ڈاکٹر سید داؤد اشرف
سابق ریاست حیدرآباد یا مملکت آصفیہ میں بیرون ریاست سے آنے والی شخصیتوں میں بہت کم شخصیتیں نواب عماد الملک بہادر کی طرح محترم اور منفرد رہی ہیں۔ سالار جنگ اول (دور وزارت عظمیٰ 1853 ء تا 1883 ء) نے اپنی اصلاحات کے نفاذ کے سلسلے میں بیرون ریاست سے پڑھے لکھے ، قابل اور تجربہ کار اشخاص کو طلب کیا تھا ۔ سالار جنگ اول کے بعد بھی ریاست میں باہر سے آنے والوں کا سلسلہ جاری رہا۔ بڑی بڑی شخصیتیں حیدرآباد آئیں لیکن ان میں سے اکثر شخصیتوں نے اپنی ناپسندیدہ سرگرمیوں کی وجہ سے حکمرانِ وقت کو ناراض کیا اور نتیجتاً انہیں حیدآباد چھوڑنا پڑا لیکن عمادالملک کو ہمیشہ اپنے کام سے کام رہا ۔ انہوں نے حکمران اور ریاست کی بہتری اور مفاد کیلئے خدمات انجام دیں اور تادم مرگ پوری عزت اور احترام کے ساتھ حیدرآباد میں رہے ۔ انہیں کئی اعلیٰ خطابات اور اعزازات دیئے گئے اور اس طرح ان کی خدمات کا اعتراف اور ان کی شخصیت کو خراج پیش کیا گیا ۔
نواب عماد الملک کا اصل نام سید حسین بلگرامی تھا ۔ وہ 1842 ء میں صاحب گنج (گیا) میں پیدا ہوئے ۔ ان کا تعلق بلگرام کے ایک ممتاز و معزز سادات گھرانے سے تھا ۔ ان کے والد سید زین الدین حسین خان اور چچا سید اعظم الدین خان بہار میں تعلقدار اور ناظم عدالت جیسے اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ سید حسین بلگرامی نے عربی و فارسی کی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ بعد ازاں وہ انگریزی مدارس میں شریک کروائے گئے ۔ انہوں نے میٹرک ، انٹر اور بی اے کے امتحانات میں درجہ اول میں کامیابی حاصل کی ۔ کالج کی تعلیم مکمل کرنے تک انہیں عربی اور انگریزی دونوں زبانوں پر عبور حاصل ہوگیا تھا اور دونوں زبانوں کا صحیح اور اعلیٰ ذوق رکھتے تھے ۔ انہیں ذاتی قابلیت اور خاندانی اثرات کی وجہ سے کوئی بھی اعلیٰ سرکاری ملازمت مل سکتی تھی لیکن انہوں نے سرکاری ملازمت کی بجائے لکھنو کے کیننگ کالج کے شعبہ عربی میں ملازمت کو ترجیح دی ۔
ریاست حیدرآباد کے مدارالمہام (وزیراعظم) سالار جنگ اول کے طلب کرنے پر وہ حیدرآباد آئے ۔ حیدرآباد آنے پر وہ سالار جنگ سے وابستہ ہوئے اور 1883 ء میں سالار جنگ کے انتقال تک ان کے پرسنل اسسٹنٹ اور پرائیویٹ سکریٹری جیسی اہم خدمتوں پر فائز رہے ۔ وہ حکمراں ریاست میر محبوب علی خان آصف سادس کے بھی پرائیویٹ سکریٹری رہے ۔ آصف سادس نے انہیں اپنے فرزند اور ریاست کے ولیعہد میر عثمان علی خان کا اتالیق مقرر کیا تھا اور انہوں نے ساڑھے چھ سال تک یہ فرائض انجام دیئے ۔ ان کی لیاقت اور اعلیٰ صلاحیتوں کی بناء پر انہیں ریاست حیدرآباد میں اہم ذمہ داریاں سونپی جاسکتی تھی لیکن ان کی دلچسپی اور ایماء پر انہیں ناظم تعلیمات کے عہدہ پر فائز اور برقرار رکھا گیا جہاں سے وہ 1906 ء میں وظیفہ حسن خدمت پرسبکدوش ہوئے ۔ درحقیقت ریاست حیدرآباد میں ان ہی کے دور نظامت سے تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ریاست حیدرآباد میں تعلیم کی ترقی و اشاعت میں ان کی خدمات فراموش نہیں کی جاسکتیں۔
