نظم و نسق کو بہتر بنانے کی ذمہ داری

تلنگانہ ؍اے پی ڈائری     خیر اللہ بیگ
تلنگانہ میں گرمی کی شدت کے ساتھ ہی پانی کی قلت بھی پیدا ہوگئی۔ شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں کوشاں نظم و نسق کیلئے پانی کی سربراہی اہم مسئلہ ہے۔ حکومت تلنگانہ شہری آبادی کی ضروریات کی تکمیل میں خود کو ناکام محسوس کرنے لگی ہے اس لئے تلنگانہ میں نئے اضلاع کے قیام کا منصوبہ ملتوی رکھا گیا ۔ نئے اضلاع کی تشکیل کا مطلب عوام کو بہتر سے بہتر نظم و نسق فراہم کرنا ہے مگر ریاست اور مرکز کے درمیان جس طرح کا خطِ فاصل پایا جاتا ہے نئے اضلاع کا قیام فی الفور ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ حکومت نے بھی یہ اندازہ کرلیا ہے کہ شہریوں کو بنیادی سہولتوں میں پینے کے پانی کی سربراہی کو یقینی بنانا اولین فرض ہے، آج کے خوشحال انسان کو بہت سی مہلک بیماریوں کا سامنا ہے اس کی بڑی وجہ پانی کی آلودگی ہے۔

شہر حیدرآباد میں آلودہ پانی کی سربراہی کی شکایت دیرینہ ہے۔ اضلاع میں خاص طور پر نلگنڈہ میں فلورائیڈ پانی کی وجہ سے کئی امراض کا شکار عوام حکومت کے متبادل انتظامات کا انتظار کررہے ہیں۔ صنعتی ترقی کی دوڑ میں حفاظتی تدابیر کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جانا ہی آلودگی کا باعث ہے۔ صنعتوں سے نکلنے والا فضلہ جب مضر اجزاء بن کر پانی میں مل جاتا ہے تو یہ پانی انسانی حیات کے لئے زہر بن جاتا ہے ۔ عوام خاصکر خوشحال طبقہ کے لوگ صاف پانی خرید کر مطمئن ہوجاتے ہیں جبکہ گندے پانی کے اثرات مختلف وجوہات سے انسانی خوراک کا حصہ بنتے ہیں کیونکہ ہوٹلوں میں کیا جانے والا پکوان، سڑک کے کنارے لگائی جانے والی بنڈیوں کا پکوان اور اس کو تناول کرنے والے انسانوں کی کثیر تعداد ان دنوں صحت کی خرابیوں میں مبتلاء ہورہے ہیں۔جب گندہ پانی زیر زمین پانی کو آلودہ کرتا ہے تو زمین کی تاثیر بھی بدل جاتی ہے۔ جن کھیتوں میں سبزیاں، دالیں اور اجناس گندے پانی کے اثرات سے پیدا ہونے والے زہر سے نشوونما پاکر انسانوں میں منتقل کردیتی ہیں تو انسان کا تمام تر مدافعتی نظام بے اثر ہوجاتا ہے۔ آج سرکاری دواخانوں سے لیکر بڑے کارپوریٹ دواخانوں میں ڈائگناسٹک سنٹرس کا جائزہ لیں تو ہر روز سینکڑوں مریض مختلف امراض کا شکار نظر آئیں گے۔ محکمہ صحت عامہ پر توجہ دینا حکومت کا اولین فرض ہے، حیدرآباد اور تلنگانہ کے دیگر اضلاع میں پانی کی قلت کی صورتحال بہت خطرناک حد تک پہونچ گئی ہے۔

برسوں سے ماحولیات اور صنعتی گندگی کی شکایت سنتے آرہے ہیں مگر کسی بھی حکومت نے صنعتی و شہری گندگی کو زہرآلود ہونے سے بچانے کیلئے صفائی والے کام انجام نہیں دیئے۔ پڑوسی ریاست مہاراشٹرا کے ایک ٹاؤن لاتور میں پانی کے لئے تشدد ہونے کی خبر عام ہوتے ہی ہماری ریاست تلنگانہ کی صورتحال بھی ابتر ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ تلنگانہ میں نئے اضلاع کا وجود عمل میں آتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اسمبلی کی 119 نشستوں میں اضافہ ہوکر وہ 153 ہوجائیں گی اور ان اسمبلی حلقوں پر انتخاب ہوتا ہے تو عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور ان کے دیگر بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے رکن اسمبلی کی راست نظر رہے گی مگر یہ اسکیم اس وقت حکومت کے لئے خرچہ کا باعث بن رہی ہے۔حکومت نے نئے اضلاع کے قیام کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی تشکیل دی تھی اور اس ماہ کے اختتام تک رپورٹ بھی داخل کرنی تھی لیکن حکومت نے کمیٹی  سے رپورٹ کو روک دینے کیلئے کہا ہے کیونکہ اے پی ری آرگنائزیشن ایکٹ 2014 کی دفعہ 26 میں نئی ریاستوں میں اسمبلی حلقوں میں اضافہ کے لئے مرکز کی منظوری ضروری ہے۔ اس قانون میں وعدہ کیا گیا ہے کہ تلنگانہ میں 153 اسمبلی حلقے بنائے جائیں اور آندھرا پردیش میں 175 سے بڑھاکر 225 اسمبلی حلقے کئے جائیں۔ منصوبہ تو یہ تھا کہ 2جون تک یوم تاسیس تلنگانہ کے موقع پر نئے اضلاع کا اعلان کیا جائے مگر اب حکومت نے اپنے منصوبہ کو روک رکھا ہے۔

