یشونت سنہا
وزیر اعظم نریندر مودی نے 8 نومبر 2016 کی رات ملک میں اچانک نوٹ بندی کا اعلان کیا جس کے تحت 500اور 1000 روپئے کے کرنسی نوٹوں کے استعمال کو منسوخ قرار دیا گیا۔ اس وقت ماہرین اقتصادیات نے مودی حکومت کے اقدام کی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے اسے انتباہ دیا تھا کہ یہ اقدام تباہ کن ثابت ہوگا ۔ اب تک جن ملکوں میں بھی نوٹ بندی نافذ کی گئی وہ ناکام رہی لیکن مودی کا اس وقت یہی کہنا تھا کہ 50 دن میں حالات بہتر ہوجائیں گے اور اگر 50 دنوں میں حالات بہتر نہ ہوں تو انہیں سولی پر لٹکایا جائے۔ مودی کے اکثر وعدوں کی طرح نوٹ بندی بھی ناکام رہی۔ زائد از 150 مرد و خواتین جن میں ضعیف العمر لوگوں کی اکثریت تھی بینکوں اور اے ٹی ایمس کے باہر کھڑے کھڑے فوت ہوگئے۔ نوٹ بندی دراصل مودی کا بہت خراب اقدام تھا ریزرو بینک آف انڈیا کے کئی سینئر عہدیداروں اور سابق گورنر آر بی آئی مسٹر رگھو رام راجن نے بھی نوٹ بندی کی شدید مخالفت کی تھی ان کا دعویٰ تھا کہ نوٹ بندی سے فائدہ کی بجائے نقصانات ہوں گے اور ایسا ہی ہوا۔ نوٹ بندی تو حکومت نے نافذ کردی لیکن اس پر موثر انداز میں عمل آوری نہ کرنے کی آر بی آئی کو جاری کردہ ہدایت میں حکومت نے بار بار تبدیلیاں کروائیں۔ ان میں مسلسل ترمیمات کی گئیں جن سے نوٹ بندی کے جو مقاصد تھے وہ فوت ہوگئے ۔ اس تعلق سے حکومت کو بھی اچھی طرح اندازہ ہے۔ وہ جانتی ہے کہ نوٹ بندی کا جن مقاصد کیلئے نفاذ عمل میں آیا تھا وہ بالکلیہ طور پر ناکام رہی۔ تاہم آر بی آئی کی حال ہی میں جو سالانہ رپورٹ آئی ہے وہ بقول سابق وزیر فینانس یشونت سنہا وہ ناکام نوٹ بندی سے متعلق عمل کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی ہے ۔ نوٹ بندی نافذ کئے 22 ماہ کا عرصہ گذر چکا ہے اس کے باوجود ملک نوٹ بندی کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکا۔ آر بی آئی نے اپنی سالانہ رپورٹ میں واضح طور پر انکشاف کیا ہے کہ 500 اور 1000 کی جن کرنسی نوٹوں کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی تھی ان میں سے 99فیصد کرنسی نوٹ بینکوں کے ذریعہ آر بی آئی کو واپس آگئی ہیں۔ اس طرح صرف 10,720 کروڑ روپئے کی شکل میں موجود 500 اور 1000 روپئے کی منسوخ شدہ کرنسی واپس نہیں ہوئی۔ نیپال میں جو ہندوستانی کرنسی زیر گشت ہے اسے بھی ہنوز شمار نہیں کیا گیا۔ حد تو ہے کہ سنٹرل کوآپریٹیو بینکوں میں جمع 1000 اور 500 کی منسوخ شدہ کرنسی نوٹوں کی گنتی نہیںکی گئی۔ اس میں احمد آباد کی وہ ڈسٹرکٹ کوآپریٹیو بینک بھی شامل ہے جس کے ڈائرکٹر امیت شاہ ہیں اور اس بینک میں نوٹ بندی کے ابتدائی 5 دنوں میں 745 کروڑ روپئے جمع کروائے گئے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ریزرو بینک آف انڈیا نے نوٹ بندی کے ابتدائی پانچ دن کے بعد اچانک ڈسٹرکٹ کوآپریٹیو بینکوں میں کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کی سہولت ختم کردی۔ آر بی آئی کے اس اچانک اقدام پر کئی ایک سوال اٹھا ئے گئے کہ آخر ڈسٹرکٹ کو آپریٹیو بینک احمد آباد میں اس قدر کثیر رقم جمع کروانے کے بعد ہی ڈسٹرکٹ کو آپریٹیو بینکوں میں کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کی سہولت کیوں برخواست کی گئی۔ 