محمد احترام اللہ
ہم اس بات کو جانتے ہی ہیں کہ قلم کی طاقت تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہوتی ہے جو بڑے سے بڑے انقلاب برپا کرتی ہے۔ علم، تقویٰ اور پرہیزگاری دنیا اور آخرت کے لئے ایک بہترین توشہ مانا جاتا ہے۔ تعلیم کے حصول کا ذوق و شوق علمیت اور حوصلے کو ترقی دیتا ہے۔ اگر کوئی مطالعہ سے مانوس نہیں تو پہلے پہل طبیعت پر جبر کرکے ہی شروعات کردیں پھر وہ خود ہی اپنا گرویدہ کردے گا۔ مطالعہ سے خلوت میں خوشی، تقریر میں زیبائش، تجویز و تربیت میں استعداد اور تجربہ میں وسعت ہوتی ہے۔ ہر اچھی، پائیدار اور مستحکم سرگرمی ابتداء میں ناممکن سی لگتی ہے لیکن کڑی محنت اور مسلسل جدوجہد اس کی تکمیل کو ممکن بنادیتی ہے۔ عالمی سطح کے تعلیمی معیار، مسابقت اور وسعت کو دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ طلبہ کو نہ صرف اپنے نصاب پر حاوی ہونا چاہئے بلکہ مختلف طرح کے عنوانات پر بھی شعور بیداری حاصل کرنا چاہئے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ
مجھ کو بھی پڑھ کتاب ہوں مضمون خاص ہوں
مانا ترے نصاب میں شامل نہیں ہوں میں
طالب علم کسی بھی قوم کے لئے ایک عظیم ترین سرمایہ ہوتا ہے۔ یہ ایسا اثاثہ ہے جو قوم کی بنیادوں کو مضبوط کرتا ہے۔ کامیاب، ذہین اور ذوق رکھنے والے طالب علم عالمی سطح پر مختلف شعبہ جات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔ کسی بھی طالب علم کی زندگی پر مختلف عناصر اثرانداز ہوتے ہیں جو مستقبل میں خود بخود نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ بچپن میں والدین یا سرپرست کی تعلیم و تربیت اطراف و اکناف کا ماحول، پرائمری اسکول سے اعلیٰ تعلیم کے حصول تک کا ماحول اور بذات خود طالب علم کے شخصی عادات و اطوار ایسے عناصر ہیں جو اس کی شخصیت کو بناتے ہیں۔ نفسیاتی نقطۂ نظر سے طلبہ مختلف طرح کے ہوتے ہیں۔ کچھ طلبہ سال بھر کی محنت و لگن سے مکمل نصاب پر حاوی ہوجاتے ہیں اور بے چینی سے امتحانات کا انتظار کرتے ہیں۔ کچھ طلبہ محدود نصاب کی تیاری کرتے ہیں اور ان کے دل و دماغ پر امتحانات کا خوف طاری رہتا ہے اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوران تعلیم محنت نہیں کرتے بلکہ اپنا ذہن مکمل طرح سے نقل نویسی کی طرف مائل کرلیتے ہیں۔ کچھ طلبہ جو فطری طور پر بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں ان پر امتحانات کا خوف سال بھر چھایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ امتحانات کی تیاری تو کرتے ہیں لیکن امتحان ہال میں امتحان کا ماحول، نئی جگہ، نگران کار پروفیسروں کی نقل و حرکت سے بے حد متاثر ہوکر بھول کا شکار ہوجاتے ہیں اور امتحان کا وقت ختم ہوجانے کے بعد یادداشت بحال ہوجاتی ہے۔
ایسے طلبہ کو کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ وہ امتحان سے قطعی نہیں گھبراتے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ایسے طلبہ کی اصلاح یہ ہے کہ دوران تعلیمی سال متعدد بار ان کا امتحان لیا جاتا رہنا چاہئے۔ امتحانات اور ناکامی کا خوف بھی زیادہ حساس طلبہ کے ذہن پر مضر نفسیاتی اثرات مرتب کرتا ہے اور بعض صورتوں میں تو خودکشی کی جانب راغب ہوجاتے ہیں اور اپنی زندگی ہی ختم کرلیتے ہیں۔ روزگار کے شعبہ میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کمزور تعلیمی ادارے کے طلبہ کامیابی کی ڈگری تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن ان میں قابل ملازمت مہارت اور مراسلتی مہارت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اسی لئے کمپنیاں، کارپوریٹ اور ہائی ٹیک ادارہ جات لاکھوں روپئے کے مصارف برداشت کرتے ہوئے ان طلبہ کو بطور خاص انجینئرنگ اور مینجمنٹ کے کامیاب طلبہ کو مکمل تربیتی مواقع فراہم کرتے ہیں اور اعلیٰ ترین معیاری قابلیت پر پہونچنے اور تربیت حاصل کرنے کے بعد ہی تقرر کیا جاتا ہے۔ امتحانات میں نقل نویسی ایک غیر اخلاقی اور قابل سزا سرگرمی ہوتی ہے لیکن کچھ طلبہ اس کو اپنی تخلیقی اور فن کارانہ صلاحیت سمجھتے ہیں اور ذہین ہونے کے باوجود منصوبہ بند طریقے سے نقل کرتے ہیں۔ ان کی ذہنی سوچ کو بدلنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے کیونکہ ایسے طلبہ زیادہ تر انا پرست ہوتے ہیں۔ نقل نویسی کرتے ہوئے اگر گرفت میں نہ آسکے تو انا پرستی اور مجرمانہ ذہنیت کافی طاقتور ہوجاتی ہے۔ تعلیمی اداروں کے ذمہ داران، والدین، سرپرست، پروفیسر صاحبان اور غیر تدریسی عملہ نقل نویسی پر پابندی کے لئے بروقت اقدامات کرتے ہیں۔
وہ ہمیشہ اپنی بھرپور ذمہ داریوں اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جس طرح جرم اور قانون کے درمیان ایک ٹکراؤ ہوتا ہے اسی طرح نقل نویسی کے عمل اور اس کو روکنے کے عمل کے درمیان بھی ٹکراؤ کی کیفیت رونما ہوتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ تعلیمی سال کے اختتام پر امتحانات سے قبل ایک سمینار کے تحت نقل نویسی کے جدید ترین حربوں اور ان کے تدارک کے تعلق سے تجاویز کے تحت علمی اراکین میں شعور بیداری پیدا کی جائے۔ نقل نویسی کرنے والے طلبہ اپنی ذہانت اور قوت ارادی کے لحاظ سے نقل کرنے کے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ اگر امتحان ہال کشادہ ہو اور نگران کار عملہ کم ہو تو دیکھا گیا ہے کہ کسی گوشے سے سرگوشیوں کی آوازیں آتی ہیں، کسی طالب علم کی نگاہیں قریبی طالب علم کے جوابی بیاض پر ہوتی ہیں، پرچی پر لکھے ہوئے نوٹس ہال میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی طالب علم بار بار کھانس رہا ہو یا چھینک رہا ہو تو یہ بھی نقل نویسی کی جانب اشارہ ہوتا ہے۔ کبھی کوئی اسمارٹ طالب علم مختلف حربوں سے نگرانکار کی توجہ ہٹادیتا ہے جیسے کہ اپنی سیٹ سے اُٹھ کر کہنا کہ امتحانی سوالات نصاب کے مطابق نہیں ہیں
، ٹیبل کا پایہ ٹھیک نہیں ہے اور لکھنے میں دشواری ہورہی ہے، قلم لانا بھول گیا ، سر میں شدید درد ہورہا ہے اس لئے سر درد کی گولی اور چائے کی ضرورت ہے یا ہال میں بجلی کی عدم دستیابی سے گھٹن ہورہی ہے اور چکر آرہا ہے اور اس دوران دوسرے طلبہ کو نقل نویسی کا موقع فراہم ہوجاتا ہے۔ فزکس، ریاضی، کامرس اور شماریات جیسے مضامین میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نقل نویسی ممکن ہوتی ہے۔ ایسے حربوں اور بے قاعدگیوں پر کنٹرول کرنے کے لئے چیف سپرنٹنڈنٹ کو باقاعدہ حکمت عملی اختیار کرنا پڑتا ہے تاکہ خوشگوار ماحول میں نقل نویسی پر کنٹرول بھی ہوجائے اور نظم و ضبط بھی برقرار رہے۔ ایک نگران کار کے لئے 20 طلبہ کا تناسب رکھا جانا مناسب سمجھا جاتا ہے۔ طلبہ کی تعداد کے لحاظ سے فاضل اور خارجی نگران کاروں کا بھی تقرر عمل میں لایا جاتا ہے تاکہ امتحان ہال اور باہر وقوع پذیر ہونے والے مسائل کو فوری حل کردیا جاسکے اور ضابطہ شکنی نہ ہونے پائے۔ جدید ترین انفارمیشن ٹیکنالوجی، کمپیوٹر کا چلن اور سماجی و سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ جرائم کا تناسب اور معیار بھی بڑھتا جارہا ہے لیکن اس کی روک تھام کے لئے ضروری قانونی ترمیمات بھی کی جاتی ہیں تاکہ شرائط و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دی جاسکے۔ نقل نویسی جیسی غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے اور بھی دیگر طریقے اختیار کئے جاتے رہے ہیں جیسے ہاتھوں پر لکھائی، ٹیبل پر لکھائی، کپڑوں کے اندرونی حصوں میں تیار شدہ پرچیاں رکھنا، ٹائیلٹ میں پرچیاں اور نوٹس کو چھپا کر رکھنا، مختلف فارمولے کلائیوں پر لکھنا، واٹر باٹل پر خاص روشنائی سے لکھنا، کالر کے نیچے اور موزوں پر پرچیاں چھپانا،
