نواب میر عثمان علی خاں و عثمانیہ یونیورسٹی پر ایک نظر

حلیم بابر
سلطنت آصف جاہی اپنے اندر گونا گوں صفات رکھتی تھی ۔ جہاں انصاف و رواداری کے پھول کھلتے تھے جس کی مہکتی خوشبوؤں سے سارے عوام فیض یاب ہوتے تھے۔ طویل برسوں تک یہ حکومت قائم رہی اور یہ طویل مدت زائد از دو سو سال تک چلتی رہی ۔ آخری فرمانروا نواب میر عثمان علی خاں تھے جنہیں ساتویں حکمراں کی حیثیت حاصل رہی۔ ان کا دور حکومت 1911 ء تا 1948 ء تک کا ہے۔ اس طرح 27 برس کی یہ حکومت عوام کی نظروں میں بہت محترم و معتبر بنی جس کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے ۔ ان کی حکومت میں حیدرآباد ، تلنگانہ کے علاوہ مرہٹواڑہ اور کرناٹک کے اضلاع بھی شامل تھے جس کا راست تعلق حیدرآباد  نظام حکومت سے تھا ۔ ان مقامات کی زبانیں اپنے اپنے اعتبار سے یعنی مرہٹواڑہ میں مرہٹی ، کرناٹک میں کنڑی اور تلنگانہ میں تلگو رہی ہے ۔ مگر ان تین ریاستوں کی سرکاری زبان اردو ہی تھی ۔
نواب میر عثمان علی خاں 5 اپریل 1886 ء حیدرآباد میں پیدا ہوئے ۔ والدہ محترمہ کا نام امتہ الزہرہ  تھا اور جنہیں مادرِ دکن کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔ نظام ہفتم 24 سال کی عمر میں محبوب علی بادشاہ کے جانشین بنے ۔ ابتداء میں مولانا انواراللہ فضیلت جنگ جیسے نامور اہل علم درین کی زیر سرپرستی تعلیم حاصل کرتے رہے ۔ انہیں اردو کے علاوہ فارسی ، عربی میں بھی مہارت حاصل تھی ۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ عالیہ و نظام کالج میں علم کے زینے طئے کرنے کا شرف حاصل ہوا ۔ نواب میر محبوب علی خان فرمانروا بھی ایک اچھے شاعر تھے ۔ انہیں فصاحت جنگ جلیل ہفتم مانکپوری جیسے عظیم المرتبت استاد و شاعر سے تلمذ حاصل رہا اور وہ شاعری میں اپنے دلنواز و معتبر انداز سے اظہار خیال کرتے جو اہل علم و ادب میں بڑی قدر سے دیکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔ نظام دارالکحومت میں تعمیر کردہ عظیم عمارتیں آج بھی فن تعمیر کا خوبصورت نمونہ پیش کرتی ہیں۔ ان کی تعمیر میں ان بادشاہوں نے خصوصی توجہ دی ۔ اس دور کی آبادی کی مناسبت سے سڑکوں اور آبرسانی کے معیار کو بھی آگے بڑھایا گیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کی بڑھتی ہوئی آبادی کی بناء یہ سڑکیں تنگ ہوگئی ہیں اور جس کی کشادگی ضروری ہے اور اس کیلئے حکومت اقدامات کر رہی ہے ۔ اس دور حکومت میں راجاؤں و مہاراجاؤں کو جاگریں عطا کی گئیں۔ بڑے بڑے عہدوں سے بھی نوازا گیا ۔ جو تاریخ دکن میں بڑی وسیع النظری اور رواداری کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس دور حکومت میں شعبہ تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی۔ مختلف مقامات پر اسکولس تعمیر کئے گئے اور بالخصوص حصول اعلیٰ تعلیم کیلئے یونیورسٹی کا قیام عوام کیلئے بہت فائدہ مند رہا ۔ یہاں سے بے شمار طلباء و طالبات نے اعلیٰ تعلیم حاصل کیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں اپنا اور اس عثمانیہ یونیور سٹی کا نام روشن کر رہے ہیں۔ نظام ہفتم کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اس یونیورسٹی کو عثمانیہ یونیورسٹی کا نام دیا گیا ۔ یہ یونیورسٹی کا قیام 1918 ء عمل میں آیا ۔ اس کو ایک مثالی اور خوبصورت عمارت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ۔ جو آج بھی ایک بہترین نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس یونیورسٹی میں حیدرآباد کے تلنگانہ کے علاوہ مرہٹواڑہ اور کرناٹک کے بے شمار تمام مذاہب کے حامل طلباء و طالبات نے تعلیم حاصل کی اور آج تک بھی یہ سلسلہ قائم ہے ۔ ایک وہ زمانہ تھا جہاں تمام مذاہب کے لوگوں کو مکمل آزادی تھی کہ اپنے اپنے اصولوں کے لحاظ سے عبارت کرتے تھے اور جہاں فرقہ پرستی دور دور تک نظر نہیں آئی تھی۔ مگر بڑے کرب سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کے اس پر آشوب و تنگ نظر دور میں فرقہ واریت مختلف انداز سے نئے علم ڈھا رہی ہے۔ جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ۔

