نڈر و بیباک شاعر عمران پرتاپ گڑھی قوم و ملت کیلئے تڑپتا ہے جن کا دل

سید جلیل ازہر
اللہ کو جب کام لینا ہے تو چینٹیوں سے کام لینا ہے الہ آباد کے ہندی ودیالہ اسکول میں کھڑے ہوکر ہندی بولتا تھا تو میرے پیر کانپ جاتے تھے۔ آج اللہ کا کرم ہے میں بولتا ہوں تو لوگ کانپ جاتے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ مجھ سے کام لے رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر و مقرر عمران پرتاپ گڑھی کے ہیں جنہوں نے نرمل کے مشاعرہ میں شرکت سے قبل نمائندہ سیاست سید جلیل ازہر کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ اس سے پہلے کے ان کے انٹرویو کو سپرد قلم کروں ایک بات قارئین سیاست کو بتاتا چلوں کہ میں نے کئی ایک شخصیتوں سے انٹرویو لیئے لیکن اس انٹرویو کا دلچسپ پہلو یہ رہا کہ میں نے عمران پرتاپ گڑھی سے صرف ایک ہی سوال کیا وہ یہ کہ آپ کی کم عمری میں شہرتوں نے قدموں میں سر رکھا، عظمتوں نے پیشانی پر بوسہ دیئے۔ آج آپ کو جو شہرت ملی ہے ادب کی دنیا میں کسی شاعر کے حصہ میں ایسی شہرت دیکھنے کو نہیں ملی۔ ایک فلمی اداکار سے زیادہ آپ کا جہاں بھی جانا ہوتا ہے نوجوان جنوں کی حد تک آپ پر ٹوٹ پڑتے ہیں پھر سوال کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی وہی ملک کے حالات پر اس قدر معلومات فراہم کی جو قارئین کے لیے دلچسپی اور توجہ کا باعث بن گئیں۔ تو عمران نے بتایا کہ میں ایک کسان گھرانہ سے تعلق رکھتا ہوں پورے خاندان میں شعر و شاعری نام کا کسی کو شوق نہیں تھا اس کی خاندان میں شروعات مجھ سے ہوئی ۔ مجھ جیسے طالب علم سے اللہ نے مدرسوں پر ایک نظم کہلوائی۔ اللہ کو جب کام لینا ہوتا ہے تو وہ چینٹیوں سے کام لے لیتا ہے۔ آج اگر لوگوں کے دلوں میں بستا ہوں ۔ یہ میرے بزرگوں کی دعائیں عوام کی بے پناہ محبت ہے جنہوں نے عمران کو عمران بنایا ہے اور اللہ کا کرم ہے وہ مجھ سے کام لے رہا ہے فرقہ پرست طاقتیں ملک میں نفرتوں کے بیج بورہی ہیں۔ وقت برا ہے اگر ہم خاموش رہے تو آنے والی نسلوں کو کیا جواب دیں گے۔ اب خاموشی سے کام چلنے والا نہیں ہے۔ عمران نے واضح انداز میں کہا کہ جس قوم کو اپنا ماضی پتہ نہیں ہوتا وہ قوم اپنا مستقبل طے نہیں کرسکتی۔ آج ملک میں چند مٹھی بھر فرقہ پرست ذہنیت کے حامل اقتدار کی گدیوں پر بیٹھے ملک کے سکیولرازم کو تارتار کرنے کی منصوبہ بندی میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے ماحول میں میں جس صوبہ میں آیا ہوں وہاں کا قائد یہ کہتا ہے کہ ہمیں عید نہیں منانی ہے۔ ہم کیوں عید نہیں منائیں نفرتیں کہاں آگئی ہیں ایسے ماحول میں عمران خاموش نہیں بیٹھا بلکہ کھلے عام یہ کہا کہ
ہم جھوٹی آنکھ ان کو سہائے بھی نہیں ہے
اچھا ہے وہ یہ بات چھپائے بھی نہیں ہے
سنتے ہیں کہ صاحب کو ہے تکلیف عید سے
ابلیس کبھی عید منائے بھی نہیں ہے
