نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا…

محمد مبشر الدین خرم

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلوں کے بعد دنیا بھر میں جاری ہنگامہ آرائیاں اس بات کی غماز ہیں کہ امریکہ سے اٹھنے والا یہ طوفان کوئی غیر منصوبہ بند طوفان نہیں ہے بلکہ اس کی منصوبہ بندی صدیوں پہلے کی جا چکی ہے اور ان منصوبہ بندیوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بہت پہلے حکمت عملی تیار کی جا چکی تھی تاکہ دنیا پر کنٹرول کا خواب دیکھ رہے گروہ کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہواور شیطان کی پرستش کرنے والے دنیا کو اس ڈگر پر لا کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جائیں کہ اپنے سرغنہ کی آمد کو ممکن بنا سکیں۔عالمی حالات کے تناظر میں امریکی انتخابات اور اوباش قسم کے شخص کا صدارت پر فائز ہونا اور اس کے بعد دنیا کے حالات کو تبدیل کرنے کے نام پر منافرت پھیلانے والے اقدامات کئے جانایہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ سازش کا حصہ ہے۔ عالمی سطح پر مسلم دنیا کو یکا وتنہاء کرنے کے علاوہ ان کے گلے میں غلامی کا طوق باقی رکھنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے وہ کوئی معمولی امر نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں حالات کو بگاڑتے ہوئے تباہ کن حالات پیدا کرنے کی کوشش ہے اور ان حالات میں شیطان کی پرستش کرنے والوں کا سرغنہ جب نمودار ہوگا تو اسے نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جانے لگے گاتاکہ لوگ بہ آسانی اس کی پرستش کی جانب راغب ہونے لگ جائیں اور اس کے وجود کے متعلق استفسار نہ کریں بلکہ اپنی لغویات میں محو رہتے ہوئے اسے دنیا کو بدامنی سے نجات دلوانے والے کی حیثیت سے قبول کرنے لگ جائیں ۔اسلامی عقیدہ کے مطابق دنیا کے خاتمہ سے قبل سمندروں میں تلاطم اور زمین میں زلزلوں کی کثرت ہوجائے گی اور احادیث شریفہ میں اس بات کا بھی تذکرہ ملتا ہے کہ جب گناہوں کی کثرت ہونے لگے گی تو آسمان سے بارش کا سلسلہ بند ہوجائے گا ‘ جب بے حیائی عام ہو جائے گی تو زمین لرزنے لگے گی ۔
45ویں امریکی صدر کے من مانی فیصلوں اور امریکہ میں بد امنی کی صورتحال کے بعد بلغاروی نژاد نجومی خاتون ’بابا وانگا ‘ کی پیشن گوئیوں کے چرچے عام ہونے لگے ہیں جو 1996میں کینسر کے مرض میں مبتلاء ہوکر فوت ہوچکی ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ 15ویں صدی کے فرانسیسی نجومی’ نوسٹراڈمس ‘ کی پیشن گوئیاں اور ڈونا لارسن کی پیشن گوئیوں کو بھی بڑھاوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بابا وانگا کو نجومی کی حیثیت سے اسی وقت شہرت حاصل ہوتی ہے جب کبھی صورتحال کو قابومیں کرنے کیلئے یا اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کیلئے توجہ ہٹانی ہوتی ہے۔ 1996میں فوت ہونے والی بابا وانگا کو کاہنہ قرار دیتے ہوئے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ اس نے اپنی موت سے قبل امریکہ کے 44ویں صدر کے سیاہ فام ہونے کی پیشن گوئی کردی تھی اور 2001میں ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے حادثہ کے متعلق بھی وانگا نے اپنی موت سے قبل پیشن گوئی کردی تھی علاوہ ازیں اس نے 2004میں سمندری طغیانی اور بھیانک تباہی کی بھی پیشن گوئی کی تھی ساتھ ہی امریکہ کے مالی بحران کے متعلق بھی بابا وانگا اور نوسٹراڈمس کی پیشن گوئیاں ملتی ہیں۔ بابا وانگا نے 44ویں صدر کو امریکہ کا آخری صدر ہونے کی پیشن گوئی کی تھی اور ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل تک بھی اس پیشن گوئی پر قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں لیکن اب یہ کہا جا رہا ہے کہ با با وانگا کا مطلب یہ تھا کہ 44ویں صدر امریکہ متحدہ ریاست ہائے امریکہ کے آخری صدر ہوں گے۔ان پیشن گوئیوں پرہمارا ایقان نہیں ہو سکتا کیونکہ کاہن سے مستقبل دریافت کرنے اور اس کی باتوں پر یقین رکھنے کی سخت ممانعت ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سازشی گروہ جو دنیا پر شیطان کی حکمرانی  کا متمنی ہے وہ اس ایجنٹ کی پیشن گوئیوں کی تشہیر کے ذریعہ اپنا مقصد پورا کرنے کی کوشش کر رہاہے۔