ریاست حیدرآباد میں ان کی اہم خدمات کے اعتراف میں انہیں نواب علی یار خان بہادر موتمن جنگ ، عماد الدولہ اور عماد الملک کے خطابات عطا کئے گئے ۔بیرون ریاست بھی ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کا اعتراف کیا گیا ۔ وہ انڈین لیجسلیٹیو کونسل اور یونیورسٹی کمیشن کے رکن بنائے گئے ۔ 1907 ء میں وہ انڈیا کونسل کے رکن مقرر ہوئے ۔ یہ ہندوستان کے پہلے مسلمان تھے جنہیں یہ اعزاز دیا گیا ۔ وہ بلند پایہ عالم تھے اور عالموں کی قدر کرتے تھے ۔ انہوں نے متعدد علمی کاموں کی تکمیل کیلئے یا خود مالی مدد کی یا دوسرے سے مدد دلوائی۔ وہ کتابوںا ور علم کی قدر دانی میں بڑی شہرت رکھتے تھے ۔ طالب علمی ہی کے دور سے ان میں مطالعہ کا شوق تھا جو ساری زندگی ان کا محبوب مشغلہ رہا ۔ کتب خانہ آصفیہ اور دائرۃ المعارف ان کی علمی قدردانی اور علم دوستی کی یادگار ہیں۔ ان کی اردو اور انگریزی تصانیف میں قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ سب سے اہم اور قابل قدر کارنامہ سمجھا جاتا ہے ۔ عماد الملک اپنی صاف گوئی ، اخلاقی جرات ، نیک نیتی اور دیگر اہم خوبیوں کی وجہ سے بڑے امتیازی مقام کے حامل رہے ۔ حکمراں ریاست ، امرائے عظام، وزراء ۔ غرض سب ہی عماد الملک کا بڑا پاس و لحاظ کرتے تھے ۔ بیرونی ریاست سے آنے والے مشاہیرین شاید ہی کسی اور شخصیت نے عماد الملک کی طرح نیک نامی ، عزت اور اعزاز حاصل کیا ہو۔ عماد الملک نے حیدرآ باد میں ز ائد از نصف صدی فعال ، سرگرم ، سودمند اور موثر زندگی گزاری ۔ اُن کا 1926 ء میں انتقال ہوا اور وہ یہیں پیوند خاک ہوئے ۔
راقم الحروف نے چند سال قبل مرحوم سید ہادی بلگرامی سے ایک ملاقات کے دوران ریاست حیدرآباد کی مایہ ناز اور جلیل القدر شخصیت نواب عماد الملک بہادر کے بارے میں گفتگو کی تھی ۔ مرحوم ہادی بلگرامی عماد الملک کے پوتے اور مہدی یار جنگ کے بڑے فرزند تھے ۔ میری یہ خوش قسمتی تھی کہ مجھے ایک ممتاز اور معتبر شخصیت سے عماد الملک کے بارے میں مستند معلومات حاصل ہوئیں۔ ہادی بلگرامی نے ابتدائی تعلیم سینٹ جارجس گرامر اسکول میں حاصل کی اور انگلستان کی لیورپول یونیورسٹی سے بی اے ، ایل ایل بی کی تکمیل کی۔ وہ اپنی سرکاری ملازمت کے دوران میں محکمہ تعلیمات کے ڈپٹی سکریٹری اور آندھراپردیش اسٹیٹ آرکائیوز کے ڈائرکٹر بھی رہے۔
ہادی بلگرامی نے اپنے دادا عماد الملک کے بارے میں جو معلومات اور اپنے تاثرات بیان کئے تھے ، اس گفتگو کا خلاصہ درج ذیل ہے ۔
