سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد دعاء فرماتے تھے یا نہیں ۔ اگر دعاء کرتے تو صحابہ آمین کہتے تھے یا نہیں ؟ سلام پھیرنے کے بعد دعاء کا مسئلہ کیا ہے ؟
محمد محبوب ، سعید آباد
جواب : تفسیر در منشور 6/364 میں ’’سورہ انشراح ‘‘ کی آیت ’’فاذا فرغت فانصب و الی ربک فارغب‘‘ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے منقول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب آپ نماز سے فارغ ہوجائیں تو اللہ سے دعاء کیجئے اور اپنے رب کی طرف راغب رہیں۔
اور تفسیر ابن جریر 12/628 میں حضرت قتادہ سے منقول ہے کہ ’’فاذا فرغت‘‘ جب آپ نماز سے فارغ ہوجائیں تو فانصب دعاء میں مبالغہ کیجئے ۔
امام بخاری نے تاریخ کبیر (6/80) میں حضرت مغیرہ سے نقل کیا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد دعا فرمایا کرتے تھے ۔
ترمذی شریف کی روایت میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کس وقت کی دعاء زیادہ قبول ہوتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، رات کے آخری حصہ میں اور فرض نمازوں کے بعد مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد ’’اللھم انت السلام و منک السلام تبارکت یا ذالجلال والاکرام‘‘ کہنے کی مقدار میں وقفہ دیتے تھے ۔
پس فرض نماز کے بعد دعاء ماثورہ ’’اللھم انت السلام و منک السلام تبارکت یاذالجلال والاکرام‘‘ کی مقدار دعاء مانگنے تک ٹھہرنے کا حکم ہے ، اس کے بعد سنت کیلئے کھڑے ہوجانا چاہئے ۔ فرض کے بعد جس قدر وظائف احادیث سے ثابت ہیں وہ سب سنت مؤکدہ ادا کرنے کے بعد پڑھنا چاہئے ۔ چونکہ فجر اور عصر کی نماز کے بعد سنت اور نفل نمازیں نہیں ہیں اس لئے دعاء کی ترغیب کے پیش نظر اجتماعی دعاء کو مستحب اور مستحسن سمجھا گیا ۔ تاہم اجتماعی دعاء مسنونات نماز میں داخل نہیں ۔ چاروں ائمہ کے نزدیک اجتماعی دعاء مستحب و پسندیدہ عمل ہے۔
ذبح کا اسلامی طریقہ
سوال : مغربی ممالک میں آج کل حلال حرام کا کوئی تصور نہیں عموماً گوشت حرام ہوتا ہے، بغیر ذبح کیا ہوا ہوتا ہے اور مسلمان بلا کسی پس و پیش حرام جانوروں اور بغیر ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں(الا ماشاء اللہ)۔
الحمدللہ ہمارے حیدرآباد میں حلال گوشت کا اہتمام ہوتا ہے ۔ لیکن ذبح کے وقت جو طریقہ ہونا چاہئے اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ جانوروں کو تکلیف دی جاتی ہے ۔ براہ کرم شرعی نقطہ نظر سے جانور ذبح کرنے کا اسلامی طریقہ کیا ہے اور جانوروں کو ذبح کرنے کا مقصد اور فائدہ کیا ہے بیان کریں ؟
قاضی محمد عادل، گولکنڈہ
جواب : ذبح کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹایا جائے کہ جانور کا رخ قبلہ کی طرف ہو۔ جانور کو ذبح کرنے کے لئے آلہ تیز ہونا چاہئے تاکہ وہ غیر ضروری اذیت سے محفوظ رہے ۔ بہت سے جانوروں کو ایک ہی دفعہ اکھٹا ذبح کرنا مکروہ ہے۔ اسی طرح یہ بھی مکروہ ہے کہ ٹھنڈا ہونے سے پہلے جانور کے کسی عضو کو کاٹ کر الگ کردیا جائے یا اس کی کھال اتار دی جائے۔
ذبح کی ان سب احتیاطوں میں (شرعی اصطلاح میں) ’’ حلال ‘‘ طعام کا تصور مدنظر ہے، یعنی جانور ، مجموعی طور سے زہروں سے پاک ہو اور ایسا ہو جس سے زندگی کی حالت میں کوئی کراہت یا نجاست یا کثافت خاص وابستہ نہ ہو۔ ذبح کیا ہوا جانور ہر زہریلے مادے سے پاک ہونا چاہئے اور کوشش یہ ہو کہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو اور جتنی تکلیف دی جارہی ہے اسے بشری ضرورتوں کے لئے اضطراری بات سمجھ کر ، خدا کے پاک تصور سے وابستہ کر کے ایک تمدنی اجازت کے طور پر روا سمجھا گیا ہے اور ایذا رسانی کے ہر شائبے سے پاک ہے۔