بابا وانگا پہلی جنگ عظیم لڑنے والے بلغاروی فوجی کی دختر تھی اور اس کے باپ کو سربیا نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد حراست میں لے لیا تھا فوجی گھرانے سے تعلق ہونے کے سبب اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کوئی سیاسی جاسوس رہی ہوں یا اس گروہ سے تعلق رکھنے والی رہی ہوں جو اس طرح کے پروپگنڈہ میں مصروف رہا ہو یا سازشیں تیار کرنے والا ہو۔ بابا وانگا کی پیشن گوئیوں میں یورپ کی آبادی میں کمی اور یوروپ کے بکھرنے کی پیشن گوئی کے ساتھ ساتھ 2010میں ’بہارعرب‘ کے آغاز کی پیشن گوئی اور سرزمین شام میں خانہ جنگی کی صورتحال اور 2016کے اواخر میں اس کے خاتمہ کی پیشن گوئی شامل ہے اور یہ بھی ادعا ہے کہ 2048تک یوروپ مکمل طور پر اسلامی خلافت کے زیر انتظام آجائے گا اور اس کا دارالخلافہ روم ہوگا۔ بابا کی پیشن گوئیوں کو دیکھتے ہوئے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ مسلمانو ںکے حق میں بہتر ہیں لیکن ان کی اس پیشن گوئیوں کے ذریعہ بالواسطہ نفرت پیدا کرنے کی کوشش کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو عالم اسلام سے نفرت کو فروغ دینے کی موجب ثابت ہو رہی ہیں۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے 7مسلم ممالک کے مسلم شہریوں کی امریکہ ہجرت پر 90یوم کی پابندی عائد کرتے ہوئے اپنے اشاروں پر کام کرنے والے ممالک کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیدی جس کے نتیجہ میں کویت نے بھی 5مسلم ممالک کے شہریوں کو ویزا جاری نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ٹرمپ کی اتباع کرنے کا اعلان کردیا۔ان حالات میں دنیا کے ان ممالک کے مسلمانو ںکی حالت مزید ابتر ہوجائے گی جنہیں تیسری دنیا کہا جاتا ہے ۔ امریکہ ‘ کویت میں مسلم ممالک کے شہریوں کے داخلہ پر پابندی کے بعد جو صورتحال پیدا ہو رہی ہے اس سے نمٹنے کے لئے تمام دوست ممالک کو اقدامات کرنے چاہئے لیکن اس کے برعکس کاروائیوں کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ حالات میں سدھار لانے کیلئے کسی عرب گوشہ سے پیش قدمی کی جائے گی۔
امریکی صدر کے بے تکے فیصلوں کی امریکہ میں زبردست مخالفت کی جا رہی ہے اور ان کے مواخذے کے متعلق امریکی شہری جواز تلاش کررہے ہیں اور ایسا کرنا ممکن بھی ہے کیونکہ سابق میں امریکی صدور کا مواخذہ کیا جا چکا ہے جن میں بل کلنٹن بھی شامل ہیں۔ان حالات میں خلیجی ممالک کی جانب سے امریکہ نواز پالیسی اختیار کی جانا ان کے حق میں بہتر نہیں ہوگا مگر خلیجی ممالک جو ایران کی دشمنی میں امریکہ سے قربت اختیار کئے ہوئے ہیں انہیںامریکہ کے ان سخت گیر فیصلوں پر لب کشائی کرنی چاہئے تاکہ دنیا کو اس بات کا پیام دیا جا سکے کہ صدیوں قبل مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی ان سازشوں کا وہ شکار نہیں ہوں گے ۔ مسلم ممالک میں انتشاری کیفیت کا راست فائدہ امریکہ کو یا صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو نہیں ہوگا بلکہ اس کا فائدہ وہ طاقتیں اٹھائیں گی جو مسلمانو ںکو نشانہ بناتے ہوئے انہیں بکھیر دیں گی اور دنیا پر شیطان کی حکمرانی کے خواب کو پورا کرتے ہوئے دنیا میں تاریکی کے دور کی شروعات کو ممکن بنائیں گی۔ کویت کے اقدام کے ساتھ ساتھ آسٹریلیاء اور برطانوی حکومتو ں کے علاوہ حکمراں طبقہ کے ریمارکس کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرنے والے ٹرمپ کے خلاف اہل کتاب عیسائی اور قدامت پسند یہودی کھڑے ہیں اور مسلم کہلانے والے ممالک کے حکمرانوں کے آستینوں میں اب بھی بت پوشیدہ ہیں۔ امریکہ میں جاری حالات خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرنے لگے ہیں اور ان حالات کے متعلق خود امریکی پالیسی ساز پریشان ہیں۔
