نقل مکانی کا تکلیف دہ عمل

کے این واصف
این آر آئیز ہوں یا خلیجی ممالک میں بسے خارجی باشندے ، ان کی اکثریت یہاں اپنے سر پہ چھت کی خواہش پوری کرنے یا ایک ذاتی مکان کے خواب کو حقیقت میں بدلنے یہاں آئے یا یوں کہئے کہ ایک ذاتی گھر کی تمنا میں گھر سے بے گھر ہوئے۔ خلیجی ممالک میں روزگار کے دروازوں کا کھلنا اور یہاں کوئی پانچ دہائیوں تک رومگار کا حاصل ہونا خصوصاً مسلمانوں کیلئے ایک نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ تقریباً نصف صدی کے اس طویل عرصہ میں خلیج کی پٹرول کی دولت نے کروڑوں غریبوں کی زبوں حالی کو دور کیا، انہیں خوشحال بنایا ، کچے موروثی مکانات پکے ہوئے ، چھوٹے مکان بڑے ہوئے اور بڑے مکان ہمہ منزہ عمارتوں میں تبدیل ہوئے۔ بہتوں کو منزلیں اور کچھ کم نصیب سفر ہی میں رہے ۔ وہ لوگ جو یہاں ابتدائی زمانے میں آئے تھے۔ انہوں نے اپنے مقصد حاصل کرلئے اور جو اس بازارِ زر و دولت میں دیر سے آئے وہ اپنی جھولی بھر نہ سکے۔ ہم گلف کی اس کہانی کو دوسرے زاویہ سے دیکھیں تو واقعی آزادی کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں پر جو مایوسی چھائی تھی ، 1947 ء سے 1970 ء تک مسلمانوں کے معاشی حالات جو تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہوئے تھے ، انہیں خلیج کی پٹرول کی دولت نے بڑا سہارا دیا ۔ نہ صرف ہندوستان کے مسلمان بلکہ بڑی تعداد میں غیر مسلم ہندوستانی بھی اس دولت سے مستفید ہوئے بلکہ آج کی تاریخ میں خلیجی ممالک میں ہندوستان کے مسلمانوں سے زیادہ تعداد غیر مسلم باشندوں کی ہے ۔ یہاں اس بات ذکر بیجا نہ ہوگا کہ تلنگانہ مسلم کمیونٹی میں خلیج کی دولت نے ایک معاشی انقلاب بپا کیا ۔اگر مسلمان ا پنے کمائے ہوئے پیسہ کو سلیقہ سے خرچ کرتے اور منصوبہ بندی کے ساتھ اس کی سرمایہ کاری کرتے ، اسراف اور فضول خرچیوں سے اجتناب کرتے تو آج تلنگانہ کے مسلمان معاشی طور پر بہت مضبوط ہوتے۔ ہندوستان کے معاشی گراف میں اٹھان کا ذکر کیا جائے تو اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ خلیجی ممالک میں کام کر کے اور ہندوستان کے تاجروں نے ان ممالک میں اپنا کاروبار پھیلاکر کروڑہا روپیہ کمایا ۔ ہندوستان میں نفرت پھیلانے والوں اور مسلمانوں کو ملک پر بوجھ سمجھنے کا تصور دینے والوں کو کبھی ان حقائق پر بھی نظر کرنی چاہئے کہ ان کو مسلمانوں اور مسلم ممالک سے کس قدر فائدے حاصل ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں۔

پچھلے چند سالوں میں سعودی عرب کے حالات نے بھی کروٹ بدلی۔ یہاں سے خارجی باشندوں کے حق میں ’’اچھے دن‘‘ ہوا ہوگئے ۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور جن کی ملازمتیں باقی ہیں ان کی تنخواہوں اور الاؤنس میں تخیفیف کردی گئی ۔ تنخواہیں غیرمعمولی تاخیر سے ملنے لگیں۔ حالات سے تنگ آکر لوگ اپنے وطن لوٹنے کا قصد کرنے لگے یا اکثریت نے اپنے اہل و عیال کو وطن بھیج دیا اور خود مزید کچھ عرصہ حالات سے لڑتے ہوئے یہاں زندگی بسر کرنے کا اردہ کیا ۔ اس طرح برسوں سے بسی بسائی زندگیاں بکھر گئیں لیکن یہاں کے خارجی باشندوں کیلئے زندگی ایک تکلیف دہ امر بن گئی ۔ یہاں رہنے والے اپنی دوسری نقل مکانی کے تجربہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ اپنے بسے بسائے گھر کو جانے کیلئے نہ چاہتے ہوئے اپنے اثاثہ جات کو کوڑیوں کے مول فروخت کرنے یا بغیر کوئی قیمت حاصل کئے یہاں چھوڑ کر جانے پر مجبور ہیں۔ بڑے چاؤ سے خریدا اپنا یہ قیمتی اور معیاری سامان نہ وہ اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں نہ اس کی قیمت ہی وصول کرسکتے ہیں۔ 25 ، 30 سال اور اس سے بھی زیادہ عرصہ یہاں گزارنے والوں میں یہاں کا ہر دوسرا ، تیسرا شخص شامل ہے جس نے یہاں آرام اور عیش و عشرت کی زندگی بسر کی ۔ ان کے بچے تو یہیں پیدا ہوئے ، جنہیں بجلی کے بنا گھنٹوں گزارنے کی عادت نہیں، نہ انہیں پانی کی قلت کا علم ہے ، نہ ان کے کانوں نے کبھی مچھروں کی بھن بھناہٹ سنی ، نہ انہیں فضائی آلودگی کی عادت ہے، نہ انہیں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کا تجربہ ہے ، نہ ان کا میدہ ملاوٹی غذائی اشیاء برداشت کرسکتا ہے ۔ ایک اور کڑوی حقیقت ، ایسے بہت سے ا ین آر آئیز ہیں جوپنی ابتدائی عمر میں خلیجی ممالک چلے آئے تھے اور اپنی کمائی مسلسل گھر اپنے والدین یا بڑے بزرگوں کو روانہ کرتے رہے ۔ مشترکہ خاندانوں نے اپنے پرانے چھوٹے گھر کو پختہ اور بڑا کردیا۔ باہر سے آیا پیسہ تعمیر میں لگ گیا ، شادیوں اور تقاریب کی نذر ہوگیا ، گھر کا معیار زندگی بلند ہوگیا اور جب یہ پیسہ بھیجنے والا واپس وطن آیا تو اس کو گھر میں بمشکل ایک کمرہ ملا ۔ گھر کے بزرگوں نے کہہ دیا کہ یہ گھر تو سب کا ہے ۔ گلف میں رہنے والوں کی اکثریت نے اپنے پیسے کی کوئی سرمایہ کاری کی، نہ کوئی کاروبار قائم کیا نہ ایک گھر کے علاوہ مستقل کے سہارے کیلئے کچھ دیگر ذرائع آمدنی کا انتظار کیا ۔ اپنے پیسے کے استعمال کو اپنے بڑوں کے فیصلوں پر چھوڑا یا قریبی رشتہ داروں کے بھروسہ کیا ۔ باہر رہنے والے بے شمار افراد کی یہی کہانی ہے، جن کو انہی پتوں نے ہوا دی جن پہ تکیہ تھا ۔ مگر یہ حقیقت ان پر تب کھلی جب وہ باہر سے ڈھلتی عمر میں اپنی ملازمت کھوکر وطن واپس آئے۔ وطن سے دور رہنے والے وطن میں بسے اپنے بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سے بہت انس و محبت رکھتے ہیں۔ وہاں کیلئے ہمیشہ تڑپتے اور ترستے ہیں۔ ان کی ہر ضرورت پر فراخدلی سے مدد کیلئے آگے بڑھتے ہیں۔ مگر ان کو اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ خلوص و محبت کی گرم جوشی اسی دن سرد پڑجاتی ہے ، جب وہ ملازمت سے فارغ ہوکر وطن واپس آتے ہیں۔ وہ سارے لوگ جن کیلئے وہ برسوں تڑپتے رہے ، سارے اجنبیوں کا رویہ اختیار کرلیتے ہیں اور بعض وقت تو ان باہر سے آنے والوں سے لوگ ملنے سے بھی کتراتے ہیں۔

خارجی باشندوں کو نہ صرف وطن میں رہنے والے اپنوں کی بد نیتی اور بدسلوکی نے دکھ پہنچائے بلکہ کچھ اہل وطن انہیں یہاں آکر کچھ سبز باغ دکھاکر دھوکہ دے گئے ۔ ان میں وہ لوگ ہیں جو اپنے مختلف پراجکٹس لیکر یہاں آتے ہیں اور ان میں سرمایہ کاری کیلئے این آر آئیز کو راغب کرتے ہیں اور ان سے رقم حاصل کرتے اور چلتے بنتے ہیں۔ جانے کے بعد پھر نہ کبھی رابطہ میں آتے ہیں نہ ان کے پراجکٹس کے بارے میں کوئی اطلاع ہی بہم پہنچاتے ہیں۔ ایک بار ایک صاحب فلائٹس فروخت کرنے یہاں آئے اور سعودی عرب کے مختلف بڑے شہروں کے دورے کر کے ایک ہی فلیٹ ایک سے ز یادہ افراد کے نام فروخت کر کے ان سے کچھ اڈوانس حاصل کرلیا ۔