غیر حاجی کا قربانی کے بعد حلق کرنا
عورت کی قربانی میں شوہر کا نام لینا یا والد کا
سوال : قربانی کے بارے میں عوام الناس میں عموماً یہ خیال ہے کہ جب صاحب قربانی اپنی طرف سے قربانی کردے تو وہ قربانی کے بعد اپنے بال نکال لے۔ بعض حضرات کی جانب سے یہ بات مشہور کروائی جارہی ہے ۔ شرعی نقطہ نظر سے آپ بیان فرمائیں کہ ہر صاحب قربانی پر بعد قربانی بال کم کرنا یا پورے بال نکالنا ضروری ہے یا نہیں؟ دوسری الجھن یہ ہے کہ جب کسی شادی شدہ خاتون کی جانب سے قربانی کی جائے تو اس کے نام کے ساتھ اس کے والد کا نام لینا چاہئے یا اس کے شوہر کا یا اس کی والدہ کا۔
محمد برہان الدین ، فلک نما
جواب : شرعاً حاجی کیلئے بعد قربانی حلق یا قصر کا حکم ہے ۔ غیر حاجی صاحب قربانی کیلئے پورے سر کے بال نکالنا یا بال کم کرنا نہیں ہے۔ نیز قربانی میں صاحب قربانی کے نام کے ساتھ اس کے والد کا نام لیا جائے ۔ خواہ مرد ہو یا عورت اور یہ حکم صرف صاحب قربانی کی تعیین کیلئے ہے جو نام سے بھی متعین ہے۔
عرفہ میں مقیم حاجی اور ظہر، عصر کی نماز
سوال : حج کے دوران عرفات میں ظہر اور عصر کی نماز کس طرح ادا کرنی ہوگی۔ برائے کرم تفصیل سے بتائیں ؟ کیا یہ نماز قصر ہوگی ؟
احمد نواب ، مراد نگر
جواب : حاجی اگر میدان عرفات میں قیام کے وقت مسافر ہو تو وہ قصر کرے گا ، ورنہ مکمل نماز ادا کرے۔
مسافر حاجی مسجد نمرہ میں بوقت ِ ظہر پہنچ جائے تو امام صاحب پہلے دو رکعت ظہر کے پڑھائیں گے ۔ سلام پھیرتے ہی پھر اقامت ہوگی اور امام صاحب دو رکعت (ظہر ہی کے وقت میں) عصر کے پڑھائیں گے۔ اس میں ظہر کے بعد کی سنتیں نہیں پڑھیں گے جو حاجی مقیم ہو (یعنی حج سے قبل اس کا مکہ مکرمہ میں پندرہ دن یا اس سے زائد قیام ہو) تو وہ مسجد نمرہ نہ جائے کیونکہ اس کو ظہر کی چار رکعت پڑھنی ہے اور مسجد میں امام دو رکعت پڑھاتا ہے۔ اس لئے مقیم حاجی اپنی قیام کی جگہ ظہر کے وقت ظہر کی فرض و سنتیں پڑھیں۔ پھر عصر کا وقت شروع ہونے کے بعد چار رکعت عصر کے پڑھے۔
ورقہ بن نوفل یہودی یا عیسائی ؟
سوال : حدیث شریف میں حال ہی میں یہ بات مطالعہ میں آئی کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی کا نزول ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری تفصیلات بی بی خدیجتہ الکبری سے ذکر فرمائیں تو بی بی خدیجتہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی خواہش پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری روئیداد ورقہ بن نوفل سے ذکر کیں۔ ورقہ بن نوفل نے تفصیلات سماعت کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی ۔
آپ سے گزارش یہ ہے کہ آخر ورقہ بن نوفل کون تھے ، کیا وہ عیسائی تھے یا یہودی تھے ۔ اس سلسلہ میں روشنی ڈالیں تو مہربانی ہوگی۔
عبدالواجد ، مہدی پٹنم
جواب : ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی بن قصی ، زمانہ جاہلیت کا ایک عیسائی عالم ، جو مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر تھا۔ انہوںنے دین حق کی تلاش میں انجیل کا مطالعہ کیا اور اتنا متاثر ہوئے کہ عیسائیت قبول کرکے نصرانی بن گئے ۔ وہ عربی اور عبرانی دونوں زبانیں بہ آسانی لکھ پڑھ سکتے تھے۔ اس زمانے میں انہوں نے انجیل کو عربی زبان میں لکھا تھا اور وہ خاصا عمر رسیدہ شخص تھا ۔ آخری عمر میں بصارت جاتی رہی تھی ۔