بابا وانگا اور  نوسٹراڈمس کی پیشن گوئیوں میں بعض مقامات پر یکسانیت دیکھی جاتی ہے جن میں امریکہ کی تباہی اور چین کو 2017میں دنیا کا نیا سوپر پاؤر قرار دیا جانا شامل ہے۔ دونوں نجومی یا سیاسی جاسوس یا جو بھی ہوں دونوں نے اس بات کی پیش قیاسی کی ہے کہ 2016میں چین شدید معاشی بحران سے دوچار ہوگا اور ان حالات سے باہر آنے کے لئے سخت فیصلے کرے گا اور 2017کے اواخر تک چین دنیا کا اگلا سوپر پاؤر بن کر ابھرنے لگے گا ۔ ان کی یہ پیشن گوئی کس حد تک سچ ثابت ہوگی یہ کہا نہیں جا سکتا لیکن اس پیشن گوئی اور چین کی مسلم دشمن پالیسیوں کو یکجا کیا جائے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ چین لادینیت کے معاملہ میں دیگر مذہب کے ماننے والے ممالک سے زیادہ مخالف مسلم ثابت ہوتا جا رہا ہے۔امریکہ کی تباہی اور حالات کی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ خانہ جنگی کی اس صورتحال سے فوری باہر نہ نکلنے کی صورت میں امریکہ تقسیم کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے اور ملک کا فیڈرل نظام تہس نہس ہو سکتا ہے کیونکہ امریکی ریاستیں بے بس نہیں ہیں بلکہ وہ خود کو مختار تصور کرتی ہیں۔ ان حالات میں امریکی فیڈرل نظام کے ذریعہ حالات کو مسلمانو ںپر تنگ کرنے کی کوششوں کے خلاف شروع ہونے والی جدوجہد میں ہر انسانیت نوازشامل ہونے لگا ہے اور وہ ٹرمپ کے فیصلوں اور بیانات کے خلاف کھل کر اظہار خیال کررہاہے۔امریکہ کے داخلی معاملات کا جائزہ لینے پر اس بات کا اندازہ ہوگا کہ امریکہ میں 2001کے دہشت گردانہ حملہ یا فالس فلیگ جو بھی ہو اس کے بعد مسلمانوں میں جو خوف کی لہر پیدا ہوئی تھی اب وہ ختم ہوچکی ہے کیونکہ مسلمانوں کے تحفظ کیلئے وہ لوگ آگے بڑھ رہے ہیںجوٹرمپ کی کامیابی پر داعش کے جشن کا نوشتۂ دیوارکو پڑھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔امریکہ کے حالات کو معمول پر لانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ مسلم ممالک کا وفاق تشکیل پائے اور دنیا میں پیدا ہونے والے اس تیز رفتار تغیر کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ایسا نہ کرنے کی صورت میںدنیا پر شیطانی حکمرانی کا خواب دیکھنے والوں کا محورو منبع یروشلم منتقل ہوجائے گا اوراسی مقصد کیلئے امریکہ کو نااہل قرار دینے کی کوششیں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔
سازشی نظریات ہوں یا پیشن گوئیاں انہیں نظر انداز نہیں کیاجانا چاہئے کیونکہ ان حالات میں اگر خاموش تماشائی بنے رہیں گے تو وہ دن بھی دور نہیں کہ اہل اسلام تعداد میں تو بہت رہیں گے لیکن جھاگ کے برابر ہوک رہ جائیں گے۔امریکہ اپنے فیصلہ کتنے ممالک پر مسلط کرپاتا ہے یہ تو حالات ہی بتائیں گے لیکن اندرونی حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ امریکہ سے امیدیں وابستہ رکھتے ہوئے امریکی غلامی کا ثبوت دینے والے ممالک کویہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اب امریکہ کو اندرون ملک حالات کو قابو میں رکھنے کیلئے اپنے افواج کی ضرورت پڑ سکتی ہے تو وہ ان کے اقتدار کو بچانے کے لئے نہیں آئیں گے بلکہ ان کی تباہی کیلئے سامان تیار کروائیں گے جس طرح شام میں کروایا گیا اور اگلا نشانہ پاکستان اور چین کو بنایا جا سکتا ہے تاکہ دنیا کے سوپر پاؤر کی حیثیت کو برقرار رکھا جا سکے۔امریکہ چین سے الجھنے کیلئے ہندستان کا استعمال کرسکتا ہے بابا وانگا نے ان حالات میں تیسری جنگ عظیم کی پیش قیاسی بھی کی ہے اور کہا ہے کہ ان حالا ت میں ہندستان ‘ اسرائیل‘ روس اور امریکی وفاق ہوگا جن کے ساتھ دیگر ممالک ہوں گے اور چین کے ہمراہ پاکستان اور اس کے تجارتی دوست ممالک ہوں گے۔امریکہ کی موجودہ صورتحال عالم اسلام کے خلاف منظم سازش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش ہے اور ان کوششوں کو عملی طور پر ناکام بنانے کیلئے ضروری ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق دوستیاں بنائیں اور ان سے تعلق ترک کریں جنہیں قرآن نے کھلے ہوئے دشمن قرار دیا ہے ۔امریکہ نے مسلم ممالک پر 90دن کی پابندی کے ذریعہ اپنے حدود میں خود کے خلاف 900محاذ کھول لئے ہیں اور ان محاذوں پر امریکہ کا جمے رہنا دشوار ہے اسی لئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ ذلت و رسوائی کا غصہ دوسرے ممالک کے صدور پر نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا اثر امریکہ کے خارجی تعلقات پر منفی پڑنے کے قوی امکان ہیں۔