مائیکرو کے طریقہ کار سے نہایت ہی چھوٹی پرچیاں تیار کرنا اور خاص عینک سے پڑھ لینا، متحرک پن میں نقل نویسی کے مواد کو رکھنا اور ہلکا ہلکا گھما کر نقل کرنا، بعض نابینا طلبہ ایسے ہوتے ہیں جن کو دھندلا نظر آتا ہے وہ بہ آسانی تحریر کنندہ (اسکرائیبر) کو فریب دے دیتے ہیں۔ کچھ طلبہ بہرے پن کا بہانا بناکر کان میں ہیڈ فون لگا لیتے ہیں اور کپڑوں میں موبائیل فون چھپا کر بیرونی افراد سے رابطہ قائم کرکے جوابات تحریر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یونیورسٹی اور بورڈ انتظامیہ نقل نویسی کے تدارک کے لئے اور امتحانات میں شفافیت قائم رکھنے کے لئے امتحانی پرچوں کے دو یا تین سیٹ تیار کرتے ہیں اور مناسب طریقہ کار سے ایک سیٹ اجراء کیا جاتا ہے۔ کچھ مسابقتی امتحانات میں ایک ہی مضمون کے مختلف امتحانی پرچے تیار کئے جاتے ہیں اور طلبہ کو علیحدہ علیحدہ نوعیت کا پرچہ تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں نقل نویسی کے مواقع بہت ہی کم رہتے ہیں۔ محنت کرنے والے اور ذہین طلبہ سبقت لے جاتے ہیں۔ امتحان ہال میں طلبہ کے جسمانی حرکات کا مشاہدہ کرنا پڑتا ہے تاکہ نگران کار اپنی ذمہ داریوں کو بھرپور طریقہ سے نبھا سکیں۔ نقل نویسی ایک طرح کا فریب، دھوکہ، خود غرضی اور چالاکی ہے جس سے غیر اخلاقی اور ناجائز فائدہ اُٹھایا جاتا ہے۔ نقل نویسی کے ذریعہ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا اور اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کا خیال خود فریبی ہوتا ہے۔ معلومات کا فقدان ہوتا ہے اور اپنی پوزیشن کو برقرار رکھنا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔ کبھی بھی اور کہیں بھی نااہلی اور ناقابلیت اُبھر کر ظاہر ہوجاتی ہے۔ اعلیٰ ترین ٹکنالوجی کے فروغ سے نقل نویسی کے بھی جدید تکنیکی طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ موبائیل فون آج کل کمپیوٹر کا کام کرتے ہیں۔ ای میل اور وائرلیس مائیکرو فون سے سوالات اور جوابات کی ترسیل بہ آسانی ممکن ہوجاتی ہے۔ نقل نویسی پر قابو پانے کے لئے ایک جدید ترین کارآمد طریقہ کار ’’ترک مراسلتی آلہ‘‘ کا استعمال ہے تاکہ سگنل کے طریقے سے پیام رسانی کی روک تھام ہوسکے۔ ایسا آلہ کافی طاقتور ہونا چاہئے تاکہ فون سگنل کو روک سکے۔ یونیورسٹی اور بورڈس کے قواعد و شرائط کے حدود میں ہی اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایک اور کم لاگتی طریقہ کار ’’برقیاتی انگیز آلہ‘‘ FARADAY CAGE ہوتا ہے جو امتحان ہال کی دیوار پر لگادیا جاتا ہے تاکہ برقی لہروں کو روک سکے۔ یہ آلہ موبائیل فون کے سگنل کو بھی نہایت کمزور کردیتا ہے۔ ایسے اقدامات محدود دائرے کے لئے ہی ہوتے ہیں۔ امتحان ہال میں سی سی ٹی وی کیمروں کا استعمال بھی نقل نویسی کی روک تھام میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ طلبہ کو ان کیمروں کی موجودگی کا علم ہونے سے نقل نویسی کے لئے راغب نہیں ہوتے۔
تعلیمی ادارے کی لائبریری میں ’’اسٹوڈنٹ ہینڈ بک‘‘ رکھی جانی چاہئے تاکہ طلبہ برادری کو تعلیمی خلاف ورزیاں اور سزاؤں کی نوعیت، دیگر حقوق، طلبہ کے لئے ضابطہ اخلاق و قوانین اور اخلاقی ذمہ داریاں، طلبہ کے تحفظ کے لئے پالیسیاں، کردار سازی کے عناصر، شکایتوں اور تعلیمی مسائل کے تعلق سے شکایتوں کو پیش کرنے کا طریقہ، ضابطہ شکنی کے عناصر، کالج میں حاضری اور امتحانات کی پالیسیاں اور Examination Stress Management کے علاوہ انڈور اور آؤٹ ڈور سرگرمیوں کے بارے میں مکمل شعور بیداری حاصل ہوجائے۔