صابر علی سیوانی
نوبل انعام دنیا کا سب سے بڑا اور اہم ترین انعام تصور کیا جاتا ہے ۔ یہ انعام جس ملک کے حصے میں آتا ہے وہ خود کو خوش نصیب تصور کرتا ہے، لیکن اس انعام میں بھی اب مصلحت پسندی شامل ہوگئی ہے ۔ یہ انعام اب سیاست کا شکار ہوچکا ہے ۔ سائنس ، معاشیات اور ادب کے شعبے کے علاوہ دیگر شعبوں میں دیا جانے والا یہ انعام کسی نہ کسی طرح مصلحت پسندی کی نذر ہوچکا ہے ، خصوصاً نوبل امن انعام ۔ نوبل انعامات حاصل کرنے کے سلسلے میں ہندوستان دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی پیچھے ہے ۔ چھوٹے چھوٹے ممالک اس انعام کو حاصل کرنے میں ہندوستان سے آگے ہیں ۔ کم و بیش 20 برسوں کے بعد نوبل امن انعام اس بار ہندوستان کے کھاتے میں آیا ہے اور کیلاش ستیارتھی کو ملالہ کے ساتھ مشترکہ طور پر نوبل امن انعام دیا گیا۔ یہ انعام اوسلو (ناروے) میں دیا گیا ۔ وہ بچہ مزدوری کو ختم کرنے کے لئے جد و جہد کررہے ہیں ۔ انھوں نے انجینئرنگ کا اپنا بنا بنایا کیریئر ختم کرکے خود کو پورے طور پر بے سہارا ، مجبور اور بچہ مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کردیا ۔ برسوں کی ان کی محنت رنگ لائی اور دنیا نے انھیں پہچانا ، ان کی خدمات کو سراہا اور انھیں 2014 کے نوبل امن انعام کا مستحق قرار دیا گیا ۔ دوسری طرف پاکستان کی ملالہ یوسف زئی کو بھی بچوں میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے کی کوششوں کے صلے میں انھیں بھی کیلاش ستیارتھی کے ساتھ مشترکہ طور پر نوبل امن انعام کا اہل قرار دیا گیا ، لیکن یہاں ایک سوال ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ آرہا ہے کہ پاکستان کے عبدالستار ایدھی کو امن کا نوبل انعام کیوں نہیں دیا گیا ؟جبکہ وہ اس انعام کے لئے ملالہ سے کہیں زیادہ مستحق تھے بلکہ انھیں تو یہ انعام برسوں قبل مل جانا چاہئے تھا ۔ کیونکہ وہ پاکستان کے مدر ٹریسا کہلاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نوبل امن انعام کے سلسلے میں لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہورہے ہیں بلکہ ملالہ کو امن کا نوبل انعام ملنے پر بعض حلقوں میں حیرت کا بھی اظہار کیا جارہا ہے ۔
جہاں تک ہندوستان کو نوبل انعامات سے نوازے جانے کا سوال ہے تو ہندوستان کو اس معاملے میں ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ۔ آیئے ایک نظر اس پر ڈالتے ہیں کہ آخر ہندوستان کے ساتھ نوبل انعام کے سلسلے میں امتیاز کیوں برتا جاتا ہے ؟ سوال یہ ہے کہ کیا اولمپک انعامات اور نوبل انعامات کو بھی حیثیت اور مقام کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے ؟ پہلی نظر میں لگتا ہے کہ یہ بڑا بیکار سا کا سوال معلوم ہوتا ہے ، لیکن گزشتہ تین دہائیوں کی مسلسل اسٹیڈیز اور بار بار آئے ایک جیسے اعداد و شمار کی تکرار یہ باور کراتی ہے کہ بات چاہے تمغوں کی ہو یا انعامات کی ، کہیں نہ کہیں حیثیت کا کھیل ہر جگہ موجود رہتا ہے ۔ یہ بلاوجہ نہیں ہے کہ چھوٹے چھوٹے ممالک مثلاً برطانیہ ، فرانس ، اٹلی ، جاپان کا اثر ہندوستان سے زیادہ ہے ۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ ہماری حیثیت ہے ۔اس کی وجہ ہماری معیشت کی غیر یقینی صورتحال ہے اور اب جیسے جیسے ہماری حیثیت اور معیشت میں اضافہ ہورہا ہے ، شاید اسی کے پیش نظر ہمارے کھاتوں میں تمغے اور انعامات بھی آنے لگے ہیں ۔ بہرحال یہ نتیجہ اتنا خوش کن بھی نہیں ہے ۔ دنیا کے بیشتر ممالک ایسے ہیں جن کی معاشی حیثیت ہندوستان کے مقابلے بہت کمزور ہے ، لیکن اولمپک اور نوبل انعامات کے اکھاڑے میں وہ ہندوستان پر ہمیشہ بھاری پڑتے رہے ہیں ۔ بات چاہے پولینڈ کی ہو ، ہنگری کی ہو ، بلجیم کی ہو یا اسپین کی ۔ ان میں سے کسی بھی معیشت کا مقابلہ ہندوستان کے معاشی نظام سے نہیں کیا جاسکتا ۔ فی کس آمدنی کے معاملے میں بازی ان کے ہاتھ جاتی ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ کلیہ ایسا نہیں ہے کہ جو ملک جتنا معاشی طور پر مضبوط ہوگا ، اس کے کھاتے میں اتنی ہی تعداد میں اولمپک میڈلس اور نوبل انعامات آئیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہیتی ، جمائیکا ، کیوبا جیسے ممالک کے کھاتے میں کبھی کوئی اولمپک میڈل نہیں آتا ،کیونکہ دنیا کے معاشی تناظر میں ان کا شمار نہیں ہے ۔ لیکن ایک سے بڑھ کر ایک اتھلیٹ اور مکے باز انھوں نے ہی پیدا کئے ہیں ۔
خیر! معاملہ اس کے برعکس بھی کوئی خوش کن نہیں ہے ، یعنی جس ملک کی معیشت بہت اچھی ہے یہ ضروری نہیں کہ وہاں یہ میڈلس بھی زیادہ تعداد میں آئے ہوں ۔ پھر یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہے کہ جن ملکوں کی معاشی حالت مستحکم ہے ، کم سے کم نوبل انعامات کے معاملے میں تو ویسے ہی ثروت مند لگتے ہیں ۔ مثلاً امریکہ کو اب تک 350 نوبل انعامات مل چکے ہیں ۔ امریکہ کی اگر دنیا کے ہر شعبے میں چودھراہٹ ہے تو یوں ہی نہیں ہے۔ اس کے پاس کم و بیش نصف یوروپ کے برابر نوبل میڈلس ہیں ۔ یوروپ کے سب سے تابندہ حصے یوروپی یونین کے اگر تمام نوبل انعامات کو جوڑیں تو ان کی تعداد 462 ہے ، جو تنہا امریکہ سے تھوڑے ہی زیادہ ہیںیعنی امریکہ کے مقابلے یوروپی یونین 112میڈلس زائد کا مالک ہے۔ اگر سائنس کے شعبے میں انعامات کی بات کی جائے تو بھی امریکہ کا جلوہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ صرف سائنس کے شعبے میں امریکہ کو 317 نوبل انعامات ملے ہیں ۔ یہاں بھی یوروپی یونین کے کم و بیش مساوی ہے ۔ جبکہ یوروپی یونین میں ایک نہیں بلکہ 16 ممالک شامل ہیں ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ درخشاں یوروپ کے 16 ممالک بھی مل کر امریکہ کی برابری بمشکل کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ایسے میں بھلا امریکہ کی دھاک نہ جمے تو کیا ہو ؟ امریکہ کے بعد آج کی تاریخ میں حالانکہ دوسرے نمبر کی معاشی حیثیت (جی ڈی پی کے لحاظ سے) چین کی ثابت ہورہی ہے ۔ لیکن اس کے اکاونٹ میں کل 8 نوبل انعامات ہی ہیں ۔ اس نظریئے یا اس آئینے میں آتے آتے تجزیہ فیل ہوجاتا ہے ، لیکن گہرائی سے دیکھیں تو پھر بھی اس کے حق میں گنجائش بنتی ہے ۔ دو بنیادی باتیں اس سلسلے میں کہی جاسکتی ہیں ۔ موجودہ وقت میں چین پیداوار کے معاملے میں دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اس نے پیداوار کی تکنیک کتنی فروغ دی ہے ؟ شاید نہ کے برابر ۔ آج کے عہد میں جسے تکنیک کا عہد کیا جاتا ہے ، اس میں 99 فیصد ٹکنیکس امریکہ اور یوروپ میں ہی پروان چڑھی ہیں ۔ ایسے میں انھیں کی تکنیکوں سے سیکھ کر بھلے ہی چین بڑا پیداوار کنندہ ہب بن گیا ہے ، لیکن بنیادی اور سرفہرست ہونے کا جو مخصوص اختیار ہے ، وہ امریکہ اور یوروپ کے پاس ہی محفوظ ہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہی کمزوری ہندوستان کے کھاتے میں جاتی ہے ۔
