محمود شام، کراچی (پاکستان)
سب سے پہلے تو معذرت کہ پچھلے ہفتے آپ سے بات نہ ہوسکی۔ الیکشن ہورہے تھے، بڑے کانٹے دار اسی روز الیکشن تھے۔ جب آپ سے مخاطب ہوتا ہوں آپ تک پوری کہانی پہنچا نہیں سکتا تھا۔ اس لیے بہتر یہی لگا کہ ناغہ کرلوں۔ امید ہے آپ معافی دے دیں گے۔
آپ تو جمہوریت اور الیکشن کے عادی ہیں۔ ہمارے ہاں درمیان میں فوجی بوٹوں کا وقفہ آتا رہا ہے۔ یہ الیکشن اس لیے تاریخی تھے کہ ایک خالصتاً سیاسی منتخب حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کئے۔ خود ہی الیکشن کا اعلان کیا۔ پھر ساری پارٹیوں سے مل کر الیکشن اور الیکشن کمیشن کے لیے جو آئینی ترامیم کی تھیں کہ درمیان میں نگراں حکومت کیسی ہوگی؟ الیکشن کمیشن کو کتنے اختیارات ہوں گے؟ ان سب کی پابندی کی۔ اب پر امن طریقے سے جیتنے والی پارٹی کو اقتدار منتقل ہورہا ہے۔ ویسے تو ہمارے ہاں 1988 سے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی باریاں لگی ہوئی ہیں۔ ایک جاتی ہے تو دوسری آتی ہے۔ 1988 سے 1990 تک پی پی پی۔ بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں۔ 1990 سے 1993 پی ایم ایل این۔ میاں نوازشریف۔ 1995 بینظیر بھٹو۔ 1997 میاں نواز شریف۔ 1998 میں انہوں نے ایٹمی دھماکے کیے۔ 1999 میں انھوں نے جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرنے کی کوشش کی تو فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔ وہ 2008 میں گئے۔ 2008 سے 2013 پی پی پی ۔ باری بھی اسی کی تھی۔ جو پرویز مشرف نے سنبھال رکھی تھی۔ اب باری پی ایم ایل این کی تھی۔ لیکن ایک اور دعویدار آگئے۔ عمران خان۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ باریاں ختم کروں گا۔ لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ ویسے وہ ایک متبادل قیادت بن کر آگئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں 30 کے قریب سیٹیں لے کر وہ نئی سیاسی قوت بن گئے ہیں۔ اور خیبر پختونخواہ میں وہ صوبائی حکومت بھی بنا رہے ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ مسلم لیگ (نواز) قومی اسمبلی میں 125 سیٹیں لے کر سب سے بڑی پارٹی ہے۔ آزاد ارکان بھی زیادہ تر اسی میں شامل ہورہے ہیں۔ 173 کی مطلوبہ تعداد یعنی سادہ اکثریت خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے حاصل ہونے کے بعد مل جائے گی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کو قطعی اکثریت مل گئی ہے۔ یہاں صوبائی حکومت اس کی ہوگی۔ بلوچستان میں ملی جلی حکومت ہوگی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) پشتونخواہ ملی پارٹی کے ساتھ مل کر بنا رہی ہے۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں لیگ (ن) کو قطعی اکثریت حاصل ہے۔ اس الیکشن نے پاکستان کو سیاسی، لسانی، نسلی اور ذہنی بنیادوں پر مزید تقسیم کردیا ہے۔ سب صوبوں سے کسی ایک پارٹی کو یکساں نمائندگی نہیں ملی ہے۔ پنجاب کا غلبہ رہے گا۔ پنجاب سے پہلے ہی چھوٹے صوبوں کو شکایتیں رہی ہیں۔ اس الیکشن میں سب سے زیادہ دھچکا پی پی پی کو لگا ہے کہ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اس کو کوئی سیٹ نہیں مل سکی ہے۔ یہاں بالکل صفایا ہوگیا ہے۔ صوبائی اسمبلی میں صرف 6 سیٹیں ہیں۔ ایسا پہلے بھی 1996 میں پی پی پی کے ساتھ ہوچکا ہے۔ لیکن اس بار اس لیے تشویشناک ہے کہ پانچ سال تک پاکستان میں حکومت رہی۔ مقبولیت کے بجائے اس نے پنجاب میں نفرت کمائی ہے۔