ورقہ بن نوفل ان عرب دانشمندوں میں سے ایک شخص تھا جس نے زمانہ جاہلیت میں جوا ، شراب دیگر نشہ آور اشیاء کو ترک کردیا تھا (المحبر، ص : 237 ) ورقہ بن نوفل کے اور بھی ہم خیال لوگ تھے جن میں ایک شخص ان کا خاص دوست زید بن عمر و بن نفیل بن عبدالعزی العدوی تھا ۔ جس نے زمانہ جاہلیت میں بت پرستی سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی اور مردار ، خون اور بتوں کے نام پر ذبح کئے گئے جانوروں کو بھی کھانے سے پرہیز کرتا تھا۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق غار حرا میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ جو پہلی وحی کا نزول ہوا اور جو گفت شنید رہی ، ساری تفصیلات نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی خدیجتہ الکبری سے ذکر کیں اور اندیشہ کا اظہار کیا کہ اس پیغام حق کے اعلان و دعوت پر آپ کی قوم آپ کو برداشت نہیں کرسکے گی ۔ حضرت بی بی خدیجتہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنھا جو بڑی دانشمند خاتون تھیں۔ انہوں نے آپ کو تسلی دی کہ ایسے نیک سیرت خوش اطوار بلند کردار اور بنی نوع انسان کے ہمدرد و خیر خواہ یتیموں و بیواؤں کے غمگسار و مددگار کو اللہ تعالیٰ تنہا نہیں چھوڑے گا ۔ حضرت خدیجتہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے اپنے ابن العم ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ جنہوں نے تفصیلات سن کر جہاں مقدس فرشتے کی تصدیق کی اور کہا کہ یہی وہ ناموس (فرشتہ ) ہیں جو حضرت موسی علیالصلاۃ والسلام کے پاس آیا کرتے تھے وہیں ورقہ بن نوفل نے نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم اس اندیشہ کی کہ قوم آپ کو نکالے گی کی تائید کی اور اپنے قلبی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ : کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو شہر بدر کردے گی کیونکہ جب بھی کوئی نبی اللہ کا پیغام لیکر آئے تو قوم نے ان سے اذیت ناک سلوک کیا اور شہر چھوڑنے پر مجبور کردیا ۔اگر میں ز ندہ رہا تو آپ کی تصدیق و حمایت کروں گا ۔ تھوڑے عرصہ بعد ورقہ بن نوفل وفات پاگیا ۔ ان کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی (جمھرۃ انساب العرب ص: 491 بحوالہ اردو دائرۃ معارف اسلامیہ)
قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرنا
سوال : اگر کوئی شخص قربانی نہ دے اور اس کی قیمت فقراء اور مساکین پر تقسیم کرنا چاہئے تو درست ہے یا نہیں ؟
حافظ محمد عرفان، بشیر باغ
جواب : قربانی شریعت میں مخصوص جانور کو مخصوص وقت میں اللہ تعالیٰ کے تقرب کی نیت سے ذبح کرنے کو کہتے ہیں ۔
درمختار برحاشیہ ردالمحتار ج : 5 ، ص : 205 کتاب الاضحیۃ میں ہے : ھی ذبح حیوان مخصوص بنیۃ القربۃ فی وقت مخصوص اور مالدار مسلمان پر قربانی کے جانور کا خون بہانا شرعاً واجب ہے ۔ چنانچہ اسی صفحہ میں ہے (مستحب) التضحیۃ ای اراقۃ الدم عملا و اعتقادا (علی حر مسلم مقیم مؤسر) بناء بریں اگر کوئی شخص بکرے کو ذبح اور خون بہائے بغیر زندہ خیرات کردے یا اس کی قیمت خیرات کردے تو اس سے قربانی ادا نہیں ہوتی بلکہ اس کو دوسرا بکرا ذبح کرنا پڑے گا۔ عالمگیری ج : 5 ، ص : 293 کتاب الاضحیۃ میں ہے ۔ حتی لو تصدق بعین الشاۃ او قیمتھا فی الوقت لا یجزیہ عن ا لاضحیۃ۔اور رد المحتار ج : 5 ، ص : 210 میں نہایہ سے منقول ہے : فان تصدق بعینھا فی ایامھا فعلیہ مثلھا مکانھا لان الواجب علیہ الاراقۃ۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں قربانی کے جانور کی قیمت یتیم ، بیوہ ، فقراء کو دینے سے شرعاً قربانی ادا نہیں ہوتی۔