8 نومبر کو وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم سے اپنے خطاب میں بتایا تھا کہ وہ کرپشن، بلیک منی اور دہشت گردی جیسی برائیوں کے خاتمہ کیلئے نوٹ بندی نافذ کررہے ہیں۔ ہندوستان کی بھولی بھالی عوام نے اس پر بھروسہ کیا ان لوگوں نے مودی کے اس بیان پر یقین کرلیا کہ مودی حقیقت میں کرپشن ، بلیک منی اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ’’ نوٹ بندی ‘‘ نافذ کررہے ہیں۔ لیکن بعد میں عوام کو جو تکلیف ہوئی اس سے انہیں احساس ہوگیا کہ مودی حکومت نے خواہ مخواہ عوام کو پریشان کردیا۔ اس وقت مودی نے جو خطاب کیا تھا اس خطاب کا تجزیہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے10 مرتبہ کرپشن، 17 مرتبہ بلیک منی، دو مرتبہ جعلی کرنسی اور دہشت گردی جیسے الفاظ کا 5 مرتبہ استعمال کیا۔ حکومت نے سپریم کورٹ میں داخل کردہ حلف نامہ میں یہ تسلیم کیا تھا کہ صرف 3 تا4 لاکھ کروڑ روپئے واپس نہیں ہوں گے لیکن اس کا حلف نامہ آر بی آئی کی سالانہ رپورٹ سے بالکل غلط ثابت ہوا۔ دوسری جانب احمد آباد کی ڈسٹرکٹ کوآپریٹیو بینک میں زائد از 745کروڑ روپئے جمع کروانے کا معاملہ ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کے دوستوں کو بلیک منی وائیٹ منی میں تبدیل کرنے کیلئے نوٹ بندی نافذ کی گئی اور کرپشن بلیک منی جعلی کرنسی اور دہشت گردوں کو مالیہ کی فراہمی روکنے کے مقاصد صرف اور صرف اس تمام معاملہ کے ذریعہ عوام کے جذبات کے استحصال کیلئے بنائے گئے اور عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے اس طرح کے دعوے کئے گئے۔ دوسری طرف وزارت فینانس کا دعویٰ تھا کہ اس تمام ایکسرسائیز کا مقصد ملک کے عوام کو ٹیکس کے تابع بنانا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مودی حکومت نے 500اور 1000 کی کرنسی نوٹ بند کئے لیکن 2000 کی کرنسی نوٹ متعارف کروائی اب تو یہ حال ہے کہ جس قدر کثیر تعداد میں 2000 کے کرنسی نوٹ پرنٹ کئے گئے تھے ان میں سے 35 فیصد نوٹ بازار سے غائب ہیں یعنی گشت میں نہیں ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان نوٹوں کو زمین نگل گئی یا آسمان کھاگیا۔ انہیں کیوں اور کس نے غائب کیا۔ حکومت کے اس احمقانہ عمل سے ہندوستانی معیشت کو جو نقصان ہوا ہے اس کا ابھی تک پوری طرح اندازہ نہیں لگایا گیا ہے۔ نوٹوں کو ابھی گنا جانا باقی ہے اور یہ دونوں کام شائد آنے والی حکومت کو کرنا پڑے گا۔ ورلڈ بینک کے مطابق نوٹ بندی کے دو ماہ بعد ہندوستانی معیشت میں 7.3 فیصد کی مندی آئی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے نوٹ بندی نافذ کرنے کے بعد کہا تھا کہ وہ عوام سے صرف 50یوم طلب کرتے ہیں تاکہ اس اسکیم کے موثر و مثبت نتائج برآمد کئے جاسکیں۔ اگر اس میں وہ ناکام ہوجائیں تو وہ کسی بھی چوراہا پر خود کو عوام کے حوالے کردیں گے۔ عوام انہیں جو چاہے سزا دے سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی میں ہنوز ہمارا یقین ہے اس لئے مودی کے ساتھ ایک چوراہا پر انصاف نہیں کیا گیا بلکہ ان کا فیصلہ تو عوام مجوزہ لوک سبھا انتخابات میں کریں گے۔ یہ مضمون سابق وزیر اور بی جے پی کے سابق لیڈر یشونت سنہا کا ہے جنہوں نے1998-2002 ملک کے وزیر فینانس کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں۔ 2002-2014 وہ وزیر خارجہ بھی رہے۔