سالار جنگ اول ریاست حیدرآباد کے نظم و نسق میں وسیع پیمانے پر اصلاحات نافذ کر رہے تھے اور انہیں نئے نظم و نسق کو سنبھالنے کیلئے قابل اور باصلاحیت افرار کی تلاش تھی ۔ وہ 1872 ء میں لارڈ نارتھ بروک ، وائسراے ہند سے ملنے ، کلکتہ گئے تھے ۔ وہاں سے واپس ہوتے ہوئے وہ چند روز کیلئے لکھنو میں ٹھہرے جہاں ان سے جن اعلیٰ عہدیداروں اور شہر کی اہم شخصیتوں کا تعارف کروایا گیا ، ان میں سید حسین بلگرامی بھی شامل تھے ۔سالار جنگ مردم شناس تھے ۔ انہوں نے پہلی ملاقات میں ہی نوجوان سید حسین بلگرامی کی لیاقت اور قابلیت کو بھانپ لیا اورانہیں حیدرآباد آنے کی دعوت دی ۔ سید حسین بلگرامی چند وجوہ کی بناء پر حیدرآباد نہیں آئے ۔ سالار جنگ اول نے کچھ عرصہ کے بعد انہیں اصرار کے ساتھ حیدرآباد طلب کیا ۔ وہ 1873 ء میں حیدرآباد آئے مگر لکھنو کی ملازمت سے تین مہینے کی رخصت لے کر یہاں ان پر سالار جنگ نے ایسی عنایات کیں اور اس درجہ قدر افزائی کی کہ وہ یہیں کے ہوکر رہ گئے ۔
انگریزوں نے 1853 ء میں ریاست حیدرآباد کا زرخیز علاقہ برار زبردستی چھین لیا ۔ اس علاقہ کے چھن جانے کا ریاست کے حکمراں ، امراء اور عوام سب ہی کو سخت رنج تھا ۔ سالار جنگ نے برار کے علاقہ کو واپس حاصل کرنے کیلئے سخت جدوجہد کی ۔ برار کا حصول ان کی زندگی کا مشن بن گیا ۔ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ ہادی بلگرامی نے بتایا کہ سالار جنگ برار سے متعلق حکومت برطانوی ہند سے جو مراسلت کرتے تھے وہ بڑی اہم نوعیت کی ہوتی تھی ۔ برار سے متعلق مراسلت سالار جنگ کے سکریٹری اولی فینٹ اور جوائنٹ سکریٹری عماد الملک کے ذ مہ تھی ۔ اولی فینٹ جب انگریزوں کے معتوب ہوئے توانہیں حیدرآباد چھوڑنا پڑا ۔ اس کے بعد برار سے متعلق ساری مراسلت عماد الملک کرتے تھے ۔
سالار جنگ اول عماد ا لملک کے بڑے قدرداں تھے۔ وہ عماد الملک پر کامل اعتماد کرتے تھے اور ان کے مشوروں پر عمل کرتے تھے ۔ ہادی بلگرامی نے بتایا کہ عقیل جنگ (عماد الملک کے فرزند) اور یوسف علی خان سالار جنگ سوم (سالار جنگ اول کے پوتے) کہا کرتے تھے کہ عماد الملک نے سالار جنگ اول کو شیروانی پہننے کا مشورہ دیا تھا ۔ اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے سالار جنگ اول نے شیروانی پہننی شروع کی ۔ اس کے بعد حیدرآباد میں شیروانی کا استعمال عام ہوگیا ۔ ہادی بلگرامی نے بیان کیا کہ اچھی اور معیاری کتابوں کی خریدی عماد الملک کا شوق اور مشغلہ تھا ۔ وہ ہر روز کافی وقت کتابوں کے مطالعہ میں صرف کرتے تھے ۔ وہ قدیم اور نایاب کتابوں کے نسخے بھاری قیمت یافتہ مانگے دام ادا کر کے خریدا کرتے تھے ۔ ایک سے زیادہ بار ایسا ہوا کہ انہوں نے چند نایاب قلمی مضامین کو بھاری قیمتوں پر خریدنے کی تجویز متعلقہ وزیر یا وزیر اعظم کے پاس روانہ کی ۔ مجوزہ قیمت کو زیادہ اور غیر واجبی سمجھ کر یا موازنے میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے اس تجویز کو نامنظور کیا گیا ۔ عماد الملک نے یہ کتابیں مجوزہ دام میں خود خرید لیں ۔