غور کریں کہ آج ملک کی سیاست کہاں آگئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک میں سکیولر لوگوں کی کمی ہے۔ میں سینہ ٹھوک کر کہہ سکتا ہوں کہ ملک میں 90 فیصد لوگ ابھی بھی سکیولرازم کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ ملک کی تاریخ کرکرے صاحب کو نہیں بھلا سکتی اس ملک میں معصوم سے پھول جیسی کم سن آصفہ کے ساتھ درندگی کا ننگاناچ دنیا نے دیکھا اور احتجاجیوں کو بھی دیکھا کہ کس قدر جذباتی ہوکر ہمارے شانہ بہ شانہ ہندو بھائیوں بہنوں نے اس احتجاج میں شامل ہوکر انسانیت کی مثال قائم کی جب میں بھی اس تحریک میں شامل ہوا تو نوجوانوں میں حوصلہ بڑھا اور میں نے یہ شعر کہا
دائرے میں سمٹ کے آیا ہے
ہر روایت سے ہٹ کے آیا ہے
آندھیوں کو ذرا خبر کردو
شیر واپس پلٹ کے آیا ہے
یہ بڑے شرم کی بات ہے وجئے مالیا ملک سے فرار ہوجاتا ہے اور عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہوئے عالیشان ہوٹلوں میں زندگی گزاررہا ہے۔ ملک کے وزیراعظم ہیں کہ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی میں شاعر ہوتے ہوئے بھی آج عوام کی آواز بن کر بے خوف و خطر بول رہا ہوں
سمندر نفرتوں کا اور لاشوں کا سفینہ ہے
ہتھیلی خون سے رنگی ہے ماتھے پہ پسینہ ہے
سیاست کس قدر انسان کو بے شرم کرتی ہے
وہ چھاتی ٹھوک کے کہتا ہے چھپن انچ سینہ ہے
ملک میں فرقہ پرستی بہت تیزی سے پر پھیلارہی ہے۔ یہ منظر ہر آنکھ دیکھ رہی ہے۔ میں جب نجیب کی ماں سے ملا تو اس کے بہتے ہوئے آنسوئوں میں کیوں نہ جانے میری امی کے آنسو نظر آئے میں اپنی شخصیت اور اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھا اور مجھ سے بحیثیت شاعر جو ہوسکا میں ساری دنیا میں اپنی نظم کے ذریعہ اور احتجاج کے ذریعہ کوشش کی کہ اس ماں کو اس کا بیٹا مل جائے۔ آخر کہاں جارہا ہے یہ ملک ؟ ایسا لگ رہا ہے
پیار کی اور امن کی ہر ذہنیت خطرہ میں ہے
اب تو سپریم کورٹ کی بھی اہمیت خطرہ میں ہے
یہ بھی جنتا کی عدالت میں ججوں نے کہدیا
آج اپنے ملک کی جمہوریت خطرہ میں ہے
آج ہمارا ملک کیسا کیسا منظر دکھا رہا ہے۔ ایک شخص ہے جو دوربین لے کر ہوائی جہاز میں سوار ہورہا ہے اس لیے تاکہ اوپر جاکے دیکھ سکے کہ دنیا کا کونسا ملک بچ گیا ہے گھومنے کے لیے یہ حال ہے جبکہ ایک طرف کسان خودکشی کررہا ہے۔ خودکشی کررہا ہے کسان مگر ان کو دوروں سے کہاں فرصت ہے۔جی تو کہتا ہے چیخ کر کہہ دوں ایسی سرکار تجھ پر لعنت ہے۔ اور برے فخر سے اچھے دن لانے کی بات کررہے ہیں کیا خوب اچھے دن لائے جارہے ہیں۔ آج عوام یہی چاہ رہی ہے۔
محبت بھائی چارے کے دیوانے دن ہی لوٹا دو
وہ سستی دال سبزی کے سہانے دن ہی لوٹا دو
یہ اچھے دن تو امبانی کو مبارک ہو
ہمیں ایسا کرو صاحب پرانے دن ہی لوٹا دو
ہم سب نے ایسا ہی منظر دیکھا ہے۔ وہ پڑوس جاتے ہیں تو نواز شریف کی ماں کے پائوں چھوکر چلے آئے اچھا لگتا ہے کہ ہندوستان کی تہذیب کو دنیا کے سامنے رکھ رہے ہیں اور امریکہ جاتے ہیں تو فیس بک کے آفس میں جاکر کہ اپنی ماں کو یاد کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے چلو شکر ہے کہ ان کے اندر ایک دل بھی ہے جو کہیں نہ کہیں معصوم احساسوں پر دھڑکتا بھی ہے لیکن میں ان سے بہت محبت سے ایک بار کہنا چاہتا ہوں پردھان منتری جی اس دیش میں مائیں اور بھی ہیں۔ اور پوچھنا چاہتا ہوں