مسلم لیگ نواز کی کامیابی کا بھارت میں بہت خیرمقدم کیا گیا ہے۔ کیوں کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات چاہتی ہے۔ وزیراعظم واجپائی ان کے دور میں بس سے آئے۔ کارگل کے مسئلے پر نوازشریف ایک کمیشن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بمبئی کے بم دھماکوں جیسے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن بھارت میں ان کی یہ پذیرائی پاکستان کے کئی حلقوں میں تشویش سے دیکھی جارہی ہے۔ نوازشریف نے ایک بھارتی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اپنی حلف برداری کی تقریب میں بھارتی وزیراعظم کو شرکت کی دعوت دینگے۔ بھارتی حکومت نے اس دعوت کو مسترد کردیا۔ بعد میں نوازشریف کے ایک ترجمان نے بھی کہا کہ میاں صاحب نے ایسی کوئی دعوت نہیں دی، نہ ہی پاکستان میں ایسی کوئی روایت موجود ہے۔
عام تاثر یہ ہے کہ 2014 میں امریکہ کو افغانستان سے اپنی فوجیں واپس لے جانا ہے اور قیمتی فوجی سازوسامان بھی۔ پاکستان سب سے سستا اور آسان راستہ ہے۔ کنٹینرز حفاظت سے بندر گاہوں تک پہنچ جائیں۔ اس میں میاں نواز شریف زیادہ موثر اور مدد گار ثابت ہوں گے، کیوں کہ ان سے طالبان کے اچھے تعلقات ہیں۔ طالبان نے اے این پی، پی پی پی اور ایم کیو ایم کے جلسوں اور انتخابی دفاتر کے قریب بم دھماکے کئے، لیکن نواز شریف اور عمران خان کے جلسوں جلوسوں میں ایسا نہیں کیا اور نہ ہی ان دونوں کو دھمکی دی۔ اس لیے خیبر پختونخواہ میں عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہورہی ہے۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ انہیں بھارت کی پسند بھی قرار دیا جارہا ہے۔ کیوں کہ اس خطے سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد بھارت کو یہاں کا چارج دیا جائے گا۔ دلچسپ اور عجیب صورتِ حال یہ ہے کہ پنجاب جہاں سے پاکستانی افواج کو زیادہ سپاہی اور افسر ملتے رہے ہیں اور جو ہمیشہ فوج کا ہم آواز رہا ہے۔ وہاں اکثریت ایسی جماعت کو ملی ہے جو فوج کی پالیسیوں پر سب سے زیادہ تنقید کررہی ہے۔
اس لیئے امریکی تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ اس بار نواز شریف فوج سے تعلقات بہتر کریںگے۔ وہ اپنے دوسرے دور میں ایک آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے استعفٰی لے چکے ہیں۔ دوسرے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے پنگا لے چکے ہیں۔ اس بار دیکھئے کہ وہ اپنے آپ پر قابو کر پاتے ہیں یا نہیں۔ انہیں چیف جسٹس اور عدلیہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ ان کی نا اہلی 10 سال بعد انہوں نے ختم کی۔ پھر کئی مقدمات میں مسلسل ریلیف ملتا رہا ہے۔ اس بار الیکشن عدلیہ کی مکمل نگرانی میں ہوئے ۔ آزاد میڈیا بھی ان کے ساتھ ہے، بلکہ ان کے معاملے میں جانبدار رہے۔ سب سے بڑا میڈیا گروپ جنگ ، جیو بھی ان کا ہم نوا رہا ہے۔ اتنے اچھے ساز گار ماحول میں انہیں حکومت چلانے کا موقع مل رہا ہے۔ لیکن چیلنج بہت خطرناک ہیں۔ دہشت گردی، معاشی بد حالی، توانائی کی شدید قلت، آئی ایم ایف سے معاملات، غیر ملکی قرضے، بڑھتی ہوئی کرپشن۔امید ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم ہو گی دونوں ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ اگر آپ کچھ اور بھی جاننا چاہتے ہیں تو پلیز فون کریں یا ای میل کریں۔ میں بخوشی آپ کو جواب دونگا۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:92-3317806800