بہرحال اس دور کے مقبول و نامور حکمراں نظام ہفتم میر عثمان علی خاں کا دور حکومت 1948 ء میں ختم ہوا جبکہ مسلمانوں پر پولیس ایکشن کے نام سے ا یک قیامت صغریٰ نے قتل و خون کا بازار گرم کیا ۔ معصوم و بے گناہوں کی زندگی ہی تباہ ہوگئیں ۔ نہ جانے اس مقبول انصاف پسند و رواداری کی حامل حکومت  کیسے نذر بد لگ گئی کہ اس کا شیرازہ بکھر گیا۔ حضور نظام کا وصال ان دردناک حالات  کو سہتے ہوئے چند سال بعد 24 فروری 1967 ء کو ہوا اور ان کی تدفین مسجد جودی عمل میں آئی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی چند ہندو بزرگ احباب جو بقید حیات ہیں ، وہ اس دور حکومت کی ستائش کرتے ہیں کہ وہاں زندگیوں کو سکون و چین حاصل تھا۔ ہندوستان آزاد ہوا ۔ جمہوریت اپنا سکہ چلا رہی ہے مگر عوام کا سکون و چین جیسے رخصت ہوگیا ہے، کسی کو بھی سکون کی زندگی حاصل نہیں ہے۔ بہرحال دانشورانِ ملت قابل تحسین ہے کہ وہ کوشش تو کر رہے ہیں کہ بھائی چارگی قائم ہو ۔ فرقہ واریت دور ہوجائے اور اس کے چند اچھے نتائج بھی نکل رہے ہیں۔ مضمون کے اس اختتامی مرحلہ میں نظام ہفتم نواب میر عثمان علی خاں کو زبردست خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے کہ انہوں نے اپنے اس طویل دور حکومت میں رواداری کا دامن نہیں چھوڑا ۔ ان حکمرانوں کا کہنا تھا کہ ہندو ایک آنکھ اور مسلم ایک آنکھ کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ اس عہد پر مکمل پابندی کرتے رہے۔ حضور نظام جو ایک اچھے شاعر تھے اور جن کا نمائندہ کلام آج بھی بعض رسائل و اخبارات میں شائع کیا جاتا ہے اور اس طرح سے ان حکمرانوں کی یاد دلوں کو جہاں مسرور کرتی ہے وہیں دلوں کو تڑپا بھی دیتی ہے ۔ مگر اس کرب و تڑپ کو اپنے سینوں کے اندر ہی دفن کرلیا جاتا ہے ۔ جہاں تک عثمانیہ یورنیورسٹی کی صد سالہ تقاریب کا ا نعقاد بہ عنوان جشن حکومت کے زیر غور ہے، وہ عنقریب یہ یونیورسٹی ایک صدی مکمل کرے گی ۔ ایک طویل مدت تک اس یونیورسٹی نے بے شمار طلباء وطالبات کو علم کے اعلیٰ درجوں سے نوازا ہے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا جشن شایان شان منایا جائے ۔ معتبر ذرائع سے اس بات کا انکشاف ہوا کہ حکومت تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر جنہیں حیدرآباد ی تہذیب و تمدن سے بے حد لگاؤ ہے اور جو قدیم عثمانیہ یونیورسٹی کے سو سال مکمل کرنے پر ایک عظیم الشان جشن کا انعقاد عمل میں لانے والے ہیں ۔ یقیناً اس طرح کا اقدام نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ غیر معمول کیلئے بھی فخر و خوش کا باعث ہوگا ۔ اس خصوص میں یہ جان کر مسرت ہوئی کہ یونیورسٹی کی جانب سے کے سی آر کو اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی جانے والی ہے جو یقیناً ایک مستحسن اقدام ہے ۔ اس خصوص میں کمیٹیاں بھی تشکیل دی جانے والی ہیں اور اس طرح ان کمیٹیوں سے وابستہ دانشوران ملت و اہل علم احباب کے مشوروں سے اس یونیورسٹی کے صد سالہ جشن کو مثالی اور یادگار بنایا جائے گا اور تاریخ تلنگانہ میں اس اقدام کو تاریخی و دستاویزی اہمیت دی جائے گی ۔ اس موڑ پر تمام اہل علم و دانشواران ملت بلا لحاظ مذہب و ملت اس بات کی اپیل کرتے ہیں کہ عثمانیہ یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب کو بہتر سے بہتر بنایا جائے۔ اس یونیورسٹی سے مستفید ہونے والوں میں نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب کے بھی لوگ شامل ہیں۔