بہرحال خلیجی ممالک میں ایک لمبا عرصہ گزار کر جسے وہ ا پنا وطن ثانی تصور کرنے لگے ۔ یہاں سے دوسری ہجرت پر نکل رہے ہیں بلکہ ان کی نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوئے 6 ماہ سے زیادہ ہوگیا ۔ قافلے در قافلے لوگ یہاں کے ایرپورٹس سے روانہ ہورہے ہیں۔ ان میں وہ خارجی باشندے اطمینان کے ساتھ وطن لوٹ رہے ہیں جنہوں نے بہت طویل عرصہ یہاں گزارا، منصوبہ بند طریقہ سے وطن میں اپنے کیلئے کچھ آمدنی کے ذرائع پیدا کرلئے اور اپنے مستقبل کو محفوظ کرلیا لیکن پریشانی ان لوگوں کیلئے جو زیادہ کچھ پس انداز نہیں کرسکے یا اپنی ذمہ داریوں کی وجہ سے کچھ زیادہ بچا نہ پائے۔ نیز وہ لوگ جن کے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا ان کے آگے یہ نقل مکانی یا دوسری ہجرت ایک تکلیف دہ مرحلہ ہے۔ ہم یہ بات پھر ایک بار دہرانا چاہیں گے کہ یہ لاکھوں کی تعداد میں یہاں سے وطن واپس جانے والے این آر آئیز وہ لوگ ہیں جنہوں نے برسہا برس وطن کو بشکل زر مبادلہ فائدہ پہنچایا ۔ مگر ملک سے کچھ لیا نہیں مگر آج یہی لوگ مشکل میں گھرے ہیں۔ اب یہ لوگ وطن میں کسی سے مدد بھی طلب نہیں کرسکتے کیونکہ وطن میں بھی معاشی حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ اب لے دے کے این آر آئیز کی نگاہ حکومت کی طرف ہی اٹھتی ہے ۔مرکزی حکومت کا عوام کے تئیں پچھلے چار سال میں جو رویہ یا طریقہ کار رہا ہے وہ اظہر من الشمس ہے ۔ ترقیاتی اسکیمات ، عوامی فلاح و بہبود یا روزگار کے نام پر کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ خلیجی ممالک میں ریاست کیرالا کے بعد سب سے بڑی تعداد تلنگانہ کے رہنے والوںکی ہے ۔ شکر ہے کہ حکومت تلنگانہ این آر آئیز کے تئیں نرم گوشہ رکھتی ہے ۔ ریاستی وزیر کے ٹی راما راؤ جو ایک طاقتور سیاسی شخصیت ہیں وہ ریاست میں این آر آئیز امور کے نگران بھی ہیں۔ ممبر آف پارلیمنٹ شریمتی کویتا (دختر کے چندر شیکھر راؤ چیف منسٹر تلنگانہ) بھی تلنگانہ این آر آئیز کے مسائل میں خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔ انہوں نے کئی خلیجی ممالک کے دورے کئے اور این آر آئیز سے شخصی ملاقاتیں کر کے ان کے مسائل سے وقفیت حاصل کی ۔ نیز پچھلے اسمبلی اجلاس میں حکومت نے ایک کثیر رقم این آر آئیز ویلفیر فنڈ کے نام سے مختص کئے جانے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ فنڈ راست این آر آئیز امور کے شعبہ کو نہیں دیا گیا بلکہ صرف یہ اعلان کیا گیا کہ رقم این آر آئیز کی فلاح و بہبود کے سلسلہ میں صرف کی جائے گی اور یہ بھی کہا تھا کہ اس کی تفصیلات کا اعلان جلد کیا جائے گا اور یہ رقم ایک ٹھوس منصوبہ پر خرچ کی جائے گی ۔ کے ٹی راما راؤ نے اسمبلی میں این آر آئیز کیلئے حکومت تلنگانہ کی جانب سے ایک جامع پروگرام بنائے جانے کا ذکر بھی کیا تھا ۔ حکومت تلنگانہ عاجلانہ طور پر این آر آئیز کی فلاح و بہبود کیلئے تیار کردہ منصوبہ کا جلد اعلان کرے بلکہ اسے روبہ عمل لائے تو وطن لوٹنے والے این آر آئیز کو راحت حاصل ہوگی۔ ہم یہاں یہ بھی بتا دینا مناسب سمجھتے ہیں کہ ماہ ستمبر 2018 ء (نئے ہجری سال سے) سعودی عرب میں خارجی باشندوں پرحالات مزید خراب ہونے والے ہیں ۔ بتایا جارہا ہے کہ یکم محرم 1440 ھ سے وزارتِ محنت اور دیگر ادارے سخت تفتیشی دورے کرے گی اور اپنے ورک پرمٹ کے مطابق کام نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی ۔ لہذا تلنگانہ حکومت فوری طور پر اس جانب توجہ کرے اور عام انتخابات کی مصروفیات میں مشغول ہونے سے قبل این آر آئیز کیلئے بنائے گئے منصوبہ پر عمل آوری شروع کرے ۔ اس سے نہ صرف این آر آئیز کا بھلاہوگا بلکہ تلنگانہ حکومت (ٹی آر ایس) کو انتخابی فائدہ بھی حاصل ہوگا۔
knwasif@yahoo.com