آج ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ سافٹ ویئر انجینئرس پیدا کررہا ہے ، اگر اس پر غور کریں تو آج کی سافٹ ویئر انجینئرنگ تکنیک میں کوئی ہماری حصہ داری ہے اور نہ ہی کمپیوٹر تکنیک میں ۔ ہم محض اسمبلی لائن کے پروٹوٹائپ مزدور یا تھوڑے مہذب لفظوں میں کہیں تو کلرک ہی پیدا کررہے ہیں ۔ اس لئے تمام سافٹ ویئر انجینئروں کے باوجود ہندوستان کو کمپیوٹر یا انفارمیشن ٹکنالوجی کے شعبے میں نہ کھلاڑی مانا جاتا ہے اور نہ ہی مانا جاسکتاہے ۔ ایمان داری سے دیکھیں تو نوبل انعامات کے ساتھ بھلے ہی سازشیں ، جانبداری کی تمام کہانیاں دلچسپ ہوں گی ، لیکن شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو یہ کہنے کی ہمت کرے کہ جن لوگوں کو خاص کر سائنس کے شعبوں میں نوبل انعامات حاصل ہوئے ہیں ، وہ اس کے لائق نہیں تھے ۔ ہاں امن انعامات کے معاملے میں تھوڑے گھپلے ، تھوڑی جانبداری ، تھوڑی سازش ، تھوڑی سیاست ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ لیکن جہاں علم کی چمک اور مسابقت کا معاملہ ہے ، وہاں نوبل پرائز کسی کم تر آدمی کو نہیں ملا ۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ نوبل انعام جیتنے والے ممالک کی فہرست میں انہی ممالک کا جلوہ موزوں دکھائی دیتا ہے ، جن ممالک کی علم اور سائنس میں اپنی شناخت ہے ۔ جرمنی ، فرانس ، برطانیہ ، سوئٹزرلینڈ ، اٹلی ، آسٹریلیا ، کناڈا ، سویڈن ، نیدر لینڈ ، جاپان ، روس انہی ممالک کو سائنس کے شعبے میں سب سے زیادہ نوبل انعام ملے ہیں ۔ کیا کوئی ملک سائنس اور تکنیک کے شعبے میں ان ممالک کے رول کو نظر انداز کرسکتا ہے ۔
حالانکہ حیثیت کوئی سائنسی اصطلاح نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ تمام اگر ، مگر کی گنجائش نہیںہے ۔ لیکن مجموعی طور پر حیثیت اور مقام کے پیچھے علم ، دولت اور اقدار کی جو چمک ہوتی ہے ، وہ چمک کہیں نہ کہیں نتیجہ بھی دیتی ہے ۔ اس لئے جو ملک حیثیت کے معاملے میں اہمیت رکھے گا ، اولمپک اور نوبل انعامات کی فہرست میں بھی اس کا جلوہ نظر آئے گا ، اور اس کی برتری دکھائی دے گی ۔ بشرطیکہ اس کی حیثیت اقدار پر مبنی ہو ، حاشیہ بردار ہونے کی نہ ہو ۔ اس لئے ہندوستان اور چین کو اگر نوبل انعامات کے پوڈیم میں کھڑا ہونے کا اس طرح موقع نہیں ملتا جیسے یوروپین اور امریکیوں کو ملتا ہے ، تو اس کے پیچھے صرف اور صرف اقرباء پروری یا جانبداری نہیں ہے ۔ ہاں ، اولمپک میں دھاک جمانے اور برتری حاصل کرنے کے لئے بنیادی طور پر مشینی جذبے اور معاشی حیثیت ہی معنی رکھتی ہے ۔ اس لئے اس اکھاڑے میں چین بڑے بڑوں کو چت کرچکا ہے اور اب تو وہ سب کو شکست دے کرسب سے اوپر براجمان ہونے کے بالکل قریب ہے ۔ لیکن اس معاملے میں ہندوستان کی حصہ داری افسوسناک حد تک کم ہے ، آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ دوسری اہم بات یہ کہ کیلاش ستیارتھی کو جب نوبل امن انعام کا مستحق قرار دیا گیا ، تب ہندوستان کی توجہ ان پر مبذول ہوئی ۔ ہندوستان کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ جب کسی کی ناقابل فراموش خدمات مغربی دنیا تسلیم کرتی ہے ، تب ہمارے ملک کو اس شخص کی اہمیت اور حصولیابیوں کا احساس ہوتا ہے ۔ اس کی ایک مثال امرتیہ سین بھی ہیں۔ یہ ملک صلاحیتوں ، خدمات اور اہل علم و فن کی قدر کرنے اور انھیں ان کا مقام عطا کرنے کے لئے مغربی دنیا کا انتظار کرتا ہے کہ پہلے وہ تسلیم کرے اس کے بعد ہم اسے قابل اعتنا گردانیں گے ۔ کیا یہ ہمارے ملک کا المیہ نہیں ہے ؟
mdsabirali70@gmail.com