نیتاجی سبھاش چندر بوس ہندو اور مخالف نوآبادیاتی جدوجہد

رام پنیانی
ہندوستان کی مخالف نو آبادیاتی جدوجہد ایک بہت بڑا رجحان رہی جس نے جدید ہندوستان کی ایک سکیولر جمہوریت کے طور پر تعمیر کی۔ جہاں تک مخالف نوآبادیاتی جدوجہد کا سوال ہے مختلف سیاسی نظریات رکھنے والی جماعتیں و شخصیتیں اس کا حصہ رہے۔ ان جماعتوں اور شخصیتوں نے برطانوی سامراج کو اپنے وطن عزیز سے نکال باہر کرنے کے لیے اپنے اپنے انداز میں جدوجہد بھی کی۔ اس جدوجہد میں کچھ ایسے بھی تھے جو مذہب کے نام پر قوم پرستی پر رکے رہے اور جو اس جدوجہد (جدو جہد آزادی) کا حصہ نہیں رہے۔ اب انتخابات کے قانونی جواز کا فائدہ حاصل کرنے کی خاطر وہ جدوجہد آزادی کا حصہ ہونے کے جھوٹے دعوے کررہے ہیں یا پھر جدوجہد آبادی میں حصہ لینے اور اس کی قیادت کرنے والے رہنمائوں (مجاہدین آزادی) بالخصوص پنڈت جواہر لال نہرو کو بدنام کرنے اس دور میں پیش آئے واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اسی طرح کا انداز پھر ایک مرتبہ اس وقت منظر عام پر آیا جب مسٹر نریندر مودی ’’حکومت آزادی ہند‘‘ کے قیام یا اعلان کی 72 ویں سالگرہ کے موقع پر پرچم کشائی انجام دے رہے تھے۔ اس تقریب میں انہوںنے پرزور انداز میں کہا کہ سبھاش چندر بوس، سردار بھائی پٹیل اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے جدوجہد آزادی میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے اسے نہرو۔گاندھی خاندان ہمیشہ نظرانداز کرتا رہا ہے۔
نریندر مودی کے اسی بیان سے کوئی بھی چیز سچائی سے دور نہیں ہوسکتی، ہر کوئی جانتا ہے کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو ہندوستان کی پہلی کابینہ میں وزیر بنایا گیا، انہیں (امبیڈکر) کو دستورہند کا مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی کے صدرنشین کی گراں بہاذمہ داری بھی تفویض کی گئی۔ ساتھ ہی امبیڈکر سے ہندو کوڈ بل کا مسودہ تیار کرنے کے لیے بھی کہا گیا۔ اس وقت سردار ولبھ بھائی پٹیل نائب وزیراعظم کے عہدہ پر فائز تھے اور وزارت داخلہ بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل کردی گئی تھی۔ سردار پٹیل کے خطوط کی تالیف کا کام، سردار پٹیل کے کرسپانڈنس یا مولف درگاپرساد کے سپرد کیا گیا۔
کتاب کے مطابق یہ واضح ہوتا ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل ایک دوسرے سے بہت قریب دیکھتے تھے اور سردار پٹیل کی موت تک اکثر فیصلے ان کی مرضی سے یا ان کی پہل سے کئے گئے۔ سردار پٹیل پنڈت جواہر لال نہرو کو اپنے چھوٹے بھائی اور اپنا رہنما تصور کرتے تھے۔ اس سے پہلے بھی نریندر مودی نے یہ پروپگنڈہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ نہرو نے سردار پٹیل کو نظرانداز کیا یہاں تک کہ سردار پٹیل کی موت پر ممبئی میں ان کی آخری رسومات میں شرکت بھی نہیں کی۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ مرارجی دیسائی کی سوانح حیات میں واضح طور پر بتایا گیا کہ نہرو نے پٹیل کی آخری رسومات میں شرکت کی۔ اس تعلق سے اس دور کے اخبارات میں بھی اطلاعات شائع ہوئیں۔ جہاں تک نیتاجی سبھاش چندر بوس کا سوال ہے نہرو اور بوس نظریاتی طور پر بہت قریبی دوست تھے۔ دونوں سوشلسٹ تھے اور کانگریس کی بائیں بازو ونگ سے تعلق رکھے تھے۔ ہندوتوا سیاست کے حامیوں کے برخلاف سبھاش چندر بوس انتہائی سکیولر تھے۔ جب ان (سبھاش چندر بوس) کا کلکتہ کارپوریشن کی قیادت کے لیے انتخاب عمل میں آیا انہوں نے مسلمانوں کے لئے ملازمتیں محفوظ کرنے یا ملازمتوں میں انہیں تحفظات فراہم کرنے کی ہمت کی جس پر ہندو قوم پرست چراغ پا ہوگئے اور پھر سبھاش چندر بوس پر متواتر حملے کرتے تھے انہیں اپنی تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔
حقیقت یہ تھی کہ نیتاجی سبھاش چندر بوس ملازمتوں یا بھرتیوں میں مسلمانوں کو جس ناانصافی کا سامنا کرنا پڑا تھا اس بارے میں اچھی طرح واقف تھے۔ وہ نیتاجی سبھاش چندر بوس ہی تھے جنہوں نے مسلم اور ہندو فرقہ پرستی کی شدت سے مخالفت کی تھی۔ تریپورہ میں انڈین نیشنل کانگریس کا کنونشن منعقد کیا گیا تھا جس میں سبھاش چندر بوس کو انڈین نیشنل کانگریس کا صدر منتحب کیا گیا لیکن گاندھی نے اصل میں عدم تشدد کی بنیاد پر سبھاش چندر بوس کی مخالفت کی چندر بوس کا رجحان جو آزادی کے لیے پرتشدد طریقوں کی تائید و حمایت کی جانب تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس میں داخلی مخالفت کے باعث بوس نے کانگریس کو خیرباد کہکر بائیں بازو کی حمایت فارورڈ بلاک قائم کرلی جو مغربی بنگال میں ایک طویل عرصہ تک بائیں بازو کی مخلوط حکومت کا حصہ رہی۔ جہاں تک صنعتیانے اور عوامی شعبہ کے مستقبل کا تعلق تھا بوس اور نہرو ایک ہی صفحہ پر تھے۔
سبھاش چندر بوس کی سوانح حیات لکھنے والے لیونارڈ اے گورڈن ان (بوس) کی آئیڈیالوجی یا نظریات کے بارے میں لکھتے ہیں ’’سبھاش چندر بوس کے مطابق ہر شخص کو نجی طور پر اپنی مذہبی راہ اپنانی چاہئے لیکن اسے سیاسی اور دوسرے عوامی مسائل سے جوڑنا نہیں چاہئے۔ اپنے تمام کیریئر میں وہ مسلم رہنمائوں تک رسائی حاصل کی اور ہندوستان کے نام مشترکہ کاز کے لیے ان سے بات کی اور انہوں نے مسلم رہنماؤں سے رابطے کا سلسلہ پہلے اپنے آبائی صوبہ بنگال سے ہی شروع کیا۔ ان کا تصور یا نظریہ یقینا انڈین نیشنل کانگریس کا نظریہ تھا اور وہ نظریہ یہ تھا کہ بلالحاظ مذہب و ملت ذات پات و رنگ ونسل تمام ہندوستانیوں کا مشترکہ کاز بیرونی حکمرانوں سے ملک کو آزادی دلانا تھا۔ ایک جانب گاندھی۔نہرو اور دوسری جانب بوس کے درمیان جو سب سے بڑا اختلافات تھے وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران کانگریس کے کردار پر تھے بعد میں کانگریس نے برطانوی سامراج کے خلاف موقف سخت کیا اور گاندھی نے 1942ء میں ہندوستان چھوڑدو تحریک شروع کی۔ بوس نے زمینی کارروائیوں کے طریقہ کو اپناتے ہوئے یہ سوچا کہ جرمنی۔ جاپان اتحاد میں شامل ہوتے ہوئے ہندوستان کو انگریزوں کے تسلط و حکمرانی سے آمادی دلائی جاسکتی ہے۔ اس وقت حقیقت میں یہ شبہ تقویت پاگیا تھا کہ آیا اتحادی فورسس کے ساتھ اتحاد درست راستہ ہے ان کی کامیابی کی صورت میں ہندوستان جاپان۔