانسی پارلیمانی حلقہ سے شکست دلانے کو کوئی سیکولر سیاسی جماعت، لیڈر تیار نہیں ہے۔ وارانسی میں مودی کے خلاف سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی نے اپنے جن امیدواروں کو کھڑا کیا ہے وہ مودی کے مقابلے میں انتہائی بونے ہیں۔ ان دونوں امیدواروں میں مودی کو شکست دینا تو دور رہا مودی کے سامنے الیکشن میں ٹھہرتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے سپریمو اروند کجریوال ایک ایسے عوامی لیڈر ضرور ہیں جو مودی کے مقابلے میں ٹک سکتے ہیں۔

اس حلقہ سے قومی ایکتا دل کے سیاسی مافیا مختار انصاری میدان میں ہیں۔ وہ گذشتہ الیکشن میں بی جے پی کے ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی سے چند ہزار ووٹوں سے ہارے تھے۔ اس مرتبہ بھی مختار انصاری میدان میں ہیں۔ قومی ایکتا دل کے لیڈر افضال انصاری نے سونیا گاندھی، ملائم سنگھ یادو، مایاوتی وغیرہ کو ایک مکتوب لکھ کر ان سے استدعا کی کہ وہ مودی کو ہرانے کیلئے مختار انصرای کی حمایت کریں اور انہیں اپنا متفقہ امیدوار بنائیں لیکن افضال انصاری کے اس مکتوب کا ابھی تک کسی سیاسی جماعت لیڈر نے کوئی نہیں دیا ہے جس سے صاف ہوجاتا ہیکہ ان میں سے کسی کو مودی کو ہرانے میں دلچسپی نہیں ہے۔ کانگریس نے ابھی تک اپنے امیدوار کے نام کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن جن ممکنہ امیدواروں کے نام چل رہے ہیں وہ سب مودی کے مقابلے میں بہت کمزور ہیں۔ اروند کجریوال بھی سیکولر جماعتوں کے بہترین متفقہ امیدوار ہوسکتے ہیں

اور کجریوال مودی کی ریاضی کو الٹ سکتے ہیں لیکن کجریوال کو بھی کوئی سیکولر جماعت حمایت دینے کو تیار نہیں ہے۔ لکھنؤ پارلیمانی حلقہ سے بی جے پی کے قومی صدر راجناتھ سنگھ انتخابی میدان میں ہیں۔ کانگریس سے ریتا بہوگنا جوشی اور عام آدمی کی پارٹی سے جاوید جعفری امیدوار ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ لمباری امیدوار کانگریس کی ریتا بہوگنا جوشی ہیں۔ گذشتہ الیکشن میں ریتا بہوگنا جوشی نے اٹل بہاری واجپائی کے معتمد خاص سابق ریاستی وزیر لال جی ٹنڈن کو سخت ٹکر دی تھی۔ اگرچہ جوشی چند ہزار ووٹوں کے فرق سے الیکشن ہار گئی تھی لیکن ریتا بہوگنا جوشی آج ہی سب سے طاقتور امیدوار مانی جاتی ہیں۔ اگر تمام سیکولر پارٹیاں ریتا بہوگنا جوشی کو اپنا متفقہ امیدوار بنا کر الیکشن لڑائیں تو 1991ء سے لکھنؤ پارلیمانی سیٹ پر سے بی جے پی کے قبضہ کو ختم کیا جاسکتا ہے اور لکھنؤ میں ایک مرتبہ پھر سے سیکولرازم کا جھنڈا لہرایا جاسکتا ہے۔