نیپال میں 7سال کی کوششوں کے بعد دستور کی تدوین عمل میں آنا بظاہر اس ملک کے عوام کیلئے بڑی کامیابی ہے ۔ نیپالی معاشرہ کو ایک جمہوری ملک میں سانس لینے اور اپنے حقوق کی جڑوں کو مضبوط کرنے کا موقع ملے گا ‘ مگر اس دستور کی برقراری کے تعلق سے پیداشدہ اندیشوں کو دور کرنے میں کس وقت کامیابی ملے گی یہ کہا نہیں جاسکتا ‘ جس دستور کی تدوین کیلئے نیپال میں مسلسل دو پارلیمانی انتخابات گذار دیئے گئے اور اس سے 150بلین روپئے کا سرکاری خزانہ پر بوجھ پڑا ‘ ایسے دستور کا تحفظ کرنا اور اس کی پائیداری کو یقینی بنانے عوام اور ان کی منتخب کردہ حکومتوں کی ذمہ داروں ہوگی۔ نیپال اب ساری دنیا کے جمہوری ملکوں کی میں کھڑا ہوگیا ہے ‘ اس کے نئے دستور نے اس ملک کو ماباقی رہنے کے ساتھ روابط کو مضبوط بنانے میں مدد کی ہے ۔ بین الاقوامی تعلقات اور نیپال کے نظم و نسق اور سیاسی اُمور میں ایک نئی صورت گری پیدا ہوگی ۔ نیپال کے دستور سازی کے بعد ہندوستان کے ساتھ اس کے تعلقات میں مزید نمایاں تبدیلی آئے گی ‘ توقع کی جاسکتی ہے ۔
کیونکہ جس ملک کے مہاراجہ کے ساتھ 1989میں اس وقت کے ہندوستانی وزیراعظم راجیو گاندھی کے تعلقات تلخیوں کا شکار ہوئے تھے ‘ وہاں اب دستور نے اپنا مقام پیدا کرلیاہے تو یہ بڑی تبدیلی ہے ۔ نیپال کے مہاراجہ بریندر نے 1988ء میں چوتھی سارک چوٹی کانفرنس کیلئے اسلام آباد جانے کے دوران راجیو گاندھی نے نیپال کے مہاراجہ کے ساتھ ناشتہ پرملاقات کرنے کی خواہش کی تھی مگر مہاراجہ نے ناشتہ پر ملاقات کی اس خواہش کویہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ وہ اپنی نیند کو قربان نہیں کرسکتے ۔ اس واقعہ کے بعد نئی دہلی اور کٹھمنڈو کے درمیان انا پرستی کا تنازعہ پیدا ہوا تھا لیکن سفارتی کوششوں اور سابق معتمد خارجہ اومیش بھنڈاری و کے نٹور سنگھ کی ثالثی کے بعد بھی راجیو گاندھی اور مہاراجہ نیپال بریندر کے درمیان دوریاں برقرار تھیں ۔ باہمی تعلقات میں تبدیلی کے باوجود دونوں ملکوں نیپال اور ہندوستان میں کئی باتیں یکساں ہیں ۔ اب نیپال کا دستور وضع کئے جانے کے بعد سفارتکاروں نے اس جمہوری دستور پر کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا چونکہ سب سے بڑی جمہوری ملک ہندوستان کے پڑوسی ہیں ۔ نیپال اپنی جمہوریت اور دستور کے استحکام میں کس حد تک کامیاب ہوگا یہ کہنا مشکل ہے تاہم دستور بنانے والوں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ نیپیل کے عوام کو ان کا جمہوری حق دیا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ غذا ‘ تعلیم اور ماحولیات کی خرابی سے محفوظ رکھنے کا حق بھی عوام کو دیا گیا ہے ۔ دستور کی تدوین کے بعد ہمالیائی ملک نیپال سے انسانوں کی غیرقانونی اسمگلنگ کو روکنے اور انسانی حقوق کے تحفظ میں مدد ملے گی ۔ نیپال کے صدر رام برن یادو نے دستور سازی کا اعلان کرتے ہوئے نیپال کی تین اہم پارٹیوں نیپالی کانگریس ‘ کمیونسٹ پارٹی آف نیپال یونیفائیڈ ماکسسٹ لیفٹنٹ ( سی پی این ۔ یو ایم ایل ) اور یونیفائیڈ کمیونسٹ پارٹی آف نیپال نے کہا کہ وہ نیپال کو ایک جمہوری و کامیاب ملک بنانے میں مدد کریں لیکن بعض گروپس نے اس دستور کی جس طرح سے مخالفت کی ہے اس سے واضح نہیں ہوتا کہ نیپال میں دستور کی زندگی طویل ہوگی ‘ آگے چل کر دستور کے مسئلہ پر تشدد بھڑک جائے اور نیپال کی اکثریتی آبادی میں ناراضگی پیدا ہوجائے تو حالات پر کس طرح قابوپایا جاسکے یہ وقت ہی بتائے گا ۔
نیپال میں پُرامن حالات اس کے پڑوسی ملک ہندوستان کیلئے بھی اہم ہیں کیونکہ نیپال ایک ایسا سرحدی ملک ہے جہاں سے شورش پسندی کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ نیپال کے پڑوس میں چین ہے اس ملک سے نیپال کے بعض گروپس کے تعلقات ہندوستان کیلئے تشویشناک ہیں ۔ نیپال کے بعض قائدین اپنے ملک کی ہندوستان کی جانب جھکاؤ پر تنقید کرتے رہے ہیں کیونکہ ان نیپال قائدین کو شکایت ہے کہ ہندوستان ان کی اندرون ملک سیاست میں دخل دیتا ہے ۔ اس وقت وزیراعظم نریندر مودی اور نیپال کے ہم منصب سشیل کوئرالا کے درمین تعلقات خوشگوار ہیں اور مودی نے نیپال کے دستور کے تعلق سے بعض گروپس کی ناراضگی کو دور کرنے کی کوشش کیلئے وزیراعظم نیپال سے خواہش کی ہے کہ یہ ضروری ہے کہ دستور کو مکمل سطح پر قبول کرنے کیلئے تمام پارٹیوں میں اتفاق رائے پیدا ہو ۔ نیپال میں حکمرانی کا خواب دیکھنا والا ہر بااثر لیڈر ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی پالیسی اختیار کرتا ہے تو دونوں ملکوں میں مزید تقویت پیداہ وگی لیکن جس دستور میںخامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اس کو دور نہیں کیا گیات و اس کی برقراری کی عمر غیر یقینی کا شکار ہوگی ۔