جرمنی محور کے کنٹرول میں آسکتا تھا جو ہندوستان کو کئی قدم پیچھے ڈھکیلے گا۔ کانگریس نے انگریزی سامراج کی عوامی تحریک کے ذریعہ مخالفت کی جبکہ سبھاش چندر بوس نے آزاد ہند فوج (AHF) قائم کی۔ ہندوئوں و مسلمانوں کے مذہبی فلسفہ کا وہ کس قدر احترام کیا کرتے تھے اس کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب انہوںنے رنگون میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے مزار پر چادر گل پیش کی۔ بہادر شاہ ظفر 1857ء غدر کے قائد تھے اور انہیں ہندومسلم اتحاد کا مثالی نمونہ سمجھا جاتا تھا۔ مزار ظفر پر حاضری کے موقع پر سبھاش چندر بوس نے ان کی باقیات رنگون سے دہلی لانے اور لال قلعہ میں ان کی تدفین کا عہد کیا تھا۔ دوسری طرف ہندو مہاسبھا شہری سرگرمی کے ساتھ برطانیہ کی جنگی کوششوں کی تائید و حمایت کی اور ہندوستانیوں پر زور دیا کہ وہ برطانوی فوج میں شامل ہوں۔ ساورکر نے اپنے حامیوں پر وار کمیٹی کا حصہ بننے پر زور دیا تاکہ برطانوی حکومت کی حمایت کی جاسکے۔ یہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے ہندومہاسبھا کے لیڈروں کو وار کمیٹی میں شامل کیا۔
ساورکر نے انگریزوں کے خلاف مسلح مزاحمت کی تائید سے بھی انکار کیا اور انہوںنے انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کی مصلح مزاحمت کو صاف طور پر ’’نا‘‘ کہہ دیا۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ نیتاجی سبھاش چندر بوس انگریزوں کے خلاف سرحد پار جنگ کررہے تھے۔ اس وقت ساورکر اور ہندوتوا قوم پرستوں نے برطانوی فوج کی مدد کی جو کسی اور سے نہیں بلکہ سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج کے خلاف لڑرہی تھی۔ ایسے میں یہ دعوی کہ مودی اینڈ کمپنی نیتاجی سبھاش چندر بوس کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ساورکر کی کوشش نیتاجی سبھاش چندر بوس کی تیار کردہ آزاد ہند فوج کے مفادات کے خلاف تھیں اس کے برعکس کانگریس نیتاجی کے طریقہ سے اتفاق نہیں کرتی تھی یہ کانگریس ہی تھی جس نے جنگ کے بعد آزاد ہند فوج کے سپاہیوں کے مقدمات لڑنے میں قانونی امداد کی راہ ہموار کی اور قانونی امداد کو یقینی بنایا۔ آزاد ہند فوج کی جانب سے عدالتوں میں قانونی جنگ لڑنے کے لیے بھولابھائی دیسائی، کیلاش ناتھ، کاٹجو اور نہرو خود سامنے آئے۔
آج جبکہ ہم حکمراں بی جے پی کی جانب سے تمام مسلم ناموں کی تبدیلی کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ AHF میں ہندوستانی اور مسلم نام عام ہیں۔ سبھاش چندر بوس نے سنگاپور میں جو عارضی حکومت قائم کی تھی اسے ’’عارضی حکومت آزاد ہند‘‘ کا نام دیا گیا تھا، آزاد ہند فوج کا نام بھی ان ہی خطوط پر تھا۔
عارضی حکومت آزاد ہند میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ مثال کے طور پر ایس اے ایئر اور کریم غنی دونوں ان لوگوں میں شامل تھے جو حکومت کا حصہ تھے۔ آج ضرورت جذبہ دوستی و ہم آہنگی کی ہے جس کی نیتاجی نے حمایت کی تھی اور یہی جذبہ آزاد ہند فوج میں کارفرما دیکھا جاتا تھا۔