فضاء میں اڑ رہے زہریلے جگنو کیوں نہیں دکھتے
کسی بھی حادثہ کے سارے پہلو کیوں نہیں دکھتے
جو ماں کو یاد کرکے پردیس آنسو بہاتا ہے
اسے اخلاق کی امی کے آنسو کیوں نہیں دکھتے
عمران کو اللہ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعہ اشاروں میں قارئین کو وہاں تک پہونچانے کا فن جانتے ہیں کہ سننے والا بہ آسانی سمجھ جاتا ہے کہ وہ کس کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ایک ابھیان چلایا جارہا ہے کہ کچرا اکٹھا کیا گیا اس کے بعد اخبار والوں اور فوٹو گرافرس بلائے گئے دوسرے دن اخبار کی سرخیوں میں ’’سوچھ بھارت‘‘۔ ٹھیک ہے صاحب آپ جو کررہے ہیں وہ اچھی بات ہے لیکن میرے بھی اپنے کچھ درد ہیں عوام کے بھی کچھ درد ہیں اداکاریوں کو آج ہر کوئی سمجھ رہا ہے اظہار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی لیے میں نے یہ شعر کہا ہے۔
کسی بھی مولوی سے یا سادھو سے نہ چھوٹے گا
مداری کے کسی کرتب سے جادو سے نہ چھوٹے گا
صفائی کررہے ہو تو ذرا دامن کی بھی کرلو
ہمارے خون کا دھبہ ہے جھاڑو سے نہ چھوٹے گا
آخر میں عمران نے کہا کہ میں پہلو خان، اخلاق اور نجیب کے گھر گیا ہوں نجیب کی ماں کی سسکیاں اب بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں۔ اس ماں کی کیفیت کو یاد کرتا ہوں تو تڑپ جاتا ہوں۔ ہر ایک سے گزارش کرتا ہوں کہ اللہ سے نجیب کے حق میں دعا کریں۔ نہ جانے کس بندہ کی دعا قبول کرتے ہوئے نجیب کو اپنی ماں کے پاس واپس بھیج دے۔ انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ مسلک کی دنیا سے باہر آئیں کیوں کہ پانچ سال پہلے کا منظر ذہن میں رکھیں اس ماحول کو یاد کریں تبدیلیوں کے لیے ہمیں حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پورے ہندوستان کو سمجھنا پڑے گا۔
لہر کے خوف سے معصوم ساحل بیٹھ جائیگا
خبر ایسی ہے جس کو سن کر یہ دل بیٹھ جائیگا
مسلمانوں تبرک کی طرح گر ووٹ بانٹو گے
تو پھر دلی کی اس گدی پر قاتل بیٹھ جائیگا
عمران نے ملک کے حالات کے تناظر میں اتحاد پر کافی زور دیا اور کہا کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں کسی سکیوریٹی کی ضرورت نہیں کیوں کہ اللہ رب العزت کی نگاہ کرم ہی میرا تحفظ ہے اور آپ لوگوں کی بے پناہ محبت نے مجھے حوصلہ بخشا ہے اسی لیے آج ملک کے ہر حصہ میں جہاں بھی جاتا ہوں حق گوئی کے لیے کسی بھی طاقت کے آگے مرعوب نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ عوام کو اشعار کے ذریعہ یہ پیام دے دیا۔
غلط امیدیں پال رکھی تھی مودی جی کے پیار سے
منہ میں رام بغل میں چھری والے کاروبار سے
چار سال تک آرکشن کے نام پر للی پاپ دیا
حکومت چھین لیجیے اس جھوٹی سرکار سے