عماد الملک کا علمی مرتبہ بہت بلند تھا ۔ اس کا اندازہ ہادی بلگرامی کے بیان کردہ اس واقعہ سے کیا جاسکتا ہے کہ علامہ شبلی نعمانی اپنی تصنیف الفاروق کا مقدمہ عماد الملک سے لکھوانا چاہتے تھے ۔ چنانچہ انہوں نے عماد الملک سے اپنی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا مگر عماد ا لملک ان دنوں علیل تھے ، اس لئے انہوں نے شبلی نعمانی سے معذرت چاہی ۔ ہادی بلگرامی نے بیان کیا کہ ایک انگریز نے عماد الملک کو ایک مکتوب لکھا تھا جس میں اس نے درخواست کی تھی کہ عماد الملک اسکاٹ لینڈ کی مشہور درسگاہ ایڈنیرا یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدہ پر اس کے تقرر کے لئے سفارش کریں۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ نہ صرف ریاست حیدرآباد اور غیر منقسم ہندوستان بلکہ بیرون ممالک میں بھی عماد ا لملک کے نام کا چرچہ تھا اور علمی معاملات میں ان کی رائے کو بڑی وقعت حاصل تھی۔
عماد الملک اپنی اولاد کو بہت چاہتے تھے۔ وہ اپنے تمام بیٹوں اور خاص کر دختر طیبہ بیگم سے ہمیشہ بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے ۔ عماد الملک کی اولاد بھی ان کا بڑا احترام و ادب کرتی تھی ۔ عماد الملک اپنی اولاد کی تربیت ہدایتوںاور نصیحتوں کے علاوہ اپنے عمل کے ذریعہ بھی کیا کرتے تھے ۔
عماد الملک ہمیشہ سچ بولتے تھے اور اپنی اولاد کو بھی سچ بولنے کی نصیحت کرتے تھے۔ ہادی بلگرامی نے عماد الملک کے فرزند عابد نواز جنگ کا ایک واقعہ بیان کیا کہ عابد نواز جنگ کی وظیفے پر سبکدوشی کے بعد آصف سابع نے اپنے دونوں شہزادوں اعظم جاہ بہادر اور معظم جاہ بہادر کو شام کے وقت پڑھانے کی پیشکش کی ۔ عابد نواز جنگ شام میں مئے نوشی کے عادی تھے ۔ اس لئے انہوں نے اپنی عادت اور مجبوری کو بیان کرتے ہوئے معذرت چاہی ۔ ہادی بلگرامی عابد نواز جنگ کی صاف گوئی اور حقیقت بیانی کو عماد الملک کی تربیت کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔
عماد الملک صاف گوئی کیلئے بڑی شہرت رکھتے تھے ۔ انہوں نے ا کثر حقیقت بیانی سے کام لیتے ہوئے وہ تمام فائدے گنوادیئے جو انہیں حاصل ہوسکتے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ آصف سابع ایک بار اپنے معتمد پیشی سرامین جنگ سے ناراض ہوگئے اور انہوں نے عماد الملک کو لکھا کہ وہ امین جنگ کی جگہ ان کے فرزند محمد ہاشم کا تقرر کرنا چاہتے ہیں۔ آصف سابع کے معتمد پیشی کی خدمت ریاستی نظم و نسق میں بڑی بااختیار اور نہایت اہم خدمت تھی اور شاید کوئی اور اس خدمت کی پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کرتا لیکن عماد الملک نے جواب دیا کہ ان کے فرزند اس خدمت کے اہل نہیں ہیں ۔ امین جنگ ہی کو اس خدمت پر بحال رکھا جائے تو مناسب ہوگا ۔ آصف سابع نے ایک اور موقع پر عماد الملک کو لکھا کہ وہ عقیل جنگ (عماد الملک کے فرزند) کو کوتوال شہر مقرر کرنا چاہتے ہیں ۔ اس دور میں کوتوال ، شہر کا سب سے زیادہ مقتدر اور بااختیار عہدیدار ہوتا تھا لیکن عماد الملک نے لکھ بھیجا کہ عقیل جنگ اس عہدہ کے اہل نہیں ، ان کے بجائے اس خدمت پر کسی اور کو مامور کیا جائے ۔