درحقیقت چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ اور چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو اپنے طور پر مرکز سے نمائندگی کرچکے ہیں اور تلنگانہ کے چیف سکریٹری راجیو شرما نے بھی مرکزی معتمد داخلہ راجیو مہارشی کو 14فبروری کو مکتوب لکھ کر اسمبلی حلقوں میں اضافہ کی جانب توجہ دلائی ہے۔ تلنگانہ میں نئے اضلاع کا قیام عوام کو بہتر سہولتیں فراہم کرسکتا ہے۔ اس کے لئے اخراجات کا بندوبست ٹی آر ایس حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مگر سرکاری خزانہ اس بات کی اجازت نہیں دے رہا ہے کہ اخراجات کے فیصد میں اضافہ ہوجائے۔ ملک گیر سطح پر ہر ایک ضلع میں آبادی کا تناسب 19لاکھ ہوتا ہے جبکہ تلنگانہ میں ہر ضلع میں آبادی کا تناسب 35 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے تو پھر یہاں نئے اضلاع کا قیام ناگزیر ہے۔ تلنگانہ میں مردم شماری کے حساب سے معاشی و سماجی منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے۔ تلنگانہ کی آبادی میں مسلمانوں کی شرح آبادی زیادہ ہے لیکن مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں حکومت کی پالیسیاں صرف انتخابی وعدوں کی کیل پر اٹکے ہوئے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے ان کا حق دیا جانا ایک اخلاقی اُصول مانا جاتا ہے مگر حال ہی میں سالانہ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے عزم حج کرنے والے تلنگانہ کے عوام کو بڑی مایوسی ہوئی ہے۔
تلنگانہ کیلئے مرکزی حج کمیٹی کے کوٹہ میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ ہزاروں درخواستوں میں سے صرف چند خوش نصیب عازمین کا انتخاب عمل میں آیا۔ ریاستی حکومت کی یہ اولین ذمہ داری تھی کہ وہ حج کوٹہ میں ریاست کے حصہ میں اضافہ کیلئے موثر نمائندگی کرتی لیکن حکومت ہر معاملہ میں مرکز سے موثر نمائندگی کے بجائے صرف پوسٹ مین کا کام کررہی ہے۔ دہلی پہنچ کر پی ایم او کے دوازہ پر دستک دے کر واپس آنے والے تلنگانہ کے نمائندوں نے اب تک مرکز سے کوئی کامیاب نمائندگی نہیں کی۔ حج کوٹہ میں اضافہ کیلئے آئندہ چند دنوں میں نمائندگی کا فیصلہ تو کیا گیا ہے مگر اس میں کامیابی ملے گی یہ یقین نہیں ہے۔ اگر ریاست تلنگانہ کی بااثر سیاسی و سماجی و مذہبی شخصیتوں نے مل کر مرکزی وزارت حج سے نمائندگی کریں اور حکومت سعودی عرب سے بھی درخواست کی جائے تو حج کوٹہ میں اضافہ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
قابل فہم بات یہ ہے کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے وزارتی کارکردگی کا ماہانہ جائزہ لینے اور کاموں کی عاجلانہ یکسوئی کے لئے شیڈول بنائیں۔ حج کوٹہ سے لے کر مسلمانوں کے لئے تحفظات کا وعدہ اور پھر شہریوں کے حق میں بہتر نظم و نسق کی فراہمی کا خواب پورا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر روز وزراء اور سرکاری محکمہ جات کی کارکردگی کی جانچ کی جائے۔ چیف منسٹر کو یہ اندازہ تو ہورہا ہے کہ انہوں نے بہت بلند وعدے کئے تھے تو پورا کرنے کے لئے مضبوط عزم و کارکرد نظم و نسق کی ضرورت ہے، اس وقت یہ دونوں ہی کم دکھائی دیتے ہیں۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو سیاسی طور پر مضبوط بنانے والے چیف منسٹر اپنی حکومت کو مضبوط بنانے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ اس پارٹی کا 17اپریل کو کھمم میں جب پلینری سیشن منعقد ہوگا تو پارٹی اور حکمرانی کے فرائض کے درمیان ان کی صلاحیتوں کو آزمانے والوں کیلئے ایک اور موقع ملے گا۔
kbaig92@gmail.com