ہادی بلگرامی نے عماد ا لملک کی راست گوئی اور اخلاقی جرأت کے سلسلے میں یہ واقعہ بیان کیا کہ آصف سابع راپنے دو نوجوان شہزادوں کے ساتھ بمبئی گئے تھے ۔ عماد الملک بھی ساتھ تھے ۔ وہاں ایک موقع پر آصف سابع نے کسی بات پر دونوں شہزادوں کو نہایت سختی سے ڈانٹا ۔ ایسی سخت ڈانٹ عماد الملک کو بری لگی اور انہوں نے فوراً آصف سابع کو ٹوک دیا ۔ اس وقت آصف سابع سخت برہم تھے لیکن عماد ا لملک کے ٹوکنے پر خاموش ہوگئے ۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ عماد الملک کسی بھی نامناسب بات پر حکمراں وقت کو بھی بلا جھجک ٹوک دیتے اور بلا خوف صاف گوئی سے کام لیتے تھے ۔
ہادی بلگرامی نے یہ واقعہ بھی بیان کیا کہ ایک روز میر محبوب علی خان آصف سادس نے دربار میں موجود مصاجبوں اور اعلیٰ سرکاری عہدیداروں سے دریافت کیا تھا کہ رعایا کی ان کے بارے میں کیا رائے ہے ۔ وہاں موجود تقریباً تمام حضرات نے کہا کہ رعایا آصف سادس کو عالی دماغ ، مدبر ، کارواں ، رحم دل اور فیاض سمجھتی ہے۔ اس موقع پر عماد الملک خاموش تھے ۔ آصف سادس نے کہا کہ آپ نے کچھ نہیں کہا ۔ عماد الملک نے جواب دیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ شراب پی کر پڑے رہتے ہیں، کام کی طرف بالکل توجہ نہیںدیتے جس کی وجہ سے ریاست کا نظم و نسق بگڑ رہا ہے ۔ ایسا کہنے پر دربار میں سناٹا چھا گیا اور آصف سادس فوراً اندر چلے گئے ۔ سب کو اس بات کا خدشہ تھا کہ عماد الملک پر سخت عتاب نازل ہوگا ۔ دوسرے روز آصف سادس نے عمادالملک کو طلب کیا اور کہا کہ انہیں سب کے سامنے ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا ۔ عماد الملک نے جواب دیا کہ آصف سادس نے سب کے سامنے رائے طلب کی تھی ۔ اگر وہ سب کے سامنے ایک بات کہتے اور خلوت میں دوسری تو یہ جھوٹ اور منافقت ہوتی ۔ آصف سادس کی بند مٹھی میں الماس تھا ۔ انہوں نے مٹھی کھولی اور عماد ا لملک کو ا لماس عطا کیا ۔ آصف سادس کا عطا کردہ الماس عماد الملک کے پاس سے چوری ہوگیا تھا ۔ چور نے الماس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے تھے ۔ الماس کے وہ ٹکڑے بازار سے حاصل کئے گئے اور ایک ٹکڑے سے عماد الملک نے انگوٹھی بنوائی تھی ۔
ہادی بلگرامی نے دوران گفتگو اس خیال کا اظہار کیا کہ عماد الملک وسیع النظر ، روشن خیال ، فراخدل اور وسیع المشرب تھے ۔ انہوں نے تقررات اور مستحق افراد کو امداد دینے اور دلوانے میں کبھی مذہبی تنگ نظری سے کام نہیں لیا ۔ اس بارے میں مولوی عبدالحق نے بھی ایسے ہی خیالات کااظہار کیا ہے ۔ چنانچہ وہ اپنے مضمون مطبوعہ نقوش شحصیات نمبر میں لکھتے ہیں ’’سر رشتہ تعلیمات بہت وسیع محکمہ ہے اور سینکڑوں آدمیوں کا تقرر ان کے ہاتھ میں تھا لیکن انہوں نے کبھی مذہبی پاسداری سے کام نہیں لیا ۔ اس معاملے میں وہ بہت فراخدل تھے ۔ بعض عیسائی مشنریوں اور دوسرے غیر اسلامی اداروںکو جو اشاعت تعلیم کا کام کر رہے تھے وقتاً فوقتاً مدد دیتے تھے ‘‘۔